سید مہر الدین افضل ایل جہنم کی گفتگو اور جنت کے مسافر
اہل جہنم کی گفتگو !
آیت نمبر 39 میں ارشاد ہوا :۔(اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا (اگر ہم قابلِ الزام تھے) تو تمہی کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجے میں عذاب کا مزا چکھو۔) جہنم میں جانے والوں کی آپس میں بحث اور ایک دوسرے پر الزام لگانے کا منظر قرآن مجید میں کئی مقامات پر دکھایا گیا ہے۔۔۔ اور قران مجید میں اِس منظر کشی کا مقصد اِس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ لوگ جو اچھے اعمال پر خوش خبری دینے اور برے اعمال کے خطرناک انجام سے ڈرانے کے ذمہ دار ہیں اِسے تمام لوگوں تک پہنچائیں۔۔۔ تاکہ وہ آج ہی اِس انجام سے بچنے کی کوشش کریں۔سورہ سبا آیات 32۔31 میں ارشاد ہوتا ہے کہ:۔ (’’کاش تم دیکھ سکو اس موقع کو جب یہ ظالم اپنے رَبّ کے حضور کھڑے ہوں گے، اور ایک دوسرے پر باتیں بنا رہے ہوں گے۔ جو لوگ دنیا میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے، کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومِن ہوتے۔ وہ بڑے بننے والے اِن کمزور بنائے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے۔۔۔ ہم نے تم کو ہدایت سے روک دیا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں، بلکہ تم خود مجرم تھے۔‘‘)۔۔ آپ پہلے لفظ کاش پر غور کریں اس میں کتنا درد، کتنی محبت، اور کتنا خلوص موجود ہے۔۔۔ اِس سے سبق یہ مِلتا ہے کہ اہل ایمان کو اہل دوزخ کا حال دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے (یعنی کچھ لوگ جو آج بڑے کافر ہیں، دعوت حق کو ٹھکرانے والے ہیں، تصور میں انہیں جہنم میں دیکھ کر خوش نہ ہوں) بلکہ افسوس کے ساتھ انہیں اس انجام سے بچانے کی کوشش تیز کر دینی چاہیے۔۔۔ نوٹ کریں کہ ایک گروہ کو بڑے بننے والے اور دوسرے گروہ کو کمزور بنائے ہوئے لوگ کہا ہے۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تو سب کو ایک ہی مقام دیا تھا۔۔۔ لیکن کچھ لوگوں نے اپنی حقیقت بھلا دی اور بندگی کے مقام کو چھوڑ کر خدائی کا دعوی کر بیٹھے۔۔۔ اور دوسرے لوگ بھی اللہ کو چھوڑ کر ان بناوٹی زمینی خداوں کی بندگی کرنے لگے۔۔۔ پہلا گرو تَکبّْر کرنے والا، دھوکے میں آنے والا، اور دھوکا دینے والا ہے۔۔۔ جبکہ دوسرا گروہ اپنی ذِلّت قبول کرنے والا اور دھوکا کھانے والا ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں پسے ہوئے اور مظلوم طبقات بے شمار ہیں ۔۔۔ اورظالم و جابر مٹھی بھر! وہ کیا چیز ہے جو ساری عوام کو چند فرعونوں کی چوکھٹ پر جھک جانے اور ان کی غلا می اختیار کر لینے پر آمادہ رکھتی ہے؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ بزدلی، بے ہمتی، اور خدا کی دی ہوئی انسانی عظمت ووقار (خودی) سے دست برداری۔۔۔ اور سادہ الفاظ میں خواہشِ نفس کی غلامی! زمین پر بڑے بننے والوں کا جو جواب ہے وہ بھی بہت معنی خیز ہے۔۔۔ اور اِن کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تم خود ہی ہدایت کے طالب نہیں تھے؟ ہم تو وہی پیش کرتے تھے جو پبلک ڈیمانڈ تھی!!! تم لالچی تھے ہم نے تمہیں دنیا کے لالچ دے کر اپنا غلام بنایا، اور تم ہمارے بچھائے ہوئے جال میں شوق سے پھنسے۔۔۔ تم بکِنے کے لیے تیار تھے ہم نے تمہیں تمہاری من چاہی قیمت پر خرید لیا۔۔۔ تم خدا سے بے زار اور دنیا کے پَرستا ر تھے۔۔۔اِسی لیے تم نے خدا پرستی کی طرف بلانے والوں کو چھوڑکرمادّہ پرستوں، دنیا پرستوں ، قومیت پرستوں کی پکار پر جَے، جَے، کے نعرے لگائے۔۔۔ تم چاہتے تھے کہ تمہیں ایسا مذہبی رہنما ملے جو تمہاری ضرورتیں پوری کرے۔۔۔ تمہارے بگڑے کام بنائے۔۔۔ تمہیں جھوٹی امیدیں دلائے۔۔۔ اپنی غیب دانی، کشف اور الہام کا رعب جما کر تم سے اپنی بندگی کروا ے۔۔۔ ہم نے تمہیں ایسے مذہبی بہروپیے اور جعلی پیر دیے۔۔۔ جو تمہیں غیر مستند روایات اور قصے کہانیاں سنا کر تمہارا دل خوش کرتے رہیں۔۔۔ تھوڑی سی فیس اور کچھ نذرو نیاز لے کر تم سے کسی اَخلاقی قانوں کی پابندی کا مطالبہ نہ کریں۔۔۔ بس تمہارے کام بناتے رہیں۔۔۔۔۔۔ تم کو ایسے سفارشیوں کی تلاش تھی کہ تم خدا سے بے پرواہ ہو کر دنیا کے کتّے بنے رہو!!! اور بخشوانے کی ذمہ داری وہ لے لیں۔ ہم نے وہ سفارشی تمہیں فراہم کر دیے۔۔۔ تم چاہتے تھے کہ تمہیں خشک او بے مزا دین داری، پرہیز گاری، قربانی، جدو جہد۔۔۔ اور مسلسل عَمل کے بجائے نجات کا کوئی اور راستہ بتا یا جائے۔۔۔ جس میں نفس کی ساری لذتیں ہوں اور خواہشات پر پابندی کوئی نہ ہو۔ ہم نے اَذکار اور وظیفوں اور بزرگوں کی حکایتوں سے سجا کر ایسے خوش نما مذہب تمہارے لیے ایجاد کر دیے، جن میں صرف بزرگوں کی ہدایت ہی دین تھی اور زندگی کے تھوڑے سے معاملات میں ان کی اطاعت میں نجات۔ غرض یہ کہ ذمہ داری تنہا ہمارے ہی اوپر نہیں ہے۔ تم بھی برابر کے ذمہ دار ہو۔ ہم اگر کمراہی فراہم کرنے والے تھے تو تم اِس کے خریدار تھے۔
جنّت کے مسافر:۔
آیت نمبر 43 میں ارشاد ہوا:۔ (وہ اہلِ جنّت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہو گی اسے ہم نکال دیں گے) یہ آیت ہمیں باہمی معاملات میں نہایت اَہم سبق دیتی ہے کہ، ہم انسان ہیں، غلطی ہو سکتی ہے۔۔۔ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔۔۔ اور بعض معَاملات میں آخری وقت تک اِنسان اپنی رائے پر قائم رہ سکتا ہے، اور اپنے عمل کو درست سمجھ سکتاہے۔۔۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے آج بھی تمام اِختلافات کے باوجود کوئی یہ نہ چاہے گا کہ میرا بھائی جنّت میں نہ جائے! تو ضرور ہمیں اپنے رویّے، طرز عمل اور گفتگو پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ میں اِس کے ساتھ نہیں چل سکتا۔۔۔ اِسے برداشت نہیں کر سکتا، تو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا روز حشر میں یہ چاہوں گا کہ میرا یہ بھائی جنت میں نہ جائے۔۔۔ ایسا آپ ہرگز نہ چاہیں گے! تو آج بھی اِتنی سخت بات نہ کریں کہ، مِل ہی نہیں سکتے جڑ ہی نہیں سکتے۔۔۔ چل ہی نہیں سکتے۔۔۔ یاد رکھیں ہم سب جنت کے مسافر ہیں۔۔۔ سب کی منزل ایک ہے اور ہمارا پرودگار ہیں ایک ہی جگہ جمع کرنے والا ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہا کہ ہم رنجشوں اور کدورتوں کے اسباب کھول دیں گے۔۔۔ اور فیصلہ کر دیں گے بلکہ کہا یہ گیا کہ، دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنّت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ وہ جو میرا مخالِف تھا اور وہ جو مجھ سے لڑاتھا اور یہ جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج سب ہی اس پارٹی میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اِسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا۔۔۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین