تنویر اللہ خان عزیزو اب آپ سے جنت میں ملاقات ہوگی،(قاضی حسین)

345

قاضی حُسین احمدؒ کے چہرے پر نور کی ایسی بارش ہوتی تھی کہ اُنھیں نظر بھر کر دیکھنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ اللہ کے نور نے اُن کے چہرے کے ساتھ اُن کے دل اور دماغ کو بھی روشن کیا ہوا تھا۔ قاضی صاحب کی یاد، یادوں کو سید احمد شہید تک لے جاتی ہے۔ بالکل اُن ہی جیسا جفاکش، یکسو، مقصد کے لیے بے قرار، سادہ طبیعت، مسلسل اور مستقل جدوجہد کرنے والا۔ قاضی حُسین احمدؒ برسوں سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن اس عارضے کو قاضی صاحب نے کبھی عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
نورانی اور جلالی چہرہ، کچھ کم قد لیکن ایسا نہیں کہ شخصیت کو گہنا دے، گھنی داڑھی جس کی سیاہی کو امت کی فکر نے دیکھتے ہی دیکھتے سفیدی میں بدل دیا تھا۔ قاضی صاحب کی بزرگی ضعف بالکل نہ تھی، آپ دُنیا سے جاتے جاتے بھی حوصلوں کے جوان رہے۔ قاضی صاحب تیز چلنے کے عادی تھے۔ آپ کے قدموں میں بھی تیزی تھی، آپ کے سوچنے میں بھی تیزی تھی اور کرگُزرنے میں بھی تیزی تھی۔
مشہور کسی بھی طرح ہوا جاسکتا ہے۔ بعض مشہور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ ہم اپنا نام لگانا پسند نہیں کرتے۔ لیکن شہرت کے ساتھ مقبولیت کسی کسی کو ملتی ہے۔ قاضی صاحب صرف مشہور ہی نہ تھے بلکہ مقبول بھی تھے۔ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہونا، ان کے ساتھ تصویر بنوانا، ان کے ساتھ چلنا پسند کرتے تھے۔ دُنیا بھر کے لوگ نہ صرف قاضی حُسین احمدؒ کو جانتے تھے بلکہ وہ اُن کو پسند بھی کرتے تھے۔ پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ نہ ہم نے کوئی معاملہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی اُنھوں نے ہمیں کوئی نقصان پہنچایا ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمیں اچھے نہیں لگتے۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے نہ ہم نے کوئی معاملہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی اُنھوں نے ہمیں کوئی فائدہ پہنچایا ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے، اُن کے ساتھ وقت گزارنے کو طبیعت ہر وقت آمادہ رہتی ہے، جن کے ایک اشارے پر سب کچھ کر گزرنے پر دل تیار ہوتا ہے۔ قاضی صاحب دوسری طرح کے آدمی تھے۔ دل نواز، دل نشین، دل سوز، دل دار، دل میں اُترجانے والے اور اُتر کر گھر کر جانے والے۔
قاضی حُسین احمدؒ چلے گئے۔ سب کو جانا ہے، سب ایک ہی طریقے سے جاتے ہیں، ایک ہی منزل کی طرف جاتے ہیں۔ لیکن بعض جانے والے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے جاتے ہیں۔ یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تربیت کا ہی خاصا ہے کہ اُن کی جماعت اُن کے اور پھر قاضی حُسین احمدؒ جیسے جانے والے کے بعد بھی زندہ رہی، ورنہ پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کو بھی زندہ رہنے کے لیے آج تک بھٹو کو زندہ رکھنا پڑرہا ہے۔
ہر نفس کو فنا ہے لیکن بعضوں کے کام اُن کو لافانی بنادیتے ہیں۔ قاضی صاحب کے کام بھی ایسے ہی تھے۔
