راہداری میں مدھم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اسی روشنی و تاریکی میں اسلم کو سیاہ چہرے دکھائے دیے، جو آہستہ آہستہ واضح ہوتے جارہے تھے۔ اسلم نے ٹارچ نکالی اور روشنی کا سکہ ان کی طرف پھینکا۔ یکایک ایک آواز آئی: ’’ٹارچ بند کرو‘‘۔
اسلم نے ان کے حلیے پہچان کر اندازہ لگایا کہ وہ بلیکس ہیں، بولا: ’’کون ہو تم۔۔۔رُک جاؤ‘‘۔
بلیکس اسلم کی طرف بڑھے۔ ان کی پُراسرار حرکت سے اسلم کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے تاریک ماحول میں پُراسرار سائے حرکت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں۔ ابھی اسلم، بلیکس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے اس پر حملہ کردیا۔
’’میں کہتا ہوں کہ۔۔۔ میری بات تو سنو‘‘۔ اسلم بے بسی سے بولا۔۔۔ مگر بلیکس نے کچھ ہی لمحوں میں اسے بے سدھ کرکے ایک کونے میں ڈال دیا۔
n n
رشید، قمرو پر برس رہا تھا: ’’میں پوچھتا ہوں، میرا کوٹ کہاں گیا؟‘‘
قمرو نے بوکھلا کر کہا: ’’میں کیا بتاؤں سر، یہیں تو لٹکا ہوا تھا وہ۔۔۔ آپ کا کوٹ‘‘۔
’’تو پھر گیا کہاں وہ؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم؟ یقین جانیے میں نے چابیاں اسی میں رکھ دی تھیں‘‘۔
’’چابیاں۔۔۔کیسی چابیاں! کون سی چابیاں؟‘‘
اب قمرو کی حالت دیدنی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اسے اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا، چناں چہ کہا: ’’وہ۔۔۔ آپ کی چابیاں۔۔۔‘‘
’’کیا! وہ چابیوں کا گچھا تم نے اُٹھایا تھا؟‘‘
’’ہاں اور میں نے آپ کے کوٹ میں ڈال دیا تھا‘‘۔
’’یہ۔۔۔ یہ تم نے کیا کردیا!!‘‘ رشید مٹھیاں بھینچنے لگا۔۔۔اچانک پوری رصدگاہ اندھیرے میں ڈوب گئی‘‘۔
n n
بلیک ہاؤس کے ایک خاص کمرے میں بلیک چیف اپنے چند دستِ راست کے ساتھ بیٹھا آئندہ کا لائحہ عمل طے کررہا تھا۔ اُس وقت ایک جاسوس، بلیک ہاؤس کے پہرے داروں کو چکما دے کر عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ باہر سورج نمودار ہوچکا تھا، مگر بلیک ہاؤس میں اس کی روشنی کا عمل دخل نہ تھا۔ جاسوس ایسے مقام پر کھڑا تھا کہ کوئی شخص اس کو نہ دیکھ سکے اور وہ بلیک چیف کی باتیں سن سکے۔ وہ بلیک چیف اور اس کے ساتھیوں کی باتیں سن رہا تھا۔
’’بلیک چیف! حافظ جان کی گاڑی میں اس کا کوٹ پڑا ہوا تھا، اس میں سے یہ چابیوں کا گچھا ملا ہے‘‘۔
’’کیا؟ کہاں ہیں وہ چابیاں؟ لاؤ دکھاؤ۔۔۔
ارے یہ تو وہی چابیاں ہیں‘‘۔
’’سر، آپ کو کیسے معلوم کہ یہ اس لاکر کی چابیاں ہیں، جس میں آپ کی مطلوبہ فائل رکھی ہوئی ہے؟‘‘
’’یہ دیکھو، کی چین پر اسٹار کا نشان بنا ہوا ہے اور یونیورسل اسکیچ بھی لکھا ہوا ہے‘‘۔
’’تو سر! اب دیر کس بات کی ہے‘‘۔
’’میں بلیک 10 کی کال کا انتظار کررہا ہوں۔ وہ میرے انتہائی خفیہ آدمی ہیں، جو صرف اور صرف گوریلا مشن میں حصہ لیتے ہیں، اور کبھی ناکام نہیں لوٹتے‘‘۔
’’سر! یہ گوریلا مشن کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’بے وقوف، اس مشن میں ٹارگٹ تک انتہائی خفیہ طریقے سے رسائی حاصل کرنی ہوتی ہے اور دشمن کو نقصان پہنچا کر اس طرح راہِ فرار اختیار کرنی ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو‘‘۔
اچانک ہی فون کی گھنٹی بجی۔ بلیک چیف نے بات کی:
’’ہیلو، کون؟ اسلم۔۔۔ کیا کہا۔ بلیک 10 نے تمہیں زخمی کردیا ہے؟ اس مشن کے لیے میں نے بلیک 10 کا انتخاب کیا ہی اس لیے ہے کہ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر دیوار کو گرادیتے ہیں، چاہے وہ دیوار انہوں نے خود ہی کیوں نہ کھڑی کی ہو۔۔۔ اب دیکھو، کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ بلیک 10 اپنا مشن اتنے خفیہ طریقے سے پورا کریں گے کہ تمہیں اس مشن کے انجام کی خبر بھی نہ ہوگی۔۔۔!! ہاہاہا۔۔۔‘‘ کمرہ بلیک چیف کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔
ادھر باہر کھڑا ہوا جاسوس کھڑکی سے ساری باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا:
’’یونیورسل اسکیچ میں بلیک ہاؤس کے خفیہ آدمی ہیں اور بلیک ہاؤس میں یونیورسل اسکیچ کا خفیہ آدمی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح کس کی ہوتی ہے؟؟‘‘
(باقی آیندہ)