کراچی میں رینجز اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے دہشت گردوں کے انکشافات پر اہل کراچی حیران ہیں کہ ہم کن لوگوں کے ہا تھوں یرغما ل تھے۔ ایک انکشاف ہمارے دوست نے بھی کیا۔ تقریباً دس بارہ سال پہلے کی بات ہے میرے دوست نے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنایا کہ میں آفس سے گھر پہنچا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے دو افراد کھڑے نظر آئے جن میں سے ایک کی عمر ساٹھ اور دو سرے کی عمر پینتیس سال کے قریب ہوگی۔ مجھے دیکھ کر بڑی عمر کے فرد نے پہلے تو پان کی پیک ہماری دیوار پر ماری اور بولے ’’کیا آپ نے بھارت کے ویزے کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔؟‘‘
میں نے حیرانی سے ان سے پوچھا ’’آپ لوگ کون ہیں۔۔۔؟‘‘ مگر ان کی جانب سے پھر وہی سوال دہرایا گیا کہ ’’کیا آپ نے بھارت جا نے کے لیے ویزے کی درخواست دی ہے۔‘‘
میں نے کہا ہاں دی ہے اور ساتھ ہی اپنا سوال دہرایا کہ ’’آپ لوگ کون ہیں؟ کیا آپ کا تعلق بھارتی قونصلیٹ سے ہے؟‘‘
جس پر صرف اتنا کہا گیا کہ ’’یہی سمجھ لیں۔۔۔‘‘ دونوں افراد میرے بارے میں مکمل معلومات رکھتے تھے اور میری فیملی سے متعلق سوالات کر کے چلے گئے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اُن دونوں افراد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔
ایم کیو ایم سے متعلق روز ہی نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔۔۔ نہ جانے کتنے لوگ اس تنظیم کی ملک دشمن سرگرمیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دشمن ملک کو اپنے مقاصد کے لیے مفت میں کام کر نے والے میسر آگئے اسی لیے جماعت اسلامی ان کو ’’را‘‘ کا مقا می ایجنٹ کہتی ہے۔ نہ جا نے ان ایجنٹوں نے کتنے معصوم لوگوں کو بلیک میل کیا ہوگا اور کتنے بے گناہ پکڑے گئے ہوں گے۔
ایک خبر پڑھی کہ مقبوضہ کشمیر کی جیل میں پاکستانی خاتون روبینہ‘ جن کا تعلق حیدرآباد (سندھ) سے ہے اور کرا چی میں بھی خاتون کے رشتے دار رہتے ہیں‘ علاج کی غرض سے بھارت گئی تھیں‘ گزشتہ چار سال سے اپنی کم سن بیٹی کے ساتھ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے جس پر وزارت داخلہ نے نو ٹس لے لیا ہے۔
ہمارے حکمران جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تب نوٹس لیتے ہیں۔ کیا چار سال میں روبینہ کے گھر والوں نے کسی سے را بطہ نہیں کیا ہوگا؟ اگر روبینہ پاکستانی ہیں تو یقیناًرابطہ کیا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ روبینہ کا شوہر کہاں ہے؟ کیا وہ اکیلے ہی بھارت گئی تھیں؟ اگر کوئی ساتھ تھا تو وہ اب کہاں ہے؟ اگر پاکستان میں ہے تو یہ کیس اب کیونکر سامنے آیا؟ کیا وا قعات ہو ئے تھے اور اب تک سب خاموش کیوں تھے؟ اگر روبینہ کے گھر والوں کی طرف سے رابطہ کیا گیا تھا تو کیوں شنوائی نہیں ہوئی۔ اب یہ کیس میڈیا کے ذریعے کیوں حکومت تک پہنچا اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونی چا ہیے کہ کس کی کوتاہی اور لاپروائی کی وجہ سے اتنے سال لگ گئے یا کسی مفا ہمتی پا لیسی کی وجہ سے اس کیس کو دبا دیا گیا کہ کہیں بھارتی سرکار اور ہمارے بھائی لوگ ناراض نہ ہوجائیں۔
ڈاکٹر عا فیہ کا معاملہ بھی اسی سستی اور لاپروائی کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں بلکہ اب تک سفارتی سطح پر کی جانے والی تمام کوششیں محض فوٹو سیشن ہی ثابت ہوئی ہیں اسی لیے لاپتا افراد کے معاملے پر حکومتی لاپروائی سب کے سامنے ہے۔
