’’آپ کے بغیر زندگی گزارنا اتنا مشکل ہوجائے گا یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔ پلیز میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ کو ایک بار میرے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
صرف آپ کی عذرا بتول!‘‘
خط کو لفافے میں ڈال کر ہولے سے مسکراتے ہوئے حماد نے اپنے گھر کا پتا لکھا اور لفافہ پوسٹ آفس میں دے دیا۔
وجیہ الحسن حماد کے کاروبار سنبھالتے ہی ماں جی نے شادی کا فیصلہ سنادیا۔
’’بیٹا، اگر تمہاری کوئی پسند ہو تو زیادہ اچھا رہے گا؟‘‘ ابو نے مشورہ طلب نگاہوں سے حماد کو دیکھا۔
حماد خوب صورت ہی نہیں، خوب سیرت بھی تھا۔ خدا نے حماد کی شخصیت میں دل کشی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر جمع کردی تھی۔ حماد نے وہی جواب دیا، جس کی والدین توقع کررہے تھے:
’’میری زندگی کے بارے میں آپ دونوں کی پسند ہی کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘
حماد شرارت سے سر کو خم کرکے بولا تو جھٹ سے ماں جی نے کہا:
’’ہمیں تو حنا کی بیٹی بہت پسند ہے، سیدھی سادی سی ہے، ساتھ میں خوب صورت اور سگھڑ بھی‘‘۔ ماں جی نے اس کی تعریف میں جب زمین و آسمان کے قلابے ملادیے تو باپ، بیٹا دونوں نے ان کی پسند کے آگے سر جھکا دیا۔ یوں دھوم دھام سے حماد کی شادی ہوگئی اور شانزے دلہن بن کر حماد کے گھر کی رونق بن گئی۔ شانزے واقعی بھولی بھالی اور من موہنی سی تھی۔ وہ حماد سے بے پناہ محبت کرتی اور اس کا خیال رکھتی تھی لیکن ایک چیز حماد کو بے کل کیے رکھتی۔
پتا نہیں، شانزے کو مجھ سے محبت ہے بھی یا نہیں؟
حماد بچپن سے شرارت میں نت نئی ترکیبیں سوچنے کا عادی تھا۔ سو اپنی بیوی کو پرکھنے کے لیے بھی اس نے ایک ترکیب سوچ لی۔ حماد آفس میں تھا جب شانزے کو پوسٹ مین کی طرف سے حماد کے نام خط موصول ہوا۔ خوب صورت سے دل بنے کارڈ پر کسی لڑکی کا نام لکھا تھا۔ تجسس کے مارے شانزے نے خط کھولا تو اندر اس لڑکی نے حماد کے بارے میں اپنے جذبات تحریر کیے تھے۔
کیا کروں۔۔۔ ؟؟خط پڑھنے کے بعد شانزے کا رنگ فق ہوگیا۔
اللہ جی، یہ کون لڑکی ہے، جو میرے میاں جی کے پیچھے پڑگئی ہے!
شام کو حماد گھر لوٹا تو شانزے بوکھلائی بوکھلائی سی پھر رہی تھی۔ حماد نے وجہ جاننی چاہی تو شانزے بات کو ٹال گئی۔
’’اگر بتا دیا تو یقیناًان کے دل میں اس لڑکی کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوجائے گا۔ ویسے بھی عورت کی الماری میں نئے کپڑے اور مرد کے دل میں دوسری عورت کی جگہ موجود ہوتی ہے۔ اسی خوف کے تحت اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنادیا۔ حماد مسکرا کر سونے کے لیے لیٹ گیا، جب کہ شانزے پوری رات کروٹیں بدلتی رہی۔
ایک ہفتے بعد تو انتہا ہوگئی۔ پوسٹ مین سفید اَدھ کھلے گلابوں کا بکے لیے اس کے دروازے پر کھڑا تھا۔ کسی دوسری لڑکی نے حماد کے لیے یہ بھجوایا تھا، ساتھ میں مختصر سا خط بھی تھا، جس میں لکھا تھا:
’’عزیزاز جاں، میں تمہیں روز اپنی بالکونی سے گزرتے دیکھتی ہوں۔ تمہاری گاڑی کے ہارن کی آواز تک مجھے یاد ہوگئی ہے، تمہاری جھلک دیکھے بنا مجھے چین نہیں ملتا، یقیناًتم اس دنیا میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ایک خوب صورت تحفہ ہو! تمہاری یادوں میں کھوئی عیشہ!‘‘
اب تو مارے گھبراہٹ کے شانزے کا دل بیٹھا جارہا تھا۔
گاڑی کے ہارن کی آواز۔۔۔؟ کیا حماد اس لڑکی سے ملنے جاتا ہے؟ نہیں تو پھر اسی کے دروازے کے پاس ہارن کیوں دیتا ہے؟؟ شانزے کی نگاہوں میں حماد کی شخصیت مشکوک سی ہوگئی تھی۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے اپنی ساس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’امی۔۔۔‘‘ وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’شادی سے پہلے حماد کیا کسی کو پسند کرتے تھے؟‘‘ چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے ڈرتے ڈرتے یہ سوال پوچھ ہی لیا۔ دل تھا کہ بے قرار ہوئے جارہا تھا، اگر ماں جی نے ’’ہاں‘‘ کہہ دیا تو۔۔۔!