دُنیا کا کوئی بھی آدمی یا جماعت ایسی نہیں ہوسکتی جس کے تمام فیصلے ہمیشہ درست ہوں، لہٰذا قاضی صاحب کے فیصلوں میں بھی سقم ہوسکتا ہے، ان کے فیصلوں سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قاضی صاحب کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ مخمصہ اور جھجک فرد اور جماعت دونوں کے لیے مہلک ہیں۔ ناکام ہوجانے میں ناکامی نہیں بلکہ ناکامی کے خوف سے کچھ نہ کرنا اصل ناکامی ہے۔ جو اقدام کرتا ہے وہ ناکامی سے بھی کچھ سیکھتا ہے، اور اگر اللہ توفیق دے تو اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلیتا ہے، لیکن جو ناکامی کے خوف سے اقدام نہیں کرتا وہ ناکامی کی وجوہات سے بھی لاعلم رہتا ہے اور شکست کے خوف سے زندہ رہتے ہوئے بھی مُردہ ہوجاتا ہے۔ قاضی حُسین احمدؒ کچھ کرکے ناکام ہونا پسند کرتے تھے، لیکن خوف کے مارے کچھ کرنے سے باز رہنے والے نہ تھے۔ لہٰذا وہ کبھی شکست کے خوف سے فیصلے اور اقدامات کرنے سے نہ رُکے۔
یہ حساب جوڑا جاسکتا ہے کہ قاضی صاحب کے اقدامات کتنے کامیاب رہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قاضی حُسین احمد نے کچھ کیا نہیں۔
قاضی صاحب جمہوری انتخابی سیاست کی ضروریات کو سمجھتے تھے، لہٰذا اُن میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ ملانے کی لگن تھی۔ پاکستان اسلامک فرنٹ، متحدہ مجلس عمل، پاسبان، متحدہ ملّی محاذ جیسے اقدامات اسی لگن کا نتیجہ تھے۔ کاروانِ دعوت ومحبت، کاروانِ امن واخوت جیسے کام بھی کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی اُن کی ایک کوشش تھی۔
رمضان المبارک میں خضرا مسجد میں ہونے والی شب بیداری میں برسوں پہلے قاضی صاحب نے پاکستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیا کی ریاستوں کے باہمی سیاسی، معاشی اور تجارتی تعلقات کا تصور دیا۔ قاضی صاحب اپنے مخصوص انداز میں اس خطے کو مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر قرار دیتے تھے۔ قاضی صاحب امت کو ایک کرنے کے خواہش مند تھے۔ ایران، ترکی، سوڈان میں قاضی صاحب نے اس حوالے سے کوششیں کیں۔ ان جگہوں کے عوام اور حکمران قاضی صاحب سے خاص تعلق رکھتے تھے۔
سب سے بات کرنا، سب کو مخاطب کرنا کہنے کو عام سی عادت ہے لیکن یہ عام سی عادت خاص لوگوں میں ہوتی ہے۔ قاضی صاحب کا یہ وصف تھا کہ وہ سب سے بات کرتے تھے اور سب کو مخاطب کرتے تھے۔ ایک ملاقات میں قاضی صاحب نے نذیر ناجی کو جماعت اسلامی میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی جو ناجی صاحب کے مطابق حیران کُن اور خوشگوار تجربہ تھا۔ قاضی صاحب انتظار کا وقت کاٹنے کے لیے اخبار پڑھنے کے بجائے پڑوس میں بیٹھے آدمی کو انگیج کرتے تھے۔ دُنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ساری ساری زندگی ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن پہلے دن کی طرح اجنبی کے اجنبی رہتے ہیں، کبھی شناسائی کا اظہار نہیں کرتے۔ قاضیؒ صاحب انسانوں سے شناسائی کا اظہار کرتے تھے۔ وہ انسانوں کو توجہ دیتے بھی تھے اور اُن سے توجہ لیتے بھی تھے۔
قاضی صاحب جوڑنے والے آدمی تھے۔ ایک زمانے میں جے یو پی اور جماعت اسلامی آگ اور پانی تھیں، جے یو پی کے نزدیک جماعتیے منکرِ رسول تھے۔ قاضی صاحب نے ان دونوں کو جمع کیا۔ قاضی حُسین احمدؒ نے بیرونِ ملک جاتے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانیؒ کو فون کیا اور یوں مخاطب ہوئے: ’’حضرت میں پاکستان سے باہر جارہا ہوں جس کے لیے آپ کی اجازت چاہیے‘‘۔ کوئی عام آدمی ایسا کرے تو کوئی خاص بات نہیں، لیکن جب قاضی حُسین احمد جیسا آدمی ایسی بات کرے تو وہ اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ شاہ احمد نورانیؒ جماعت اسلامی کے ایسے مخالف تھے کہ دیکھنے والا دشمنِ جاں سمجھے، لیکن اسی دشمنِ جاں کے دروازے پرجب قاضی حُسین احمد نے محبت سے دستک دی تو گھر کے دروازوں کے ساتھ نورانی میاں کے دل کے دروازے کھلتے چلے گئے اور قاضی صاحب نے اُن کے دل میں ایسا گھر کیا کہ سارا گھر قاضی صاحب کا اسیر ہوگیا۔ قاضی صاحب نے نورانی میاں سے اس تعلق کو نورانی میاں کو قبر میں اتارنے سے لے کر خود قبر کی گود میں جا سونے تک نبھایا۔ دانہ خاک میں مل کر ہی گُل وگلزار ہوتا ہے۔
