129نتظار، انتظار اور بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ دن آپہنچا جس کا انتظار بہت سارے ساتھیوں کو تھا۔ گھر سے نکلتے ہوئے جوش ایسا کہ بس کوئی ہیلی کاپٹر فضائی سفر کے ذریعے جلدی جلدی منزل پر پہنچادے۔ جلدی جلدی ہم اسلامی ریسرچ اکیڈمی جا پہنچے جہاں ساتھی گائیڈنس فورم کی جانب سے اس سال بھی 26، 27 دسمبر کو ’’ورکشاپ برائے قلمکاران‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام میں خواتین کے لیے پردے کا انتظام تھا۔ تلاوتِ کلام پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے انچارج عبدالرحمن مومن، جبکہ معاون حسام چندریگر تھے، جنھوں نے شرکا سے مخاطب ہوکر پروگرام کا تعارف اور چند ہدایات پیش کیں۔ پھر شرکا نے مختصراً اپنا تعارف پیش کیا۔ سب سے پہلے مشہور و معروف شاعر اجمل سراج کو ’’ادب اور ادیب‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرنے کی دعوت دی گئی۔ ہم یہ سنتے آئے تھے کہ بغیر اخلاص کے عمل بیکار ہے لیکن اجمل سراج صاحب نے ایک نئی راہ دکھلائی کہ ادیب بغیر اخلاص کے کچھ نہیں۔ ’’اخلاق‘‘ کی سب سے اہم صفت اخلاص ہے کہ ہر کسی سے خلوص سے پیش آنا، محبت رکھنا یہی اخلاص ہے، لیکن۔۔۔ اخلاق، اخلاص کے بغیر کھوٹے سکے کی طرح ہے۔ مثلاً ایک پھول کا کام خوشبو دینا ہے، لیکن اگر پھول کاغذ کا ہو؟ اُنھوں نے مزید کہا کہ مطالعے سے زیادہ ادیب کو اپنی شخصیت کی تعمیر کرنی چاہیے۔ ایک حقیقی ادیب کا کام صرف دینا ہے، لینا نہیں۔ اپنے لوگوں کو، معاشرے کو، اپنے قلم سے بہت کچھ دینا ہے مگر لینے کی تمنا نہیں رکھنی۔ غرض اجمل سراج صاحب نے ہمارے لیے نئی راہ متعین کرنے میں بہت مدد کی۔
اس کے بعد ہم سب کے ہردلعزیز قلمکار حماد ظہیر تشریف لائے۔ ان کا موضوع کچھ اس طرح کا تھا ’’کہانی کیسے لکھیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ہم جب بازار سے گزرتے ہیں اور عام آدمی جب گزرتا ہے تو اس میں فرق ہوتا ہے۔ عام آدمی صرف گزر ہی جاتا ہے جبکہ ایک ادیب بہت توجہ سے ہر بات کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔ جب ہمیں کوئی خیال، کوئی آئیڈیا ذہن میں آئے تو فوراً اس کا مرکزی خیال لکھ لیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ پوری کہانی ہی لگے ہاتھوں لکھ ڈالیں ورنہ مرکزی خیال ضرور لکھ لیں۔ کسی بھی کہانی میں منظر نگاری بہت اہم ہوتی ہے۔ آپ کا مشاہدہ جتنا اچھا ہوگا، اتنے ہی منظر یا مناظر آپ اچھا لکھ سکیں گے۔ کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اپنے کردار کو سنسنی خیز بنائیں۔ وہ مشکل فیصلہ لیتا نظر آئے اور کبھی کبھی مختلف، مثلاً ایک گھر میں آگ لگ چکی ہے، تمام لوگ کھڑکیوں سے کود کر اپنی جانیں بچا رہے ہیں لیکن آپ کا کردار سیڑھیوں کی طرف بڑھ جائے جہاں آگ بہت شدید ہو، لیکن وہ بہت سے لوگوں کی جان بچاتا نظر آئے، اپنی جان چاہے خطرے میں کیوں نہ ہو۔ احساس، جذبات یعنی ہیرو یا کردار کو ماردو (ایسی کہانیاں جن میں ہیرو قربانی دیتے ہوئے مرجائے وغیرہ، بہت دیر تک یاد رہتی ہیں)۔ اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ کہانیوں میں صدمہ نہ ہو، اُمید کے جگنو ہوں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی بتایا کہ مکالمے لکھتے وقت کسی کردار میں اپنے آپ کو ڈھال لیں۔ مثلاً کردار کسی فوجی کا ہے تو لکھنے والا اپنے آپ کو فوجی سمجھے اور پھر مکالمے لکھے۔ اسی طرح آپ کا ہیرو اپنے سینے میں بہت راز رکھتا ہو۔ حماد بھائی اپنے موضوع سے اس طرح کا انصاف کرتے ہیں کہ ذہن میں کوئی سوال ہی نہیں آتا، سب کچھ بس سمجھ آجاتا ہے۔
’’وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘ بہت خاص لوگوں کے لیے کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک ’’ورکشاپ برائے قلمکاران‘‘ ان کے بغیر ادھوری ہے جو کبھی ساتھی رسالے کے مدیر رہ چکے ہیں۔ جی ہاں! میں نجیب احمد حنفی کی بات کررہا ہوں۔ ان کا موضوع تھا ’’ہم کیوں لکھیں‘‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ لکھنے والوں کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی تعریف اور واہ وا کے لیے نہ لکھیں بلکہ ’’ابلاغ‘‘ کو اپنا رہنما بنا کر لکھیں۔ اب یہ ابلاغ کیا ہوتا ہے؟ ہم آپ کو نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد بتائیں گے، کیوں کہ نجیب بھائی نے بھی وقفے کے بعد بتایا تھا۔
وقفے کے بعد نجیب احمد حنفی نے ابلاغ کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلاغ کے ذریعے دین اسلام کو پھیلایا۔ جنگ و جدل سے زیادہ تر گریز کیا۔ مکہ جو انتہائی طاقت ور کافروں سے بھرا پڑا تھا جبکہ مسلمان مٹھی بھر تھے۔ ایک وقت پھر ایسا آیا کہ مکہ میں مسلمان طاقت ور ہوگئے اور کفار مٹھی بھر رہ گئے۔ یہ سب کچھ ابلاغ کی بدولت ہوا، یعنی کفار میں سے کوئی دینِ اسلام قبول کرتا تو سارا قبیلہ مسلمان ہوجاتا۔ لڑائی جھگڑے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ابلاغ بول کر یعنی تقریر کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے اور تحریر کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ابلاغ کی قوت سے پانچ ارب لوگوں کو تسخیر کریں چاہے شام و برما ہو یا کشمیر و فلسطین۔ مثلاً کشمیر میں عرصے سے آزادی کی جدوجہد ہورہی ہے لیکن کیا ایسا ہوا کہ ہندوستان میں بیٹھ کر کوئی ہندوستانی لیڈر یا اہم شخصیت آپ کے ابلاغ سے متاثر ہوئی؟
اس کے بعد مدیر ذوق و شوق مولانا عبدالعزیز صاحب نے ’’لکھنے کے بعد کے مراحل‘‘ کے موضوع پر کچھ باتیں کیں۔ کہتے ہیں کہ کہانی لکھنے کے بعد پال ڈال لیں۔ ہم نے سوچا کہ جناب! اب تک کبوتر، بلیاں، توتے وغیرہ پالتے آئے تھے۔ اب کہانیوں کو پالنا پڑے گا؟ لیکن جلد ہی عبدالعزیز صاحب نے ہماری اس غلط فہمی کو دور کیا کہ پال ڈالنے سے مراد ہے کچھ دنوں کے لیے اس لکھی ہوئی کہانی کو چھوڑ دیں۔ دس یا پندرہ دن بعد دوبارہ اس کہانی کو اٹھائیں، کہانی کو نظرثانی سے گزاریں اور نظرثانی کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں: کوئی لفظ زیادہ ہو تو کاٹ دیں۔ کوئی زاید کردار شامل ہے تو اسے ہٹادیں۔ فنی خرابی کوئی نہ ہو جبکہ زاید فقروں یعنی مکالموں کو کاٹ دیں۔ اس کے علاوہ املا اور قواعد مکمل درست ہوں۔ خاص طور پر زبان بہت عام اور سادہ ہو۔ سادہ زبان سے کہانی زیادہ پُراثر ہوجاتی ہے۔ ممکن ہو تو بچوں کو اکٹھا کریں اور اُنھیں اپنی کہانی سنائیں۔ کہانی سناتے وقت بچے کی دلچسپی دیکھیں کہ کس جگہ وہ دلچسپی لے رہا ہے اور کس جگہ نہیں۔ پھر ان سے تجاویز لیں۔ تعریف یا تنقید، دونوں کو قبول کریں۔
سابق مدیر آنکھ مچولی سلیم مغل نے’’شاہکار کہانیاں اور نظمیں‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہت پہلے زمانے میں لوگ غاروں اور جنگلوں میں بہت زیادہ فاصلے پر رہتے تھے۔ اشاروں کے ذریعے گفتگو کرتے۔ آہستہ آہستہ زمانہ گزرا اور داستان گوئی شروع ہوئی۔ لوگ داستان سنتے وقت اس میں اتنے کھو جاتے تھے کہ آگے پیچھے کا کچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔ کبھی رو پڑتے، کبھی غصے میں آجاتے۔ یہ سب داستان سنتے وقت کیفیات ہوتی تھیں۔ پھر زمانہ آگے بڑھتا گیا اور ڈرامے سے 3D کا زمانہ بھی آگیا۔ کہانی پہلے بھی تھی اور آج بھی کہی اور سنی جاتی ہے اور جاتی رہے گی۔ خیال، کردار، مکالمہ، ڈائیلاگ، تحیر، تجسس، کلائمکس اور اختتامیہ۔۔۔ یہ سب کہانی کے لوازمات ہوتے ہیں۔ اچھے مشاہدے والی کہانی سب سے زبردست ہوتی ہے۔ ایک کہانی کو Conflict یعنی کوئی مسئلہ ہی آگے لے کر جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ کہانی میں ’جملہ‘ جامع اور کم سے کم الفاظ پر مشتمل ہوں۔ صحافتی اصول کے مطابق ایک جملہ آٹھ الفاظ اور زیادہ سے زیادہ بارہ الفاظ پر مشتمل ہو۔ اگر سولہ الفاظ کا کوئی جملہ لکھا جائے تو اسے بدترین سمجھا جائے گا۔ چوں کہ کسی تحریر کو آسان زبان میں ڈھالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے لہٰذا آپ پھر بھی سادہ الفاظ لکھنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ اگر میں نے کہیں 16 الفاظ پر مشتمل جملہ لکھنے کی کوشش کر ڈالی ہو تو قارئین سے معذرت۔ رک جائیں! ٹھیریں! ایک چینی کہانی سنتے جائیں جو سلیم مغل صاحب کو بہت پسند ہے اور اب وہ ہماری بھی پسندیدہ ہوگئی ہے۔ بیجنگ کی سڑکوں پر ایک عورت جھاڑو لگایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جھاڑو لگاتے ہوئے کچھ گرد (مٹی) راہ گیر کے کپڑوں پر لگ گئی۔ اس نے عورت کو بہت ڈانٹا اور کپڑے جھاڑتا ہوا رخصت ہوگیا۔ اس عورت کی بیٹی جو اُس دن اس کے ساتھ تھی، کہنے لگی ’’ماں! تم یہ گندا کام کیوں کرتی ہو؟‘‘ ماں نے تسلی دیتے ہوئے اسے سمجھایا کہ ’’نہیں بیٹا! میں تو بہت بڑا کام کررہی ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے ماں؟‘‘
’’آؤ تمھیں بتاؤں کہ اچھا کام کیا ہوتا ہے اور برا کام کیا ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی کام کو اگر منہا کردیا جائے اور اس سے دنیا کو کوئی فرق نہ پڑے تو یقیناًوہ اچھا کام نہیں ہے، لیکن کوئی چیز منہا کرنے سے دنیا کا نظام درہم برہم ہوتا ہے تو یقیناًوہ کام اچھا ہوگا۔ بچی نے جب صٖفائی کے اس کام سے اپنی ماں کو منہا کرکے سوچا تو اسے بیجنگ گندگی کا ڈھیر نظر آیا۔