بھارت ہمارے شہریوں کو قید کر دیتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور اِدھر ہمارے پاس بھارت کو ’’پسندیدہ ملک‘‘ قرار دینے اور ’’دوستانہ تعلقات‘‘ کی اس قدر جلدی ہے کہ بھارتی مچھیروں سے لے کر بھارتی جاسوس تک ’’جذبۂ خیر سگالی‘‘ کے تحت رہا کر دیے جا تے ہیں اور ہمارے وزیراعظم بلوچستان سے پکڑے جا نے والے را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے اب تک خاموش ہیں لیکن بھارت نے ہمیشہ اس جذبۂ خیر سگالی اور دو ستی کا جواب خطے کے تھانیدار کی طرح ہی دیا ہے۔ جس طرح عوام نے ہمیشہ ووٹ اور نوٹ ایم کیو ایم کو دیے مگر پھر بھی کرا چی کے عوام کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا بلکہ مزید ڈر اور خوف ہی اس شہر کے حصے میں آیا۔ ایم کیو ایم کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بھارت سے دہشت گردی کی تربیت لی ہے۔ اسی طرز پر کراچی کے عوام کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا۔ جو ان کو جتنا پسند کرتا اُس کو اتنا ہی نقصان پہنچایا جاتا۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ ایک گرفتار ٹارگٹ کلر نے اپنے بیان میں یہ انکشاف کیا کہ جب کوئی اپنا گھر بیچنا چاہتا تو ہم گھر بیچنے والے کو دھونس دھمکی اور بندوق کی نوک پر مجبور کرکے سستے داموں گھر خرید لیتے اور بعد میں مہنگے داموں فروخت کرتے۔ اس طرح لاکھوں روپے ہمیں مل جاتے۔ خطے کے تھانیدار بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت نے سب سے پہلے پاکستان کے تجارتی مراکز پر اپنے ایجنٹ بٹھائے جنھوں نے کراچی سمیت پورے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا اور لوگ اپنے ہی وطن اور شہر سے ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
مفت میں مکان اور رہائش اور وہ بھی مقبوضہ کشمیر میں مل جائے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن بھارتی سرکار ہزاروں ہندوؤں کو مقبوضہ وادی میں لا کر بسا رہی ہے تاکہ مقبوضہ وادی میں مسلم آبادی کے تناسب کو کم کیا جائے۔ یہ منصوبہ شاید بھارت نے اس لیے بنایا ہے کہ اگر مستقبل میں کشمیر کا تنازع استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کی بات گئی تو کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک پرانا تنازع ہے جس کا حل اقوام متحدہ کے پاس ہے لیکن 70 سال گزرنے کے بعد بھی اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرانے میں ناکام ہے۔ جب کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پُر اُمید ہیں‘ اُن کے بیانات اور دل چسپی اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس سال یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اس لیے بھارت پہلے سے تیاری کر رہا ہے تاکہ جو بھی حل ہو‘ اقوام متحدہ کے ذریعے ہو اور دنیا اس دھاندلی پر خاموش رہے۔ اقوام متحدہ میں اپنے اثر ورسوخ کے ذریعے بھارت پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانے کے لیے بار بار درخواست دے رہا ہے لیکن اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو مؤثر نہیں بنایا تو بھارت ایک دن اپنے اس مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی بھارت نوازی اور کمزور خارجہ پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ مودی سرکار سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی بند کر نے کی دھمکی دے رہی ہے‘ جس طرح مو دی سرکار دھمکی آمیز بیانات دے رہی ہے اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ ایسا کر بھی دے گا تو پھر بھی ہمارے پاس خاموشی ہی رہے گی دریاوں کا پانی پاکستان کی طرف نہیں آتا ہے تو اس بات کا اندازہ سب کو ہے کہ پھر کیا ہوگا ۔۔۔؟ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن اگر پانی میسر نہیں ہوگا تو دریا سوکھ جا ئیں گے‘ زراعت ختم ہو جائے گی بلکہ پاکستان صحرائے تھر کا منظر پیش کر رہا ہوگا۔
