ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
گزشتہ 2شماروں میں حلب (شام) اور یمن کی جنگی صورتحال کی خونچکاں داستان رقم کرنے کے بعد یہ خواہش پیدا ہوئی کہ عرب دنیا میں کسی اچھے تجربے کو بھی لکھا جائے تاکہ قارئین کو کوئی خوشگوار خبر بھی پڑھنے کو ملے ۔ اس پس منظر میں نظر انتخاب عرب دنیا کے ایک خوبصورت ملک تیونس پر پڑی جہاں سے 2011میں “عر ب بہار”کا آغاز ہوا جو ایک افسوسناک واقعہ سے شروع ہو ا جب 17دسمبر 2010کو تیونس کے ایک چھوٹے سے قصبے سیدی بوزید میں ایک 26سالہ سبزی فروش نوجوان محمد البوغزیزی نے خود سوزی کی کوشش کی ۔ یہ ایک بے روزگار تعلیم یافتہ گریجویٹ نوجوان تھا جس نے اپنی گزر بسر کے لیے سبزیوں کا خوانچہ لگایا ہوا تھا لیکن بلدیاتی اہلکاروں نے تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران اس کو الٹ دیا جس کے خلاف احتجاج کے طور پر اس نوجوان نے بلدیاتی دفتر کے سامنے اپنے آپ کو آگ لگادی ۔ اس خود سوزی کے واقعہ نے زبردست عوامی احتجاج کی ایک ایسی لہر پید اکی جس نے ایک ماہ کے اندر پورے تیونس میں ہلچل مچا دی اور پھر یہ لہر صرف تیونس تک محدود نہ رہی بلکہ پورے دنیائے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مصر ، لیبیاء، شام سمیت پوری عرب دنیا میں بڑے بڑے برج الٹ دئیے۔
تیونس ایک مسلمان ملک ہے جس کی تاریخ 13سو سال پر محیط ہے ۔ اسلام کی روشنی افریقہ کے اس علاقے میں پہلی صدی ہجری (698ء) میں پہنچی اور 1883میں فرانسیسی سامراجی قوت کے قبضے میں آنے سے پہلے تک یہ اسلامی خلافت کا حصہ رہا ۔ البتہ ہسپانیہ میں مسلمانوں کے حکومت کے بعد کچھ عرصے تک (1564-74)یہ علاقہ بھی عیسائی حکمرانوں کے زیر نگوں رہا ۔ اس میں جو مسلمان حکمران بقیہ عرصہ میں رہے ان میں عرب ، بر بر ، فاطمی ، موحدین اور عثمانی شامل رہے ہیں۔ تیونس کی ایک پہچان جامعہ زیتونیہ ہے جو قدیم ترین اسلامی تعلیمی ادارہ ہے جو ایک طویل عرصے سے دینی ، اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور پوری عرب دنیا نے اس جامعہ سے استفادہ کیا ہے ۔ تیونس کی ایک اور شناخت مشہور اسلامی مفکر ، سیاسی مدبر مصنف اور عالم ابن خلدون بھی ہیں۔ اہل تیونس پہلے مالکی مسلک سے وابستہ تھے پھر عثمانی دورمیں آبادی کے ایک حصے نے حنفی مسلک اختیار کیا ۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں تصوف کے سلسلے قادریہ ، رحمانیہ ، عروصیہ ، تبجانیہ بھی خاصے معروف رہے ہیں۔
تیونس کی تاریخ کا ایک سیاہ دور فرانس کی نو آبادیاتی کالونی ہے جو 1883سے شروع ہو کر 1955تک جاری رہا ۔ فرنسیسی سامراج کے خلاف جو عوامی تحریک بر پا ہوئی اس کے اہم کردار بھی جامعہ زیتونیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے جن میں عبدالحمید بن باس، توفیق مدنی اور حواری بومدین شامل ہیں۔ آزادی کی تحریک کا ہدف صرف فرانسیسی سامراج سے نجات ہی نہ تھا بلکہ تیونس کے اسلامی تشخص کی حفاظت اور دینی اقدار کی سربلندی بھی تھا۔ تحریک آزادی کے ایک رہنما حبیب بورقیبہ جو بعد میں ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور 1956سے 1987تک بلا شرکت غیر ے حکومت کے مزے لوٹتے رہے نے خود اپنی تقاریر میں اسلام کو تیونس کی شناخت کے طور پر پیش کیا اور مسلمان عورت کے حجاب کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا لیکن بعد میں اسی کے دو ر حکومت میں ملکی قانون تہذیب و ثقافت کا رشتہ اسلام سے کاٹنے کا کارنامہ سر انجام دیا گیا ۔ آزادی کے بعد اہل تیونس کی آزمائش کا یہ دوسرا دور آمریت 1987میں ختم ہوا تو اسی کی حکومت میں خفیہ ایجنسی مخابرات کے سربراہ زین العابدین بن علی صدر مملکت بن گئے اور اہل تیونس ایک او ردور جبر و استبداد کا شکار بن گئے خاص بات یہ ہے کہ مغربی اقوام بالخصوص فرانس اور امریکہ نے تیونس کے ان دونوں ادوار میں ڈکٹیٹر شپ کی پوری پشت پناہی کی ۔
