سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کو اس طرح بنادیا ہے کہ اب اس پر عمل درآمدکرنے اور کرانے کے لیے حکومت کو خود پریشانی کاسامنا ہے ۔ جبکہ اس قانون کے ساتھ حکومت نے بلدیاتی امور سے متعلق بنیادی کام یعنی صفائی ستھرائی ،کچرااٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کے امور اب بلدیاتی اداروں کے پاس نہیں رہے بلکہ اس مقصد کے لیے حکومت نے یہ امورخود سنبھالنے کی خواہسمش کے تحت براہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے نام سے ایک ادارہ 2014میں قائم کیا۔اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد سولڈ ویسٹ یعنی ضائع شدہ یا تباہ شدہ مضبوط اور مستحکم اشیاء کو جمع کرانے اور اسے ٹھکانے لگانا ہے ۔سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی )کا قیام سندھ اسمبلی میں منظور کیے گئے بل کے تحت عمل میں لایا گیا جس کی منظوری بعدازاں گورنر سندھ نے دی۔اس دارے کے قیام کے بعد اگرچہ پورے صوبے میں صفائی ستھرائی کچرا اور دیگر ضائع شدہ میٹریل اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے سے متعلق تمام ہی امور کی ذمے داری ایس ایس ڈبلیو ایم بی پر عائد ہوتی ہے ۔تاہم اپنے قیام کے دو سال گزرنے کے باوجود اس ادارے نے اپنی امور کی انجام دیہی شروع نہیں کی ۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013سے ناواقف بعض ڈی ایم سیز آج تک کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے امور اپنے کاندھوں پر لیے ہوئے ہیں ۔حالانکہ نیاقانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہی نہیں بلکہ حکومت سندھ کی براہ راست نگرانی میں قائم سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے بھی فعال ہوکر تقریباََ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود کچرااٹھانے اور ٹھکانے لگانے سے متعلق امور کی انجام دہی شروع نہیں کرسکی۔جس کی وجہ سے سندھ خصوصاََ کراچی کے شہری یہ سوال کررہے ہیں کہ ’’ کچرا کون اٹھائے گا؟‘‘۔
سندھ سولڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمے داریوں میں اسپتالوں سے نکلنے والا خطرناک فضلہ کو جمع کرنے اور اسے ضائع کرنے کے امور بھی شامل ہیں۔لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی کا محکمہ میونسپل سروسز نامعلوم وجوہ کی بناء پر اس سے متعلق عملہ اور اثاثے بورڈ کو منتقل کرنے سے گریز کررہا ہے ۔ اس ضمن میں ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر اے ڈی سجنانی کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کو متعدد خطوط لکھے گئے اس کے باوجود کے ایم سی کی جانب سے مذکورہ محکمے کے امور منتقل کرنے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ 13سو افراد پر مشتمل عملے کو بھی بورڈ کے سپرد نہیں کیا جارہا ہے۔دلچسپ امر یہ کہ کے ایم سی کا مذکورہ محکمہ خود بھی اسپتالوں کے فضلے کو ضائع کرنے کے امور درست طریقے سے انجام بھی نہیں دے پارہا۔
سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ایم ڈی ، سجنانی کا کہنا ہے بورڈ نے کام شروع کردیا ہے اور اب جلد ہی چائنا کا نجی اداروں گھروں سے کچرا لیکر ڈمپنگ گراؤنڈ تک پہنچائے گا ۔اس ضمن میں چائنا سے مشیری اور ٹرک وغیر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ بورڈ نے بلدیہ کراچی اوربلدیہ حیدرآباد سے لینڈ فل سائیٹس اور گاربیج اسٹیشنز کی اراضی کو کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی پر اس لیے توجہ دی جارہی ہے کہ ہم کراچی کو صفائی ستھرائی کے امور کے حوالے سے ماڈل بنانا چاہ رہے ہیں۔ان سے سوال کیا گیا کہ کراچی کے ڈی ایم سی کورنگی اور وسطی نے کچرے سے متعلق امور بورڈ کے سپرد کرنے سے انکار کیا ہے ایسی صورت میں کس طرح شہر کو ماڈل قرار دیا جاسکے گا؟ سجنانی نے جواب دیا کہ ’’ جب ضلع شرقی ، جنوبی، غربی اورملیر میں شہری خود صفائی ستھرائی کے حوالے سے بہتر نتائج دیکھیں گے تو وہ خود اپنے منتخب نمائندوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی ہی امور بورڈ کے حوالے کریں۔
کراچی میں ان دنوں پیدا ہونے والے کچرے کی کل مقدار اگرچہ مصدقہ نہیں ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کم وبیش بارہ ہزار ٹن یومیہ کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے ۔جبکہ صرف چھ ہزار ٹن اٹھایا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں سے روزانہ چھ ہزار ٹن کچرا اٹھایا نہیں جاتا بلکہ انتی ہی مقدار میں روزانہ جمع ہوجاتا ہے ۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ماہانہ تین لاکھ ساٹھ ہزار ٹن کوڑا کرکٹ گلیوں محلوں ، سڑکوں ،ندی نالوں میں جمع ہورہا ہے۔اس بارے میں سندھ سولڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ایم ڈی کا کہنا ہے کہ کچرے کے پہاڑ اگر دیکھنا ہو تو ، کورنگی ، اور ملیر ملیر ندی اور کھلے میدانوں کے ساتھ نئی کراچی اور سرجانی ٹاؤن میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں آج کچرے سے بجلی پیدا کی جارہی ہے مگر ہم لوگ اسے ندی نالوں میں بہارہے ہیں یا مافیا کے حوالے کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بورڈ کا قیام کا مقصد کچرے سے فائدے اٹھانا بھی ہے لیکن مافیا کی وجہ سے خدشات بھی ہیں کہ اس نظام کو ناکام بنانے کے لیے مزاحمت کی جائے گی ۔لیکن بورڈ ہرطرح کی رکاوٹ کو دور کرکے اپنا کردار ادا کرے گا۔
واضح رہے کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی گندگی غلاظت نے میئر وسیم اختر کو سودن کی مہم شروع کرنے پر مجبور کیا تھا یہ مہم جاری ہے لیکن مہم کے دوران صفائی ستھرائی سے زیادہ گندگی غلاظت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ میئر نے یہ اعلان کرکے غلطی کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب میئر کے پاس کوڑا کرکٹ اٹھانے اور صفائی ستھرائی سے متعلق امور کے ذمے داریاں ہی نہ ہو اور بلدیہ عظمیٰ کو مالی و انتظامی اختیارات کی کمی کا بھی سامنا ہوں تو منتخب بلدیاتی نمائندے کیا کچھ کرسکتے ہیں ؟
nn