’’ارے دور ہٹو۔۔۔ میرا بیٹا ایسا تھوڑی ہے‘‘۔ ماں جی نے تھوڑی خفگی کا مظاہرہ کیا اور پھر آدھے گھنٹے تک بیٹے کی شرافت کے قصے سنادیے۔ نہ جانے اس کی خوب صورتی پر کتنی لڑکیاں مرتی تھیں، مگر مجال ہے جو اس نے کسی کی طرف نگاہ اُٹھاکر دیکھا بھی ہو۔
شرافت کی یہ داستاں سن کر شانزے نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے حماد کو برائیوں سے محفوظ رکھا اور تمام چیزیں اُٹھاکر کچرے خانے میں پھینک آئی۔ حماد کے آنے کا وقت ہوگیا تھا، وہ جلدی سے حلیہ درست کرنے کے لیے کمرے کی طرف بھاگی۔ حماد گھر آیا تو گھر کا ماحول اسے کافی خوش گوار لگ رہا تھا۔ شانزے بھی خوش تھی۔
پتا نہیں میرا بھیجا گیا بکے اسے ملا بھی یا نہیں؟ اب حماد کو تھوڑی پریشانی ہونے لگی تھی۔ ہوسکتا ہے شانزے کو مجھ سے محبت ہی نہ ہو اور بکے ملنے کے بعد بھی یہ خوش ہو۔ اسی سوچ میں غرق اور ہر طرف کا جائزہ لینے کے بعد اس نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ شانزے بیڈ پر بیٹھی کنگھی کررہی تھی۔ اس سے نظریں بچا کر حماد نے اپنے موبائل کا ٹون آن کیا اور جھوٹ موٹ باتیں کرنے لگا:
’’جی آپ کون؟۔۔۔ نہیں تو مجھے تو کچھ بھی موصول نہیں ہوا۔ آپ کہاں سے بات کررہی ہیں؟‘‘ حماد کے ان تین جملوں نے شانزے کا رنگ فق کردیا۔
اس چڑیل نے میرے میاں جی کا نمبر کہاں سے لیا؟ اس نے دل میں سوچا۔
فون بند کرنے کے بعد حماد نے شانزے سے پوچھا:’’کیا آج پوسٹ مین کچھ لے کر آیا تھا؟‘‘ ساتھ ساتھ وہ شانزے کی بدلتی رنگت سے محظوظ ہورہا تھا۔
’’نن۔۔۔ نہیں تو۔۔۔‘‘ شانزے بڑی مشکل سے تھوک نگل کر بولی۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ وہ بظاہر سنجیدگی سے بولا، مگر دل ہی دل میں قہقہے لگا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ اسے شانزے کی بے چارگی پر بے تحاشا پیار بھی آرہا تھا۔
یہ مجھ سے سب کچھ چھپا کیوں رہی ہے؟ یہ البتہ دوسری ٹینشن تھی، جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
حماد ہفتے کو رات گئے تک آفس میں مصروف رہا، سو دیر سے گھر آیا۔ اگلے دن اتوار کو صبح ہی صبح پوسٹ مین پہنچ گیا۔
’’تمہیں ایک میرا ہی دروازہ ملتا ہے کھٹکھٹانے کو؟‘‘ شانزے نے جب اتوار کی صبح پوسٹ مین کو دیکھا تو برس پڑی۔
’’بی بی، میں کوئی اپنے شوق سے نہیں آتا، اس پر آپ کے گھر کا ایڈریس لکھا ہوا ہے اور دینے والے نے ایکسٹرا رقم دے کر آج ہی کے دن خط بھیجنے پر زور دیا تھا۔‘‘
کڑی دھوپ میں گھروں کی خاک چھاننے والا پوسٹ مین بھی اتنا ہی جھلاّیا ہوا تھا جتنا کہ شانزے اندر سے پیچ وتاب کھارہی تھی۔۔۔!
’’ارے کیا ہوگیا بھئی؟‘‘ حماد کمرے سے جمائی لیتا ہوا باہر آیا تو شانزے کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ پوسٹ مین بڑبڑاتا ہوا جا چکا تھا۔
’’واہ، یہ اتنا خوبصورت کارڈ کس کے لیے ہے؟‘‘ حماد نے ایک ستائشی نظر کارڈ پر ڈالی تو شانزے جلدی سے کارڈ پیچھے کرتے ہوئے بولی:
’’میری سہیلی نے اسے بھجوایا ہے، میرے لیے۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘ حماد اپنی مسکراہٹ چھپاتا اندر چلا گیا۔
’’بے چاری کتنا پریشان ہوتی ہے میرے لیے، اگر وہ مجھے بتادے تو میں بھی اسے تنگ نہ کروں۔۔۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے خود سے مخاطب تھا۔
بہرحال اس طرح اس کی نظروں میں میری اچھی خاصی اہمیت ہورہی ہے۔ ایویں کوئی عام بندہ تو نہیں ہوں میں۔۔۔وہ آئینے میں دیکھ کر مسکرایا۔
اچانک اسے باہر سے ماں جی کے چیخنے کی آواز آئی۔ وہ باہر کی جانب لپکا۔ باہر کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ شانزے دل پر ہاتھ رکھے زمین پر گری ہوئی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے کارڈ پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑچکی تھی۔ حماد سے بے پناہ محبت نے اسے کم زور کردیا تھا، جبھی وہ یہ سب برداشت نہ کرسکی اور ہمیشہ کے لیے اپنے غموں کو خیرباد کہہ گئی تھی۔ حماد پاگلوں کی طرح اسے جھنجھوڑ رہا تھا اور رو رہا تھا۔ دوسری طرف شانزے کے ہاتھ میں موجود کارڈ مکمل کھلا تھا اور اسے اب کوئی ڈر خوف نہ رہا تھا!!
nn