1980میں جامعہ زیتونیہ ہی سے فارغ التحصیل 2شخصیا ت نے تیونس میں اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی ۔ پروفیسر راشد الغنوشی اور عبدالفتاح مورو کی قیادت میں پہلے الانتجاہ الاسلامی اور پھر حزب النہضہ کے نام سے اسلامی اقدار اور شعائر کی ترویج ، قانون کی بالادستی ، بنیادی حقوق کے تحفظ او ر جمہوریت کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کیا ۔ ان کے جاری کردہ رسالوں المعارفہ ، مستقبل اور اور الفجر کے مضامین نے ملک میں ایک فکری انقلاب بر پا کر دیا اس دعوت اور پیغام کو ا ہل اقتدار نے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ۔
راشد غنوشی جو النہضہ کے سربراہ بنے تیونس کے شہر الحمد میں 1941میں پید اہوئے ۔ جامعہ زیتونیہ سے 1962میں گریجویشن کے بعد قاہرہ یونیورسٹی میں زراعت کے شعبہ میں داخلہ لیا۔ مصرکے حکمرن جمال عبدالناصر نے اپنے دور میں تیونس کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اس کے باشندوں کو ملک بدر کر دیا تھا۔ اس دور میں راشد غنوشی شام چلے گئے اور دمشق یونیورسٹی میں داخلہ لے کر 1968میں فلسفے کی ڈگری حاصل کی ۔ پھر فرانس کی سوربورن یونیورسٹی میں ایک سال گزار کر واپس وطن آگئے اور معلمی کا پیشہ اختیار کیا ۔ حبیب بورقیبہ اس کے بعد زین العابدین بن علی کے ادوار میں “النہضہ “کا ارتقاء ان کی قیادت میں جاری رہا ۔ تنظیم نے اپنا آغاز آمر اور سیکولر حکومت کے خلاف جس نے عوام کے ساتھ ظلم و صبر کا رویہ اختیار رکھا اور مذہبی آزادی او اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کر رکھی تھیں۔ اسلامی تحریک کے طور پر کیا ۔ تیونسی آمروں نے ملک میں ہر قسم کے سیاسی بحث و مباحثوں پر پابندی لگا رکھی تھی اور سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کو بھی پابند کیا کہ وہ صرف سماجی و ثقافتی میدان میں کام کریں۔ لیکن 2011ء کے عرب بہار نے اس آمرانہ دور کا خاتمہ کر دیا ۔
نوجوان سبزی فروش محمد عزیزی کی خود سوزی نے جس انقلاب کو جنم دیا اس کو تیونس میں “انقلاب یاسمین”کا نام دیا جاتا ہے جس نے بن علی کی حکومت کو جو تاحیات صدارت کا خواب دیکھ رہا تھا اور ملک میں کلی اختیارات کا مالک تھا اپنے اہل خانہ اور ہیرے جواہرات کے خزانے سمیت ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ۔ اقتدار ، دولت ، پولیس ، فوج ، ذاتی ملیشیاء کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔ فرانس کا صدر سر کوزی جس کی غلامی میں وہ ملک و قوم کو داؤ پر لگانے کو تیار تھا بھی اس کی مدد نہ کر سکا اور آمریت کا قلعہ زمین بوس ہو گیا اور ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔
اس نئے دور کے آغاز میں حزب النہضہ کا بھی بھر پور کردار تھا ۔ شیخ راشد الغنوشی نے برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انہیں عمر قید کی سزادی گئی جس کی گرفت سے نکل کر انہیں جلاوطنی کی زندگی ا ختیار کرنا پڑی اور وہ برطانیہ میں مقیم رہے جب تیونس میں جمہوریت بحال ہوئی اور عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت قائم ہونے کا وقت آیا توالنہضہ نے تیونس کے ایک کروڑ عوام کو حوصلہ اور قیادت فراہم کی ۔ بن علی کے دور حکومت نے ملک کو حقیقی معنوں میں پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا ۔ سیاسی قیادت پس منظر میں تھی ۔ فوج نے پسپائی اختیار کر کے بیرکو تک محدود کر لیا ۔ اس لیے جب 2011میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوا تو النہضہ واحد پارٹی تھی جس کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود تھا ۔ اس کے ارکان میدان عمل میں موجود تھے چنانچہ ان کو کامیابی نصیب ہوئی ۔ لیکن یہ ایک نازک موقع تھا اور اس کی قیادت کا امتحان تھا ۔
حزب النہضہ کی قیادت نے راشد الغنوشی کی ہدایت پر فیصلہ کیا کہ وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود تنہا حکومت نہیں بنائے گی بلکہ دو نظریاتی مخالف جماعتوں کانگریس فار دی پبلک (CPR)اور سوشلسٹ التکتل (Ettakatol)کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی ۔ ۔ اس طرح ایک جمہوری سفر کا آغاز ہو ا جو عرب بہار کے بعد واحد کامیاب مثال ہے جس کا سہرا ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت النہضہ اور اس کے سربراہ راشد الغنوشی کے سر پر سجتا ہے جو سیکولر سیاسی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہوئے ۔ 30جنوری 2011کو شیخ راشد الغنوشی اپنی 20سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آگئے اور براہ راست پارٹی کی باگیں اپنے ہاتھوں میں تھام لیں۔
“النہضہ”کو اقتدار میں آنے کے بعد ایک اور بڑے چلینج کا سامنا کرنا پڑا جب نیا ملکی آئین بنانے کا موقع آیا۔ یہ ایک دشوار اور پیچیدہ عمل تھا ۔ متفقہ دستور سازی کا عمل ایک مشکل عمل ہے ۔ آئین سازی کے عمل میں 6ماہ بعد جب “النہضہ”نے دستور کا ایک ابتدائی مسودہ جاری کیا تو اس کے خلاف ملک بھرمیں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ کہ وہ شریعت نافذ کرنا چاہتی ہے اور اس طرح جمہوریت کے راستے سے اقتدار پر مستقل قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ پارٹی کے ایک رہنما نے بھی “خلافت”قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس طرح النہضہ کے اندر بھی ایک بحث چھڑ گئی کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ تیونس میں ایک طویل آمرانہ اور سیکولر دور کے گزرنے کے بعد بھی اس کے اثرات عوام پر موجود ہیں اور وہ “سیاسی اسلام”کی تعبیر میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں مباحثوں نے مزید انتشار کو جنم لیا ۔ دوسری طرف ملک میں قدامت پسند سلفی گروہ بھی موجود ہیں جو کھلا تشدد کا پر چار کرتے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ یہ ایک نازک وقت تھ ا۔ قوم کو ایک متفقہ دستور چاہیے تھا۔ شرپسند عناصر ملک میں ایک بار پھر انتشار بر پا کرناچاہتے تھے ۔ مصر اور دیگر عرب ممالک جہاں سابقہ آمرانہ حکومتیں ختم ہوچکی تھیں وہ خود بھی گرداب کا شکار تھیں اور باہمی فساد اور عدم استحکام نظر آرہا تھا۔ اس موقع پر ایک بار پھر شیخ راشد غنوشی نے کمال فراست کا مظاہر کرتے ہوئے تمام پارلیمانی اور سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے اتفاق رائے سے ملکی آئین بنانے کی راہ ہموار کی اور خود اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو ہمنوا بنا کر دستوری دفعات کو حتمی شکل دی گئی۔
خود راشد الغنوشی کے الفاظ ہیں :۔