اتنی زبردست گفتگو کے ساتھ ہی ہمارا ورکشاپ کا پہلا دن اختتام کو پہنچا۔ رات کو ایک پیغام موصول ہوا کہ ٹھیک ساڑھے نو بجے سابق مدیر ساتھی فصیح اللہ حسینی ’’داستان گوئی سے تھری ڈی تک‘‘ کے حوالے سے لیکچر شروع کردیں گے۔ ٹھیک ہے جناب! داستان گوئی کیا ہوتی ہے؟ آئیے فصیح اللہ حسینی صاحب سے پوچھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص گیان چند جین تھا، اس کے مطابق داستان کے لغوی معنی قصہ یا کہانی کے ہیں، جس کا تعلق گزشتہ زمانے سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہوسکتی ہے۔ داستانی واقعات بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بزمیہ (عشق و محبت، صلح و دوستی) اور رزمیہ (جنگیں، عیاریاں اور فریب کاری)۔ ویسے داستانیں دراصل مشرق وسطیٰ سے آئی تھیں اور انیسویں صدی کو داستانی صدی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک داستان گو کی یہی کوشش رہتی ہے کہ جو واقعات بیان کیے جائیں، لوگ اس میں کھو جائیں۔ پھر ڈراما آیا، کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق ڈرامے کی ابتدا قدیم زمانے میں رقص و سرود کی محفلوں سے ہوئی جو کسی قبیلے کی فتح یا مذہبی تہواروں کے موقع پر منعقد ہوتی تھیں۔ ڈرامے کے معنی ہیں کچھ کرکے دکھانا۔ ساتھیو! ڈرامے میں کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اردو ڈرامے کا بابا آغا حشر کو کہا جاتا ہے۔ لگے ہاتھوں امتیاز علی تاج کا ڈراما انار کلی بھی پڑھ ڈالیے گا۔ آخر میں فلم سازی آئی۔ مراد فلم بنائے جانے کا عمل ہے۔ فلم کی تیاری پانچ بڑے مراحل پر مشتمل ہوتی ہے: ارتقا، قبل از فلم سازی، فلم سازی، بعد از فلم اور آخر میں تقسیم۔۔۔
ہمارے درمیان میر شاہد حسین، حفصہ صدیقی صاحبہ، فوزیہ خلیل اور عظمیٰ ابو نصر صدیقی صاحبہ موجود تھیں۔ ان کا موضوع یہی تھا کہ آپ لوگوں کے لکھنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ تمام سینئر ادیبوں نے اپنے تجربات بتائے کہ ہمیں جیسے ہی کوئی آئیڈیا آتا ہے، ہم فوراً ہی کہانی لکھ لیتے ہیں۔ کہانی ادھوری چھوڑ دینے کا مطلب ہے آپ کی کہانی ضائع ہوگئی۔ ہم نے فوزیہ خلیل صاحبہ سے دریافت کیا کہ جناب! جب تک بریانی دم پر آئے، آپ ایک کہانی لکھ لیتی ہیں۔ ہم نئے لکھاری ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ آپ اپنا مطالعہ بڑھادیں، آپ میں بھی ایسی مہارت آجائے گی۔ ساتھیو! صرف آپ سب کے لیے ہم نے سابق مدیر ساتھی جناب میر شاہد حسین صاحب سے سوال پوچھا کہ جب آپ مدیر تھے تو کیسی کہانیاں آپ فوراً قابل اشاعت کی لائن میں لگا دیتے تھے؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ کہانی انوکھی اور مختلف ہو۔ اگر ایسا نہیں تو آپ کی کہانی کو ’’عمومی کہانیوں‘‘ کی لائن (قطار) میں لگا دیا جائے گا۔ پھر نجانے کب باری آئے؟
