عارف منصور ’’ابھی کچھ پھول تازہ ہیں‘‘
صاحبِ کتاب مقبول زیدی
شاعری روح کے اندر سے پھوٹنے والا وہ سرمدی نغمہ ہے، جس کی لطافت اور خیال آفرینی انسان کی ابتدا سے آج تک نہ صرف جمالیاتی تسکین کا باعث بنتی ہے بلکہ انسان کے اندر موجود ان احساسات اور جذبات کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے جس سے وہ اپنے معمولات کے ہاتھوں مشین نہیں بننے پاتا، اسی لیے تو روایات کے سہارے ہم پہلے شاعر کو تلاش کرنے بیٹھیں تو حضرت آدمؑ تک جا پہنچتے ہیں کہ جنہوں نے قابل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل پر مرثیہ کہا۔ گو کہ اس روایت میں بہت سے سقم ہیں پھر بھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاعری جیسی نعمتِ خداوندی کسی طرح بھی عطیے سے کم نہیں ہے اور چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر تھے اس لیے ہم انہیں شاعر نہیں کہہ سکتے۔ لیکن بہرحال آدم خاکی کی نسل نی اس عظمت کو روایت کے طور پر سہی ان سے وابستہ تو کر ہی دیا ہے۔ مغربی روایات کے مطابق ہومر پہلا شاعر ٹھہرتا ہے۔ بہرحال، اتنی وسیع دنیا میں اس ہونی کے کئی اشاریے ہیں۔ ہمیں صرف ایک بات پر دھیان دینا ہے کہ شاعری ایسا وصف ہے، جو شاعر کو تمام انسانوں کی صف سے یقیناً بہتر مقام عطا کرتا ہے۔ ہر زبان میں ہزاروں لاکھوں طبع موزوں رکھنے والے افراد کی موجودگی بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قول سچ ہے، جس میں شاعری کو پیغمبر کا جزو کہا گیا ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں ہزاروں، لاکھوں لوگ بطور شاعر شہرت نہیں پاسکے، ہاں ان میں سے بہت تھوڑی تعداد میں لوگ بامِ عروج کی طرف بڑھے اور زندہ جاوید ہوگئے اور طبع موزوں رکھنے والوں کی تعداد کثیر امتدادِ زمانہ کی نذر ہوگئی۔ گویا ہمارے عہد کے بہت اہم شاعر محشر بدایونی کے بقول:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا
وہی دیے تند ہواؤں میں بھی روشن رہتے ہیں، جن میں جان ہوتی ہے اور جان کا مطلب ہے ریاضت۔ چاہے وہ فنی ریاضت ہو یا معنوی و جسمانی اور روحانی عبادت، شاعری کے لیے اس کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
مقبولؔ زیدی کا تعلق اس علمی خانوادے سے ہے، جو سہارن پور سے ہجرتِ اوّل کے ذریعے قیام پاکستان کے بعد خیرپور سندھ میں آخر آباد ہوا۔ اس گھرانے کے بش تر افراد کا تعلق علم و تعلم سے ہے۔ پھر مرثیہ، سلام، منقبت وغیرہ تو سادات کی گھٹی میں پڑی ہیں۔ سو، مقبولؔ زیدی نے آنکھ کھولی تو اپنے اردگرد کی فضا میں کلامِ موزوں کی گونج سنائی دی۔ ذرا سا ہوش سنبھالا تو ہر طرف مجالس میں بھرپور شاعری مزاج کا حصہ بننے لگی، طبع موزوں تو اللہ کی طرف سے ودیعت تھی، ماحول اس میں سونے پر سہاگے کا کام کرنے لگا۔ چوں کہ ہمارے ہاں تعلیم، نوکری وغیرہ معاشی مجبوری بھی ہیں، سو پہلے تو بڑوں نے شاعری کو مقبولؔ سے دور رکھنے کی کوشش کی کہ پہلے یہ عملی زندگی میں اپنی جگہ بنالیں پھر یہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ یوں، مقبولؔ زیدی زندگی کی دوڑ میں شامل ہوتے چلے گئے اور بالآخر انہوں نے اپنا مستقبل ائیرپورٹ سیکورٹی فورس سے وابستہ کرلیااور تاحال اس میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ استقامت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
مقبولؔ شروع سے کچھ نہ کچھ زبانِ شعر میں کہنے کے لیے کوشاں رہے۔ بس ایک جھجک تھی، جو شاید اپنے بزرگوں کے ابتدائی رویّے کے سبب تھی۔ سو، اعتماد کی کمی تھی، پھر قدرت نے ہمیں ایک ساتھ کردیا۔ اسے تھوڑی سی حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی اور اس حوصلہ افزائی کے لیے قدرت نے مجھے توفیق دی اور یوں مقبولؔ زیدی کے قدم مسلسل ریاضت کے مختلف مراحل طے کرنے لگے اور پھر بہت جلد ہی کراچی کے شعری حلقوں میں مقبولؔ زیدی کی محنت اور ریاضت کا اعتراف کھلے لفظوں میں کیا جانے لگا۔
مقبولؔ زیدی صحیح معنوں میں ارتقا کا مسافر ہے، اس کی شاعری پر اس کے مطالعے اور عرق ریزیوں نے بہت اثر ڈالا ہے۔ حافظہ بھی اچھا ہے، اس لیے میر انیس اور جوش کے سیکڑوں اشعار یاد ہیں اور خوب صورت آہنگ سے انہیں دہرانے کی صلاحیت مقبولؔ کے مزاج کا حصہ ہے، اس آہنگ اور اچھی شاعری سے مستقل وابستگی نے خود اس کی اپنی شاعری میں بہت اہم کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ یوں وہ شاعری کے بنیادی تقاضوں سے بہت قریب ہو کر نہ صرف انہیں استعمال کر رہا ہے بلکہ روز بہ روز اپنی شاعری میں نکھار لانے کے عمل میں مصروف ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آہستہ آہستہ اس کے اندر بیٹھا ہوا شاعر اپنی جلوہ گری میں طاق ہوتا جارہا ہے اور اب تو اس نے سلام گزار ادبی فورم کے ذریعے اپنے دینی اور مذہبی رجحانات کو بھی ایک مزین راستے پر لگا دیا ہے، جس سے اس کے قدم عروج کے راستوں پر گامزن ہیں۔
شاعری میں اس کے نزدیک ’’لفظ‘‘ کی بہت اہمیت ہے۔ وہ جس لفظ کے پیچھے پڑ جاتا ہے، جی ہاں میں نے جان بوجھ کر یہ محاورہ استعمال کیا ہے، کیوں کہ یہ اس کے اندر اندازِ جستجو کے لیے موزوں ترین لگتا ہے۔ وہ اس لفظ کے معنوی، اصطلاحی اور نفسیاتی حقائق سے مکمل آگہی تک اپنے تلاش کے عمل کو جاری رکھتا ہے اور پھر اس لفظ کو ان تمام حقائق کی روشنی میں موزوں ترین طریقے سے استعمال کرنا سیکھ گیا ہے۔ اس کے سلام کے دو اشعار دیکھیے:
فخر کرتے ہیں کہ ہیں ضیغم حیدرؑ کے شکار
تیغِ عباسؑ ترے مارے ہوئے لوگ
جا بجا تیغِ تبسم ترے حملوں کے نشاں
کو بہ کو گریہ کناں طفل سے ہارے ہوئے لوگ
مندرجہ بالا اشعار میں ضیغمِ حیدرؑ ، تیغِ تبسم اور گریہ کناں ایسی تراکیب ہیں، جو الفاظ سے گہری شناسائی کے بغیر اتنے موزوں انداز میں نظم نہیں کی جاسکتیں۔
غزل ہماری مشرقی شاعری خاص طور پر اُردو شاعری کی جان ہے۔ مقبول ترین صنف ہے، اس لیے مقبولؔ زیدی پر بھی حاوی ہے۔ اس نے غزل میں بہت اچھی اور مختلف زمینوں میں فنی ریاضت کی منہ بولتی تصویریں کھینچی ہیں۔ ذیل میں چند مختلف اشعار اپنی بات کی دلیل میں پیش کرنا چاہوں گا:
جگہ جگہ پہ ہے ملبہ ادھوری چاہت کا
اور ایک ہجر کا مزدور اس گلی میں ہے
*
اس کے گھر کی سمت جانا کارِ اُلفت تو نہیں
وحشتِ دل اور بھی کچھ کام ہے اطراف میں
وحدتِ اُلفت پہ قائم ہوں تو پھر کیا دیکھنا
کتنے دروازے دریچے بام ہیں اطراف میں
*
جو دیکھیے تو فقط جسم کے نشیب و فراز
جو سوچیے تو کوئی خاک دان رقص میں ہے
فسوں طراز ہیں اعضا کی شاعری کے رموز
سو اہلِ بزم کا سارا دھیان رقص میں ہے
*
اُسے گرنا ہی تھا اک دن مری بے خواب آنکھوں سے
وہ چکنا چُور سا اک خواب جو بستر پہ رکھا ہے
تمہارے بعد بھی جس کو کہا جاتا ہے گھر اب تک
مری حسرت کا ملبہ ہے جو بام و در پہ رکھا ہے
زیر نظر مجموعے کا مطالعہ کرتے چلے جائیں، بے شمار خوب صورت تراکیب سے سجے اشعار آپ کے سامنے آتے چلے جائیں گے اور آپ خود چاہنے لگیں گے کہ ہر شعر کو ایک بار نہیں بلکہ کئی بار پڑھا جائے، یوں یہ اشعار آپ کو یاد کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ادھر شعر آپ کو یاد ہوا اور ادھر شعر کا سفر شروع ہوگیا۔ یوں آپ کو بہت سے خوب صورت اشعار نہ صرف یاد رہیں گے بلکہ لوگ آپ کے اچھے شعری ذوق کے بھی قائل ٹھہریں گے۔
مقبولؔ زیدی کے اشعار میں سادگی اور تازگی کا احساس آپ کے دامنِ دل کو تھامنے کی خوب صلاحیت رکھتا ہے اور آپ زیر نظر کتاب کے مطالعے میں جتنی دیر مصروف رہیں گے، اتنی دیر کئی قصے، کئی کہانیاں، کئی رویّے آپ کے ذہن کے پردوں پر لہروں کی صورت اُبھرتے رہیں گے۔ چند اشعار دیکھیے:
بھلا ہے کوئی تو کوئی بُرا نظر کا ہے
قصور وار فقط زاویہ نظر کا ہے
کتابِ عشق میں عنوان سارے دل کے ہیں
کہیں کہیں پہ مگر حاشیہ نظر کا ہے
*
خود کلامی بھی نہ راس آئی مجھے دیوانگی
ہر سماعت تک پہنچ جاتی ہے سرگوشی مری
روح کے ہر زخم سے آئنہ ٹھہرا بے خبر
منعکس کرتا ہے وہ تو صرف خوش پوشی مری
*
تارِ نفس ضرور کوئی راستہ بھی ہے
زندانِ ذات میں جو میسّر ہوا بھی ہے
رُسوائی میں شریک ہیں خوش فہمیاں بھی کچھ
کچھ میرے گھر میں نصب مرا آئنہ بھی ہے
مقبولؔ نے اپنے مجموعے میں کچھ نظمیں بھی شامل کی ہیں، مگر وہ بس شرکت کے لیے ہیں اور انہی میں ’’ابھی کچھ پھول تازہ ہیں‘‘ بھی ہے۔ میں اپنے اس مضمون کو اس دُعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ یہ پہلا مجموعہ کلام مقبولؔ زیدی کی شناخت کے راستے پر سنگِ میل بنے اور اللہ کرے اس کی سوچ اور ریاضت اور بھی رنگ لائے اور وہ غزل کا رنگ روپ سنوار سکے۔ اپنے ایسے اشعار کے ذریعے:
مہک رہی ہے تری چاہتوں سے میری غزل
میں سب سے چُھپ کے بھلا تجھ سے پیار کیسے کروں