کیلگری (کینیڈا) میں ان دنوں درجہ حرارت منفی 20 ہے۔ مکانوں کی چھتیں، درخت، فٹ پاتھ سب برف سے ڈھکے ہیں۔ ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی ہے۔ گھر سے باہر نکلتے وقت گرم کوٹ (جو منفی درجہ حرارت کو برداشت کرسکے)، اسنو شوز، دستانے اور ٹوپا پہننا لازم ہے۔ اکثر برف کی چھوٹی چھوٹی بوندیں بھی گرتی رہتی ہیں۔ اتنے ٹھنڈے موسم میں جہاں کرسمس کے تہوار کی چہل پہل بھی ہے، گھروں کے باہر سانتا کلارز رکھے ہوئے ہیں، رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی ہیں، وہیں مسلم خواتین کے دو اہم اور قابلِ ذکر پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔
ایک شامی خاتون صائمہ جمال کی اپیل پر سٹی ہال کیلگری کے باہر چوک پر شام چھ بجے مظلوم شامی مسلمانوں کی حمایت میں مظاہرہ ہوا۔ ابتدائی رات کے اس پہر جب سورج غروب ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور کھلی سڑک پر سردی میں کھڑا رہنا محال تھا، انسانیت کا درد رکھنے والے مسلمان اور غیر مسلم مرد اور عورتوں نے بھرپور شرکت کی۔ مسلمانوں کے شیخ جمعہ اور یونائیٹڈ چرچ آف کینیڈا کے نمائندے نے مجمع سے خطاب کیا۔ کیلگری کا پورا پریس، ٹی وی اور اخبار کے نمائندے موجود تھے اور اگلے دن سب نے اس مظاہرے کی بھرپور کوریج کی۔ شرکاء کے ہاتھوں میں موم بتیاں جل رہی تھیں جو مظاہرے کے بعد زمین پر Allep لکھ کر سجائی گئیں۔صائمہ جمال نے اپنے درد بھرے خطاب میں کہا کہ ان مظلوموں کے ساتھ صرف خدا ہے اور ہم خدا سے ہی دعاگو ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے، آمین۔
دوسرا بڑا اور اہم پروگرام کیلگری کے Down Town کے ایک بڑے سینٹر میں مسلم خواتین کی تنظیم Being M.E کی طرف سے تھا۔ یہ Being Muslimah Empowered کا مخفف ہے۔ ہر سال اس تنظیم کی جانب سے خواتین کا سالانہ پروگرام ہوتا ہے۔ پچھلے سال ان کا تھیم ’’حضرت خدیجہََؓ تھیں۔ اِس سال کا مرکزی عنوان “Love Ayesha” تھا۔ صبح 9 سے رات 9 بجے تک ہزار سے پندرہ سو خواتین نے شرکت کی جن میں بیشتر مسلمان اور نومسلم خواتین تھیں جو باحجاب تھیں۔ ایک بہت بڑے اور لمبے ہال میں Horizentally پھیلا ہوا تھا، دو اسکرین بھی لگائی گئی تھیں۔ آواز اور تصویر دونوں کا سسٹم بہترین تھا۔ دن بھر مختلف معاشرتی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی جو خواتین اور خاندان سے متعلق ایشوز تھے مثلاً بے اولاد، بچوں کی تربیت وغیرہ وغیرہ۔ نومسلمہ بہن حصفہ تھامسن نے حضرت عائشہؓ کی سیرت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہؓ کو خاص مقصد کے لیے امت کی تربیت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود منتخب کیا تھا۔ حضرت عائشہؓ انتہائی ذہین، قابل، بااعتماد اور باعلم خاتون تھیں جن سے صحابہ کرامؓ دین کا صحیح فہم حاصل کرتے تھے اور قرآن اور حدیث کی صحیح تفسیر سیکھنے جاتے تھے۔ حفصہ تھامسن نے23 سال قبل اسلام قبول کیا۔ مسلم خواتین میں سائیکالوجسٹ کی حیثیت سے پروفیشنل خدمات انجام دے رہی ہیں، ساتھ ساتھ دعوت کے کام بھی بھرپور طریقے سے کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج میری ماں کا فون آیا کہ کرسمس کی تقریب پر سارا خاندان جمع ہے تم بھی آؤ، تو میں نے منع کردیا۔ وہ درد بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں: Tradition اور روایت کی نفی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ (میکہ میکہ ہوتا ہے عورت مشرق کی ہو یا مغرب کی) الحمدللہ ان کے شوہر اور بچے مسلمان ہیں لیکن باقی فیملی اراکین میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوا۔ مرکزی ہال میں مختلف عنوانات پر پروگرام جاری تھے۔ ایک بچی نے حجاب میں مارشل آرٹ کا مظاہرہ کیا، ایک بچی نے نظم پڑھی، ٹاک شو میں انتہائی قابل، پُراعتماد اور باحجاب خواتین نے سیر حاصل گفتگو کی۔ مغرب کے خاص پس منظر میں اس ماحول میں یہ سب دیکھ کر خوشی اور مسرت کے جو احساسات تھے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘۔
دوسرے ہال میں متوازی پروگرام ہورہے تھے۔ “Domestic Violence” کے عنوان پر ورکشاپ میں شرکت کی جس میں مسلمان خواتین پر ہونے والی زیادتیوں کو ڈسکس کیا گیا اور حقیقی باتیں کی گئیں جو دین کی بالکل نفی بھی نہیں کرتیں اور مسائل کو بھی مصنوعی انداز میں نہیں چھپاتیں۔
ایک خاتون نے روتے ہوئے اپنا ذاتی مسئلہ شیئرکیا لیکن اس کا حل خود انہوں نے کہا کہ Communication ہونا چاہیے شوہر اور بیوی کے درمیان، اور دونوں کی اپنے خاص ماحول سے ہٹ کر کاؤنسلنگ ہونی چاہیے۔
پروگراموں کے علاوہ کوریڈور میں طرح طرح کے اسٹال تھے۔ پاکستانی، انڈین، عربی، مصری مصنوعات اور لوگ۔ کشمیر کے اسٹال پر گرم سوٹ اور کڑھائی والی شالیں تھیں اور وہ صاحب ہمیں نصف قیمت پر دینے کے لیے مُصر تھے۔ ایک انگریز بوڑھا جوڑا کچن کے برتن کے اسٹال کے ساتھ موجود تھا۔ اکنا سسٹرز کا خوب صورت اسٹال بھی موجود تھا اور کارکنان بھی۔ محبت بھری مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی تھا اور خوش گپیاں بھی۔ پاکستانی اور انڈین شادیوں کے سوٹ، جیولری، مصری عبایا، گرم کوٹ، اسلامی کتابوں کا اسٹال۔ سات سمندر پار اتنی گہماگہمی، رونق اور باحجاب اور بااعتماد مسلم خواتین کی ان سرگرمیوں نے ثابت کردیا کہ اسلام شرق و غرب کی لامحدود وسعتوں میں اپنی شان اور عظمت کے ساتھ موجود ہے اور موجود رہے گا ان شاء اللہ۔
ایک شامی خاتون صائمہ جمال کی اپیل پر سٹی ہال کیلگری کے باہر چوک پر شام چھ بجے مظلوم شامی مسلمانوں کی حمایت میں مظاہرہ ہوا۔ ابتدائی رات کے اس پہر جب سورج غروب ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور کھلی سڑک پر سردی میں کھڑا رہنا محال تھا، انسانیت کا درد رکھنے والے مسلمان اور غیر مسلم مرد اور عورتوں نے بھرپور شرکت کی۔ مسلمانوں کے شیخ جمعہ اور یونائیٹڈ چرچ آف کینیڈا کے نمائندے نے مجمع سے خطاب کیا۔ کیلگری کا پورا پریس، ٹی وی اور اخبار کے نمائندے موجود تھے اور اگلے دن سب نے اس مظاہرے کی بھرپور کوریج کی۔ شرکاء کے ہاتھوں میں موم بتیاں جل رہی تھیں جو مظاہرے کے بعد زمین پر Allep لکھ کر سجائی گئیں۔صائمہ جمال نے اپنے درد بھرے خطاب میں کہا کہ ان مظلوموں کے ساتھ صرف خدا ہے اور ہم خدا سے ہی دعاگو ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے، آمین۔