“تیونس کا نیا آئین النہضہ کے ارکان پارلیمنٹ ہی نے بنایا ۔ جس کی توثیق 2014میں کی گئی ۔ یہ آئین جمہوریت ، سیاسی و مذہبی آزادی کی حفاظت کرتاہے ۔ نئے آئین کے مطابق تیونس کے باشندوں کو عبادت کرنے ، اپنے ایمان اور عقائد کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی اور عرب مسلم تشخص کو اہمیت حاصل ہے “۔ اس طرح النہضہ نے مصالحت اور مفاہمت کو پروان چڑھایا اور صدارت و پارلیمانی نظا م کی حمایت کی حالانکہ انہضہ نے پہلے خالصتاً پارلیمانی نظام کا مطالبہ کیا تھا۔ آئین تو منظور ہو گیا لیکن اس کے بعد النہضہ کی حکومت کو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک نئے چلینج کا سامنا کرنا پڑا جب کئی سیکولر شخصیات پر حملے کئے گئے اور بعض سیاسی قتل بھی ہوئے ۔ جس میں بائیں بازوکے معرب سیاستدان محمد ابراہیمی بھی شامل ہے ۔ اس موقع پر مخالف ارکان اسمبلی نے ان واقعات پر النہضہ کو الزام تراشی کا نشانہ بناتے ہوئے آئین سازی پر ہونے والے مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا ۔ اسی دوران مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اخوان المسلمین کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا جس کے اثرات تیونس پر بھی محسوس ہونے لگے ۔ النہضہ نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حکومت چھوڑ دی اور ایک غیر جانبدار ٹیکنو کریٹ حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کی حکومت کے دوران آئین ساز کمیٹی اور قانون ساز اسمبلی نے اپنا کام مکمل کر لیا اور دستور متفقہ طو پر منظور ہو گیا۔ جب 2014میں دوسرے عام انتخابات منعقد ہوئے تو النہضہ کو شکست کی صورت میں ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے بخوشی 2012میں بننے والی جماعت “نداتیونس” کی فتح کو تسلیم کر لیا اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ۔ لیکن چونکہ ندا پارٹی بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی اس لیے اس نہ النہضہ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور اس طرح ایک بار پر ملک میں جمہوری سفر کا آغاز ہو گیا۔ 2015کے دوران ندا تیونس کے اندرونی اختلافات نے سنگینی اختیار کر لی اور 88سالہ پارٹی سربراہ کی جانشینی کے مسئلہ پر کئی پارٹی ارکان نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا اور النہضہ کو ایک بار پھر پارلیمان میں اکثریت حاصل ہو گئی ۔
اس دوران صدارتی انتخابات میں النہضہ نے حصہ نہیں لیا جس میں ایک بزرگ رہنما 88سالہ بانی قائد السیسی کامیاب ہو نگے۔ ندا تیونس سے 87میں سے 32ارکان کے استعفیٰ نے النہضہ کو ایک بار پھر پارلیمنٹ میں بڑی پارٹی بنادیا لیکن اس نے حکومت سنبھالنے سے گریز کیا اور اس کی 2013میں ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دی جس سے ملک میں بنیادی سیاسی نظام کی تشکیل کی توقعات ہیں۔ اس دوران راشد غنوشی کی قیادت نے النہضہ کو ایک نیا آہنگ بھی دیا ۔ وہ اپنے آپ کو مسلم ڈیموکریٹ کہتے ہیں اور اخوان المسلموں سے اپنا تعلق جوڑنے کی بجائے کی بجائے ایک تیونسی جمہوری سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اپنے آپ کو متعارف کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں لبر ل اور سیکولر عناصر کے زوال کے بعد ملک میں اسلامی رجحان پایا جاتا ہے تو آئندہ مزید مضبوط اور بااثر ہو گا۔ لیکن النہضہ اپنے آپ کو ملک کی مستقل بر سر اقتدار پارٹی بنانے کی بجائے ایک کثیر الجماعتی جمہوری نظام کا حصہ بنانا چاہتی ہے جس میں ہر ایک کو اپنی کار کردگی کی بنیاد پر ووٹ ملیں ۔