مہنگائی کے آسیب کو حسن سلیقہ اور کفایت کے منتر سے بھگائیے ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
دنیا بھر میں مہنگائی کی وجہ سے متوسط طبقے کا جینا اجیرن ہوگیا ہے۔ یہ آسیب اتنا بڑھ گیا ہے کہ کم آمدنی والے لوگوں کی راتوں کی نیندیں اچاٹ ہوگئی ہیں۔ خواتین بے چاری کیا کریں، وہ گھر کا نظام چلانے کی ذمے دار۔۔۔ ایک ہفتے بعد ہی تنخواہ ختم ہوجانے کا رونا رونے لگتی ہیں، کیونکہ ماہانہ تنخواہ تو گیس، بجلی، ٹیلی فون کے بلوں اور بچوں کی فیس کی نذر ہوگئی۔ اب پورا مہینہ گزارنا ہے اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنا ہیں۔ ذرا سوچیں، جس شخص کی آمدنی قلیل ہو اور اُس کے تین چار بچے پڑھنے لکھنے والے ہوں وہ کیسے گزارا کرے۔ اِس کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ عورت اس کے ساتھ آمدنی میں معاونت کرے۔ اگر پڑھی لکھی ہے اور اپنی ڈگری سے فائدہ اٹھا سکتی ہے تو اسے ضرور شوہر کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر ان پڑھ مگر ہنرمند عورت ہے تو اسے اپنے ہنر سے آمدنی میں اضافے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کفایت شعاری اور سلیقہ مندی عورت کے اصل ہنر ہیں۔ آپ چھوٹے چھوٹے کاموں میں کفایت سے بچت کرسکتی ہیں۔ عورت کو اسراف اور تبذیر کی زیادہ عادت ہوتی ہے۔ کم خواتین ایسی ہیں جو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کفایت کے پہلو کو مدِنظر رکھتی ہیں۔ بجلی کا بل اگر زیادہ آتا ہے تو بجلی میں بچت کرکے، ٹی وی، فریج کا استعمال کم کرکے بل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بعض گھروں میں شام ہوتے ہی سارے گھر کے بلب، ٹیوب لاٹس اور ٹی وی آن ہوجاتا ہے۔ کمرے میں ٹی وی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو، ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ خاتونِِ خانہ باورچی خانے میں کام میں مصروف ہیں مگر ٹی وی کھلا رہتا ہے۔ جس کمرے میں آپ موجود ہیں صرف اُس کمرے کی بجلی جلایئے، پورے گھر کو بقعۂ نور بنانے سے آپ کا بل بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ فریج کو گھنٹے دو گھنٹے کے لیے بند کردیں، کمروں میں ٹیوب لائٹ کے بجائے انرجی سیور استعمال کریں، خالی کمرے میں پنکھا چلتا چھوڑ کر نہ جائیں۔ کمرے سے نکلنے سے پہلے بجلی کے سارے بٹن آف کردیں، رات کو سب ایک ہی کمرے میں بیٹھیں تو بہتر ہے۔ آج کل دلوں کی دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کا اپنا کمرہ ہوتا ہے جس میں وہ دن رات گھسا رہتا ہے، ایک دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اپنا بیڈ روم، اپنا ٹی وی، اپنا اے سی۔۔۔ سب انفرادی زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے ہیں، اس لیے تنہائی کے زہر نے سب کو ڈس لیا ہے۔ گھر میں رہنے والے دس افراد ایک دوسرے کے مسئلے سے ناآشنا اور ناواقف ہوتے ہیں۔ اپنے گھر کو ایک ایسا گوشۂ عافیت و سکون بنایئے کہ لوگ وہاں آکر طمانیت محسوس کریں۔ خواتین ہی اس مسئلے پر قابو پاسکتی ہیں۔
ہر ماہ نئے ملبوسات بنانے سے آپ کے اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین اپنے اخراجات میں اس صورت میں کمی کرسکتی ہیں کہ اپنی محنت اور طاقت و صلاحیت کو فضول خرچی کی نذر نہ کریں۔ ہر نئے فیشن کے پیچھے دوڑنا انتہائی حماقت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ بجٹ بناکر اس پر سختی سے عمل کریں۔ دوسروں کی نقل کرکے اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔
سودا سلف لینے یا خریداری کرنے سے پہلے ایک فہرست بنا لیں، ہمیشہ مہینہ کی درمیانی تاریخوں میں خریداری کریں، قریب ترین مارکیٹ سے چیزیں خریدیں تاکہ رکشا، ٹیکسی والوں کے منہ مانگے کرایہ سے بچ سکیں۔ بعض اوقات بلا ضرورت خریدی جانے والی اشیاء آپ کا بجٹ فیل کردیتی ہیں۔ جن چیزوں کی ضرورت نہ ہو وہ کتنی ہی سستی کیوں نہ ہوں، آپ کے لیے بے کار ہیں۔ بے کار چیزوں کو گھر میں جمع کرنا بے وقوفی اور حماقت ہے۔
کسی شادی میں شریک ہوتے وقت اپنے بجٹ پر ایک مرتبہ ضرور نظر ڈالیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیں۔ نمود و نمائش کی خاطر قرض ادھار لے کر کبھی کسی کو تحفہ نہ دیں۔ دوستوں کی شادی میں ایک تہنیتی کارڈ کے ساتھ گلدستہ دے سکتی ہیں۔ بے جا اور غیر ضروری اخراجات بڑھا کر اپنے آپ کو اور اپنے شوہر یا بھائیوں کو پریشان نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے مطالبات پر مجبور ہوکر ناجائز ذرائع استعمال کریں۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی اور اعصابی امراض کی ایک اہم وجہ بے سکونی و بے اطمینانی ہے۔ قناعت کا نہ ہونا، اللہ پر بھروسا نہ ہونا اور خواتین کی ناسمجھی اور بے جا فرمائشیں اور مطالبات بھی ہیں، جن کی وجہ سے مرد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، بے خوابی اور انجائنا جیسے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عورت کو بننے سنورنے کا شوق ہوتا ہے اور سنگھار، زیب و زینت اس کا حق بھی ہے۔ مگر ہر کسی کی تقریب کے لیے نئے کپڑے بنانا، نئے زیور خریدنا کہاں کی عقل مندی ہے! یہ حقیقت ہے کہ آج کے مصروف زمانے میں کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ آپ کے لباس پر غور کرے یا یاد رکھے کہ آپ نے پچھلی تقریب میں کیا پہنا تھا۔ یہ ہماری اپنی خام خیالی ہے۔ دوسروں سے تعریف اور ستائش کے چند کلمات کی خاطر اپنے آپ کو فضول مشقت میں نہ ڈالیں۔ خواتین کو اپنی تعریف کرانے کا زیادہ شوق ہوتا ہے جس کے لیے وہ شوہر کی جیب کی پروا کیے بغیر اپنی فرمائشیں اور خواہشات پوری کروانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے اس خوف ناک آسیب سے بچنے کے لیے کفایت اور سلیقہ کو آزمائیں۔ پرانے ملبوسات کو نیا کرکے پہنیں۔ بعض اوقات گھر میں برسہا برس سے پڑے ہوئے صندوقوں میں رکھے ہوئے ملبوسات اتنے خوب صورت ہوتے ہیں کہ ان کو ذرا سی تبدیلی سے نیا بنایا جاسکتا ہے۔ پرانے کام دار جوڑوں اور ساڑھیوں کو نئی شکل دے کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کفایت اور سلیقے سے آپ کسی بھی تقریب میں اپنے آپ کو منفرد بنا سکتی ہیں۔ انڈین ٹی وی چینلز نے پاکستانی خواتین کو کشش، بالی اور کُم کُم ساڑھی کے فریب میں مبتلا کردیا۔ میک اَپ کی بھرمار، زیورات کی چکا چوند اور کامدار ساڑھیوں کی ریل پیل۔۔۔ بس یہی ہے انڈین چینلز پر۔ہماری خواتین ان تمام سطحی چیزوں سے بہت متاثر ہیں۔ یاد رکھیے کہ پڑھی لکھی، باوقار، سادگی پسند اور منفرد خواتین ہر محفل میں حسین نظر آتی ہیں۔ تقریب میں شرکت سے پہلے اس کی نوعیت کو دیکھ کر اپنے ملبوسات کا انتخاب کریں۔ اگر آپ کے پاس زیورات نہیں ہیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اس کے بغیر بھی پوری تمکنت کے ساتھ محفل کی جان بن سکتی ہیں۔ یاد رکھیے کہ کسی بھی محفل میں آپ کی شرکت اہم ہے، آپ کے زیور اور کپڑے نہیں۔ اپنے بجٹ میں گنجائش دیکھ کر دو، تین خوب صورت سے اسکارف خریدیں، تقاریب میں اپنے لباس کی میچنگ سے اسکارف سر پر لپیٹیں اور بے فکر ہوکر ہر قسم کے زیورات سے مبرا، شادی میں شرکت کریں۔ یقین کیجیے آپ کا یہ انداز دوسروں کو آپ کی تقلید پر مجبور کردے گا اور اگلی تقریب میں آپ دیکھیں گی کہ کئی خواتین کے سر اسکارف سے ڈھکے ہوں گے۔ آپ کی مسکراہٹ آپ کے قابلِ فخر ہونے کا خوب صورت اظہار ہوگی۔ دوسروں کو صحیح راستہ دکھانے کے لیے آپ کو ثواب بھی ملے گا اور بے بس اور مجبور شوہر کی دعائیں بھی۔
nn