اس ورکشاپ میں ہمیں سب سے زیادہ جس موضوع کا انتظار تھا، اس پر گفتگو کے لیے جناب ایم ابراہیم خان آچکے تھے، جی ہاں! یہ وہی صاحب ہیں جنھوں نے ’’شکستِ آرزو‘‘ کے نام سے کتاب ترجمہ کی ہے اور روزنامہ دنیا میں فکاہیہ کالم لکھتے ہیں۔ اُنھوں نے ترجمے کے فن کے حوالے سے بتایا کہ آپ کا ترجمہ ہلکا پھلکا ہو، دلچسپ ہو، لفظمی ترجمے کے بجائے بامحاورہ ترجمہ کریں مثلاً ایک جملہ “My Father Fall in a Main hole” جس کا لفظمی ترجمہ کچھ یوں ہوا کہ ’’میرے ابو گرے اندر گٹر یا سوراخ کے‘‘۔ جبکہ بامحاورہ ترجمہ اس طرح ہوگا ’’میرے ابو گٹر کے اندر گر گئے۔‘‘ ہمارے پوچھنے پر اُنھوں نے ترجمہ اور تلخیص کے حوالے سے بتایا کہ ترجمے میں زائد الفاظ یا کچھ فقروں کو کاٹا جاسکتا ہے البتہ تلخیص سے مراد ہے: تمام ناول کو پڑھ کر اس کا خلاصہ لکھنا۔
اس کے بعد ’’اسکرپٹ رائٹنگ‘‘ پر ’’ہدایت سائر‘‘ تشریف لائے اور اپنی شاعری کے ذریعے ہماری ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ چوں کہ آپ ریڈیو میں کام کرچکے ہیں اور مارننگ شو کرتے ہیں لہٰذا آواز میں لفظوں کی چاشنی بھی محسوس ہوئی۔ اُنھوں نے بتایا کہ تین طرح کے اسکرپٹ ہوتے ہیں: انٹرٹینمنٹ (ڈراما، فلم، ٹاک شوز)، انفوٹینمنٹ (ڈاکومینٹری، ڈراما ڈاکومینٹری) اور آخری ہے خبرنامہ۔ یہاں ڈراما ڈاکو مینٹری سے مراد ’’ابرارالحسن‘‘ کے کرائم ڈرامے بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ پتا چلی کہ خبریں پڑھنے والے اینکر ہماری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں نا؟ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ وہ سامنے اسکرین پر دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں خبریں ایک ایک کرکے چل رہی ہوتی ہیں۔ اُنھوں نے ڈرامے میں کہانی کے حوالے سے بتایا کہ اس میں تین ایکٹ ہوتے ہیں۔ ایکٹ نمبر ایک ’’تعارف‘‘، ایکٹ نمبر دو ’’نقطہ عروج یا کلائمکس‘‘، ایکٹ نمبر تین ’’نتیجہ‘‘۔ کوئی بھی ایکٹ کہیں سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ ایک اچھے ڈرامے کے اسکرپٹ میں منظر زیادہ ہوتے ہیں اور ڈائیلاگ کم۔ جاتے جاتے انھوں نے دو بہت ہی خوبصورت باتیں بتائیں: کتابوں سے جڑئیے، زندگی بہت ہی آسان ہوجائے گی۔ ایک اچھا صفحہ لکھنے کے لیے 150 صفحات پڑھنے پڑھتے ہیں۔
آخر میں جو خاتون تشریف لائیں، انھیں ہم ’’افشاں نوید‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ موضوع تھا ’’لکھنے والوں کی ذمہ داریاں‘‘۔ اُنھوں نے قلم کے حوالے سے مختصر اور جامع گفتگو کی: قلم وہ ہے جس کی حرمت ہمیشہ قائم رہے گی۔ قرآن میں ’’القلم‘‘ سورت اس کا ثبوت ہے۔ ہمارا لکھا ہوا ہمیشہ قائم رہے گا۔ اُنھوں نے ذوقِ مطالعہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ شوقِ مطالعہ کی نفی کی۔ اچھی کتاب کا مطالعہ ذوق کہلائے گا البتہ ہر قسم کی کتاب کا مطالعہ شوق کہلائے گا۔ جب تک ہمارا شوقِ مطالعہ، ذوقِ مطالعہ میں تبدیل نہیں ہوگا ہم گھاٹے ہی میں رہیں گے۔ ہمیں ایک پروفیسر صاحب یاد آگئے جو ہمیشہ یہی کہتے تھے “Read always the best book” یعنی ہمیشہ بہترین کتابیں ہی پڑھو۔ پروگرام مکمل ہوا۔ ’’ساتھی‘‘ کی طرف سے خوبصورت انعامات کتابوں کی صورت میں اور سرٹیفکیٹ دیے گئے۔
nn