دوسرا بڑا اور اہم پروگرام کیلگری کے Down Town کے ایک بڑے سینٹر میں مسلم خواتین کی تنظیم Being M.E کی طرف سے تھا۔ یہ Being Muslimah Empowered کا مخفف ہے۔ ہر سال اس تنظیم کی جانب سے خواتین کا سالانہ پروگرام ہوتا ہے۔ پچھلے سال ان کا تھیم ’’حضرت خدیجہََؓ تھیں۔ اِس سال کا مرکزی عنوان “Love Ayesha” تھا۔ صبح 9 سے رات 9 بجے تک ہزار سے پندرہ سو خواتین نے شرکت کی جن میں بیشتر مسلمان اور نومسلم خواتین تھیں جو باحجاب تھیں۔ ایک بہت بڑے اور لمبے ہال میں Horizentally پھیلا ہوا تھا، دو اسکرین بھی لگائی گئی تھیں۔ آواز اور تصویر دونوں کا سسٹم بہترین تھا۔ دن بھر مختلف معاشرتی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی جو خواتین اور خاندان سے متعلق ایشوز تھے مثلاً بے اولاد، بچوں کی تربیت وغیرہ وغیرہ۔ نومسلمہ بہن حصفہ تھامسن نے حضرت عائشہؓ کی سیرت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہؓ کو خاص مقصد کے لیے امت کی تربیت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود منتخب کیا تھا۔ حضرت عائشہؓ انتہائی ذہین، قابل، بااعتماد اور باعلم خاتون تھیں جن سے صحابہ کرامؓ دین کا صحیح فہم حاصل کرتے تھے اور قرآن اور حدیث کی صحیح تفسیر سیکھنے جاتے تھے۔ حفصہ تھامسن نے23 سال قبل اسلام قبول کیا۔ مسلم خواتین میں سائیکالوجسٹ کی حیثیت سے پروفیشنل خدمات انجام دے رہی ہیں، ساتھ ساتھ دعوت کے کام بھی بھرپور طریقے سے کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج میری ماں کا فون آیا کہ کرسمس کی تقریب پر سارا خاندان جمع ہے تم بھی آؤ، تو میں نے منع کردیا۔ وہ درد بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں: Tradition اور روایت کی نفی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ (میکہ میکہ ہوتا ہے عورت مشرق کی ہو یا مغرب کی) الحمدللہ ان کے شوہر اور بچے مسلمان ہیں لیکن باقی فیملی اراکین میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوا۔ مرکزی ہال میں مختلف عنوانات پر پروگرام جاری تھے۔ ایک بچی نے حجاب میں مارشل آرٹ کا مظاہرہ کیا، ایک بچی نے نظم پڑھی، ٹاک شو میں انتہائی قابل، پُراعتماد اور باحجاب خواتین نے سیر حاصل گفتگو کی۔ مغرب کے خاص پس منظر میں اس ماحول میں یہ سب دیکھ کر خوشی اور مسرت کے جو احساسات تھے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘۔
دوسرے ہال میں متوازی پروگرام ہورہے تھے۔ “Domestic Violence” کے عنوان پر ورکشاپ میں شرکت کی جس میں مسلمان خواتین پر ہونے والی زیادتیوں کو ڈسکس کیا گیا اور حقیقی باتیں کی گئیں جو دین کی بالکل نفی بھی نہیں کرتیں اور مسائل کو بھی مصنوعی انداز میں نہیں چھپاتیں۔
ایک خاتون نے روتے ہوئے اپنا ذاتی مسئلہ شیئرکیا لیکن اس کا حل خود انہوں نے کہا کہ Communication ہونا چاہیے شوہر اور بیوی کے درمیان، اور دونوں کی اپنے خاص ماحول سے ہٹ کر کاؤنسلنگ ہونی چاہیے۔
پروگراموں کے علاوہ کوریڈور میں طرح طرح کے اسٹال تھے۔ پاکستانی، انڈین، عربی، مصری مصنوعات اور لوگ۔ کشمیر کے اسٹال پر گرم سوٹ اور کڑھائی والی شالیں تھیں اور وہ صاحب ہمیں نصف قیمت پر دینے کے لیے مُصر تھے۔ ایک انگریز بوڑھا جوڑا کچن کے برتن کے اسٹال کے ساتھ موجود تھا۔ اکنا سسٹرز کا خوب صورت اسٹال بھی موجود تھا اور کارکنان بھی۔ محبت بھری مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی تھا اور خوش گپیاں بھی۔ پاکستانی اور انڈین شادیوں کے سوٹ، جیولری، مصری عبایا، گرم کوٹ، اسلامی کتابوں کا اسٹال۔ سات سمندر پار اتنی گہماگہمی، رونق اور باحجاب اور بااعتماد مسلم خواتین کی ان سرگرمیوں نے ثابت کردیا کہ اسلام شرق و غرب کی لامحدود وسعتوں میں اپنی شان اور عظمت کے ساتھ موجود ہے اور موجود رہے گا ان شاء اللہ۔