سردیوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے، ارحم کمرے میں بیٹھا اپنا ہوم ورک مکمل کررہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
’’افوہ، کون آگیا، جب بھی پڑھنے بیٹھو، کوئی نہ کوئی چلا آتا ہے‘‘۔ وہ بڑبڑاتا ہوا دروازے تک گیا۔ دروازے کا پٹ کھول کر باہر جھانکا تو سرد ہوا کے جھونکے کے ساتھ سامنے ایک چھوٹی پیاری سی بچی نظر آئی۔
’’جی فرمائیے۔۔۔!‘‘
’’وہ جی میرا نام عریشہ ہے، امی نے تھوڑی سی پیاز منگوائی ہے‘‘۔ اس کا لہجہ کچھ جھینپا جھنپا سا تھا۔
’’تم کہاں رہتی ہوں؟‘‘
’’وہ سامنے شاہ جی صاحب کا گھر ہے ناں۔ ہم ان کے نئے کرائے دار ہیں۔‘‘
بچی نے بڑی معصومیت سے اپنا تعارف کروایا۔
’’آپ کے ابو کیا خود بازار جاکر پیاز نہیں لاتے۔۔۔؟‘‘ ارحم نے پاؤں پٹختے ہوئے کہا۔
’’وہ تو امی لاتی ہیں، آج انہیں بخار ہے، اس لیے بازار نہیں جاسکیں اور۔۔۔‘‘
وہ بچی کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی، لیکن ارحم نے اس کی بات کاٹ کر کہا: ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، تم یہیں کھڑی رہو، میں پیاز لاتا ہوں۔‘‘
وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ امی کپڑے دھو رہی تھیں۔ انہوں نے پوچھا: ’’بیٹا، دروازے پر کون آیا ہے؟‘‘
’’ارے کون آئے گا! ظاہر ہے آپ کے بھیک منگے پڑوسی ہی ہوں گے، شاہ جی صاحب کے نئے کرائے دار ہیں، پیاز مانگنے اپنی چھوٹی بیٹی کو بھیجا ہے۔‘‘
’’تو دے دو بیٹا، پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آتا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں، ان مانگنے والوں میں اپنا گھر ہی لُٹادیں!‘‘
’’بری بات بیٹا، اللہ کے نبیؐ نے ہمیشہ اپنے گھر والوں اور صحابہ کرامؓ کو پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں عمدہ نصیحتیں کی ہیں، ان کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی بات امتِ مسلمہ پر بھی لازم آتی ہے، اس لیے کہ چھوٹی بڑی پریشانی میں پہلے پڑوسی شامل ہوتے ہیں، بعد میں رشتے دار آتے ہیں۔ دو بھائیوں سے پہلے دو پڑوسیوں کا حساب لیا جائے گا۔ ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود پیٹ بھر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوجائے۔‘‘
’’افوہ امی، آپ بھی بس لیکچر دینے لگیں‘‘۔۔۔ارحم بڑبڑایا، پھر بچی کو چھوٹا سا شاپر پکڑادیا، جس میں پیاز تھی۔
دوسرے دن جب وہ اسکول سے آنے کے بعد ہوم ورک کررہا تھا، پھر وہی بچی چلی آئی۔ آج اسے تھوڑی سی برف چاہیے تھی۔ ارحم نے دیکھا کہ امی بازار گئی ہیں، چناں چہ اس نے ننھی بچی کو لتاڑتے ہوئے طنز بھرے لہجے میں کہا: ’’لگتا ہے تمہارے گھر والے بھی نواب ہیں، بہت گرمی لگتی ہے، سردی میں بھی تم لوگ ٹھنڈا پانی پیتے ہو۔‘‘
’’وہ جی۔۔۔دراصل امی۔۔۔‘‘
’’بس بس رہنے دو، پتا ہے تمہاری امی ٹھنڈا پانی پیے بغیر نہیں رہ سکتیں، یہی ناں!!‘‘
’’نہیں۔۔۔ ان کا بخار اُتر نہیں رہا ہے، ٹھنڈے پانی کی پٹیاں سر پر رکھنے سے شاید اُتر جائے‘‘۔ بچی کا لہجہ افسردگی میں ڈوبا ہوا تھا اور بات کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔
اب ارحم کو اپنے بُرے رویّے پر دل ہی دل میں افسوس ہوا۔ اس نے جلدی سے برف کا ایک بڑا ٹکڑا نکال کر شاپر میں ڈالا، پھر بچی کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’آپ کی امی نے دوائی کھائی؟‘‘
’’نہیں، اُن سے تو بستر ہی سے نہیں اُٹھا جارہا، وہ ڈاکٹر کے پاس کیسے جائیں گی! میں نے ان سے کہا تھا کہ میں آپ کی دوائی لادیتی ہوں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ تم ابھی بہت چھوٹی ہو، راستہ بھول جاؤ گی۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر بچی نے آہستہ سے کہا: ’’کاش۔۔۔میرے ابو زندہ ہوتے تو ہمیں کوئی پریشانی نہ ہوتی، کاش میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہی امی کی دوا لے آتا اور وہ ٹھیک ہوجاتیں۔۔۔‘‘