معروف اخبار نویس انصار عباسی بتاتے ہیں کہ چند برس پہلے جب اُنھوں نے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی عریانی، فحاشی پر قاضی صاحب کو متوجہ کیا تو قاضی صاحب نے اُس وقت کے چیف جسٹس سے سوموٹو ایکشن لینے کی درخواست کی اور مقدمہ لگنے پر طبیعت کی خرابی کے باوجود خود سپریم کورٹ اسلام آباد تشریف لائے۔
جماعت اسلامی کے ناقدین سے بھی قاضی صاحب راہ ورسم رکھتے تھے۔ جناب حسن نثار کی بیٹی اور سہیل وڑائچ کا نکاح قاضی صاحب نے پڑھایا۔ جناب احمدفراز، قاضی صاحب کے نیازمندوں میں سے تھے۔
قاضی حُسین احمدؒ نے اپنے گرد ایسا کوئی حصار نہیں بنایا تھا جو لوگوں کو اُن سے دور رکھتا۔ کہتے ہیں کہ جو اندر سے جتنا اجلا ہوتا ہے اُس کے گرد نور کا اتنا ہی اجالا ہوتا ہے۔ قاضی صاحب کے گرد بھی نور کا ایسا ہالہ تھا جو انسانوں کو اپنے قریب کھینچتا تھا۔ دور تک اور دیرتک کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اور نیک لوگ بھی اپنے آپ کو قاضی حُسین احمد جیسا انسانوں سے قریب رہنے والا بنائیں، دور رہ کر آدمی دیوتا بن سکتا ہے لیکن دوست نہیں بنا سکتا۔
قاضی حسین احمد آج ہم میں نہیں ہیں لیکن اُن کے کاموں نے اُن کی یاد کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ جانا سب کو ہے۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کو بھی دُنیا چھوڑنا پڑتی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بھی دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ فرعون نے اپنے اعمال کی وجہ سے فرعون سے فرعونیت تک کا سفر کیا اور آج فرعونیت تکبر و گمراہی کا استعارہ ہے۔ فرعون کے مقابلے پر ڈٹ جانے والے موسیٰ علیہ السلام آج بھی کلمۂ حق کہنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یزید بھی دُنیا سے گیا اور امام حُسینؓ بھی اپنے ربّ سے جاملے، لیکن سینکڑوں برس گزر جانے کے بعد بھی یزید کو آج پانی روکنے والے شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور امام حُسینؓ مظلوم کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ یزید ہوسِ اقتدار کی علامت بن گیا ہے اور امام حُسینؓ آمر کے سامنے آوازِ حق بلند کرنے والے بن کر زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔
قاضی صاحب کے وہ جملے آج بھی کانوں کے رستے دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں اور آنسو کی شکل میں بہہ جاتے ہیں۔ اگر آنسوؤں سے غم کا سیلاب نہ بہتا تو نہ جانے ہم کیسے جیتے؟ قاضی صاحب فرما رہے تھے: ’’عزیزو! میرا بھی دل آپ سے بچھڑنے کو نہیں چاہتا لیکن یہاں بسائی گئی اس تین دن کی بستی کی طرح یہاں سب کچھ فانی ہے، عزیزو اپنے اپنے گھروں کو جائیے! اب ان شاء اللہ جنت میں ملاقات ہوگی۔‘‘
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمین پر نرم روی سے چلا کرو، وہ تمہاری ماں ہے‘‘۔ ممکن ہے اس ارشاد کا ایک پہلو یہ بھی ہو کہ مٹی سے ہمیں بنایا گیا ہے اور اسی مٹی کی گود میں ہمیں ہمیشہ کے لیے سوجانا ہے۔ قاضی صاحب مٹی کی گود میں جا سوئے۔ اب جنت کی خوشبو ہی اُنھیں اس نیند سے بیدار کرے گی۔ ہم قاضی حُسین احمدؒ کی خواہش کے مطابق اُن سے جنت میں ملنا چاہتے ہیں۔ اے اللہ اپنے رحم سے اور اپنے حبیبؐ کے صدقے، آپ ایسا ممکن بنادیں۔
nn

حصہ