2016ء بھی بہت سی خوشیاں اور ان گنت غم دے کر آخرکار رخصت ہوگیا۔ مجموعی طور پر یہ سال بھی ملک میں سیاسی داؤ پیچ، حادثات اور صدمات کا سال رہا۔ بدقسمتی اور نااہلی کے بادل چھائے رہے۔ کیسے کیسے قیمتی ہیرے موتی جیسے لوگ اس سال ہم نے پیوندِ خاک کیے۔ ان کی جدائی ہمارے ملک و قوم کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہوئی۔ اور جن کا نعم البدل حاصل کرنے کے لیے ہمیں نہ جانے مزید کتنے سال انتظار کرنا پڑے گا۔
حادثات کے تسلسل نے ہر شہری کو غم زدہ رکھا، چاہے وہ جہاز کا حادثہ ہو یا ریل گاڑی کا، بس کا ہو یا ہوٹل میں آگ لگنے کا۔۔۔ غرض وہ مجموعی طور پر قومی نقصان ہی ٹھیرا۔
عبدالستارایدھی، مریم مختار شہید جو کہ پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ تھیں ایک حادثے میں شہید ہوگئیں۔ اسی طرح مبلغ دین جنید جمشید کی طیارہ حادثے میں شہادت۔ اس کے علاوہ بھی ہم نے بڑے قیمتی لوگوں کو اس سال کھو دیا۔
سالوں کا آنا اور جانا کیا ہے؟ صرف ہندسے تبدیل ہورہے ہیں۔ ہر گزرتا دن ہماری زندگی کا ایک دن گھٹا دیتا ہے اور موت سے قریب کردیتا ہے۔ موت جو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں۔ ہر صبح کو نکلتا سورج ہمیں ایک نئے دن کی نوید دیتا ہے اور ساتھ یہ یاددہانی بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے کہ اس نے ہمیں ایک دن کی مہلت اور دے دی، سنبھل جائیں، پلٹ جائیں، رجوع کرلیں، توبہ کرلیں، نہ جانے کب زندگی کی کتاب بند ہوجائے۔
ہر طلوع و غروب ہوتا چاند و سورج آرزوئیں، امنگیں، خواہشات اور امیدیں لے کر آتا ہے اپنی ذات کے حوالے سے بھی، اپنے گھر، خاندان، معاشرے، شہر اور ملک کے حوالے سے بھی خوش حالی، بہتری اور ترقی کی آس لے کر۔ جب تک اپنی انفرادی زندگی، گھر اور خاندان کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمارے معاشرے میں تبدیلی ناممکن ہے۔ لہٰذا ان بدلتے ہندسوں کے ساتھ نئے سال کی آمد اس امید اور دعا سے کریں کہ خدا ہمیں بھی باعمل مسلمان بنا دے، اپنے دین کی سرفرازی کے لیے ہم سے کام لے لے، اقامتِ دین کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنادے اور ملک میں امن وامان، انصاف اور عدل کا بول بالا ہو۔ مخلص اور محب وطن قیادت ہمارے ملک کو نصیب ہوجائے تو ملک کی قسمت بھی بدل جائے۔ نئے سال کے آغاز پر بس یہی دعا ہے کہ اللہ پاک نئے سال کو اس ملک کے باشندوں کے لیے خوش آئند بنائے، ہم آپس کے جھگڑوں کو بھول کر ملکی ترقی و خوش حالی کے اقدامات کریں، ساتھ ہی منکرات سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
زندگی گزارتے ہوئے چند لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب انسان سر توڑ کوششوں اور محنت کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کرپاتا، اور اُس وقت اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید اللہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ یا پھر انسان مایوسی جو کہ کفر کا دوسرا نام ہے، کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب سب راستے بند ہوجائیں تو انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایک راستہ ایسا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا، اور وہ ہے رب العزت کی محبت اور اس کی چاہت کا راستہ۔
انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جیسا گمان (یقین) اُس ذات سے رکھتا ہے، ویسا ہی اس کو ملتا ہے۔ زندگی میں آج سے ہی مثبت سوچ پیدا کریں اور اچھا گمان اور یقین رکھیں۔ اللہ انسان کی محنت کو سنبھال لیتا ہے اور اس کی محنت اور عمل کے مطابق دنیا اور آخرت دونوں میں نوازتا ہے۔