اُس نے اتنی آہستگی سے کہا کہ اگر ارحم اس کی بات پورے انہماک سے نہ سُن رہا ہوتا تو سمجھ ہی نہ پاتا۔ جب بچّی نے آخری جملہ ’’کاش میرے ابو زندہ ہوتے، کاش میرا کوئی بھائی ہوتا‘‘۔۔۔مکمل کیا تو ارحم کے دل پر جیسے گھونسا سا لگا۔
اس نے بچی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’گڑیا بہن، تم پریشان نہ ہو، میں ابھی ڈاکٹر صاحب کوآپ کے گھر لے کر پہنچتا ہوں۔‘‘
’’اللہ، آپ کو بہت خوش رکھے!‘‘ اس پیاری سی بچی کے منہ سے نکلا، ساتھ ہی اس نے اپنے ننھے سے دوپٹے سے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو پونچھ لیے۔
’’ابھی امی کے سر پر برف نہ رکھنا، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘۔ ارحم نے چلتے چلتے پلٹ کرکہا۔
ڈاکٹر انصاری ان کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ ارحم نے گھر کو تالا لگایا اور قریباً دوڑتا ہوا ان کے کلینک جاپہنچا۔ ڈاکٹر بھی کچھ ہی دیر پہلے کلینک پہنچے تھے۔ ارحم نے انہیں سلام کیا اور سارا واقعہ کہہ سُنایا۔ ڈاکٹر صاحب خدا ترس انسان ہیں۔ فوراً ہی اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور مریضہ کو دیکھنے گھر پہنچ گئے۔ پھر اپنی مریضہ کو بڑی توجہ اور شفقت سے دیکھا اور تسلی دیتے ہوئے دوا بھی تجویز کردی۔
جب ڈاکٹر انصاری اپنے کام سے فارغ ہوچکے تو ننھی عریشہ کی والدہ نے شرمندہ لہجے میں کہا: ’’ڈاکٹر صاحب، میں آپ کی فیس ٹھیک ہونے کے بعد ادا کروں گی، کیوں کہ میرے پاس آپ کو دینے کے لیے اس وقت پیسے نہیں ہیں۔‘‘
ڈاکٹر انصاری نے کہا: ’’ارے بہن، پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں، وہ تو مل ہی جائیں گے، بس آپ دوا پابندی سے کھائیں اور جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب، فیس آپ کو ابھی ہی ملے گی، یہ لیجیے‘‘۔۔۔ ارحم نے جیب سے 500 کا نوٹ نکال کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’میاں ارحم، ہمیں بھی کوئی نیکی کرنے دو‘‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ارحم کی طرف دیکھا۔ ارحم نے جلدی سے کہا: ’’امی کہتی ہیں، سب سے زیادہ حق پڑوسیوں کا پڑوسیوں پر ہوتا ہے، اس لیے یہ نیکی فی الحال مجھے ہی کرنے دیجیے۔‘‘
’’اچھا میاں، ٹھیک ہے، تم تو بازی لے گئے۔۔۔کاش ہم تمہارے پڑوسی ہوتے‘‘۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے پیار سے ارحم کے گال تھپتھپائے۔ ارحم جب دوا اور کچھ پھل وغیرہ لے آیا تو امی آچکی تھیں اور ننھی عریشہ کی والدہ کے پاس ہی بیٹھی اُن کی مزاج پرسی کررہی تھیں۔ انہوں نے ارحم میں خوش کن تبدیلی محسوس کی تو خوشی سے نہال ہوگئیں اور اس کا ماتھا چُوم کر بولیں: ’’بیٹا، آج تم نے پڑوسیوں کی سچّے دل سے خدمت کرکے میرا دل خوش کردیا۔ اب جب تک عریشہ کی امی بیماری سے صحت یاب نہیں ہوں گی، تب تک ہم ان کی تیمارداری کریں گے، اور ہاں تم ننھی عریشہ کو کبھی نہیں ڈانٹو گے اور ایک بھائی بن کر بھی دکھاؤ گے۔۔۔‘‘
’’بالکل امی جان، آج میں اللہ کے پیارے رسولؐ کے فرمان پر دل وجان سے عمل کروں گا اورعریشہ کو بھائی کی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
’’شکریہ بہن، آپ نے اپنے بیٹے کی کتنی اچھی تربیت کی ہے۔ اللہ پاک، آپ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔ کاش عریشہ کا بھی ایک بھائی ہوتا۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے عریشہ کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ارحم کی امی نے فوراً اُن کے آنسو اپنے دوپٹے کے پلو سے پونچھ دیے اور بولیں: ’’بہن، دل چھوٹا نہ کریں، یہ پہلے آپ کا اور بعد میں میرا بیٹا ہے۔‘‘
اسی وقت ننھی عریشہ کے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’بھائی جان‘‘۔۔۔ اس نے اپنے ننھے ہاتھ ارحم کی طرف پھیلادیے تھے۔
ارحم نے آگے بڑھ کر بڑے پیار سے اپنی ننھی بہن کو اپنی شفقت آمیز گود میں بھرلیا اوردھیرے سے کہا: ’’مجھے معاف کردینا گڑیا، میں اب تمہیں سچ مچ بھائی بن کر دکھاؤں گا۔۔۔ ان شاء اللہ۔۔۔!!‘‘
nn