پاکستان کے حصے کا پانی بند ہو نے کے بعد دو نوں مما لک کے در میان جنگ ہوسکتی ہے اور لگتا یہی ہے کہ عالمی طاقتیں بھی پاکستان کی ایٹمی قوت کو ختم کرنے کے لیے بھارت کو شہ دے رہی ہیں کیونکہ عالمِ کفر کو کسی طور بھی ایک اسلامی ملک کا ایٹمی قوت رہنا برداشت نہیں۔ پاکستان کی کسی بھی لحاظ سے کمزور پوزیشن خود پاکستان اور اس خطے کے لیے بہتر نہیں ہے۔۔۔ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں‘ یہ بات تو ہمارے حکمران جانتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے مفاد کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکمران بھی اسی مفاہمت کی پالیسی کے تحت بھارت سے تجارتی لین دین بڑھانے میں مصروف ہیں اور ان کی طرف سے بھارت کو جواب نہیں دیا گیا ہے جس سے بھارت کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ اگر پانی بند کرنے کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو آنے والا وقت پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کو بنجر بناسکتی ہے نہ صرف پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی ہوگی بلکہ پوری معیشت تباہ ہو جائے گی۔ بھارتی دھمکیوں کا جواب دیا جائے بلکہ پوری قوم کو اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا ئے کیو نکہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ اگر خدانخواستہ بھارت دھمکی سے آگے بڑھ کر اس پر عملدرآمد کردیتا ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ کیا اس وقت بھی ہم اقوام متحدہ کا رُخ کریں گے یا خود اس مسئلے کابھرپور جواب دیں گے؟
پانی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور کئی دانش ور یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’دنیا میں آئندہ پانی ہی کے مسئلے پر جنگیں ہوں گی‘‘ اور تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب دنیا نے ترقی کا سفر شروع نہیں کیا تھا اُس وقت بھی پانی کے معاملے پر ہی جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ ما ضی میں کیوں جائیں جو لوگ زراعت سے وا بستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ پانی کی چوری پر گاؤں میں لڑائی جھگڑے ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات جانیں بھی چلی جاتی ہیں اس لیے آج بھی پانی کے حصول کے لیے کسان راتوں کو جاگ کر اپنے حصے کا پانی حاصل کرتے ہیں اور پانی کی چوری کو روکتے ہیں کیونکہ پانی کے بغیر ان کی محنت بے کار ہے‘ جس طرح کسان اپنی زمین کو سرسبز رکھنے کے لیے دن اور رات جاگ کر سازشی عناصر کے خلاف چوکنا رہتا ہے اسی طرح پاکستان کی سرزمین کو دشمن کے جارحانہ عزائم سے بچانے کے لیے پوری قوم کو جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔
کالا باغ ڈیم بننے کے اعلان پر ملک کی تمام سیاسی جما عتیں اس کے خلاف باہر نکل آتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم ہمارے صوبے کو بنجر کر دے گا۔‘‘ لیکن افسوس مودی کے بیان پر سراج الحق کے علاوہ کسی نے توجہ نہیں دی۔ اپنے صوبے کے حقوق کے لیے جان کی بازی لگانے والے پاکستان کا پانی بند کرنے کی بھارتی دھمکی پر خاموش کیوں ہیں ۔۔۔؟ دیگر سیا سی جما عتوں کی خاموشی کو کیا تصور کیا جائے ایم کیو ایم کی طرح مقامی ایجنٹ یا مفاہمت کی پا لیسی ۔۔۔؟