ہمارے مربی اور قائد قاضی حسین احمدؒ پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ چار سال پہلے وہ داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انھوں نے اپنے پیچھے بے شمار عقیدت مند چھوڑے جو پوری دنیا میں ان کی وفات پر غم زدہ تھے۔ قاضی صاحب ایک تاریخ تھے۔ انھوں نے امتِ مسلمہ کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ وہ اسلام کے عالمگیر تصورِ ملت کے داعی اور علَم بردار تھے۔ کشمیر ہو یا افغانستان، فلسطین ہو یا برما، مسلمان ممالک میں ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا غیروں کی چیرہ دستیاں۔۔۔ ہر ایک پر وہ میدان میں اتر آتے تھے۔ ظالم کو للکارنا اور مظلوم کا ساتھ دینا ان کی پہچان تھی۔ ان کے مخالف بھی ان کی اس صفت کے معترف تھے۔ افغانیوں کے ساتھ ان کا تعلق بہت گہرا تھا۔ انھوں نے جہادِ افغانستان میں روس کے مقابلے پر سربکف مجاہدین کی کھل کر مدد کی۔
قاضی صاحب افغانوں کی تاریخ، افتادِ طبع، نسلی و ملّی روایات ہر چیز سے بخوبی واقف تھے، اور پھر روس کے مقابلے پر جہادِ افغانستان میں تو وہ اگلے مورچوں پر جاکر خود، سربکف افغان و دیگر نسلوں کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جنگ میں شریک بھی ہوئے تھے۔ ان کی بات محض علمی تجزیے کی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ عملی طور پر وہ اس کے جملہ رموز و اسرار اور نشیب و فراز کو جانتے تھے۔ اس جہاد کے دوران وہ جب بھی افغانوں کی فتح اور روس کی شکست کا تذکرہ کرتے، پورے ایمان و یقین کے ساتھ کرتے۔ افغانوں کی تعریف سے اقبال کا کلام بھرا پڑا ہے۔ قاضی صاحب اس معاملے میں علامہ کے اشعار اپنی تقاریر و خطابات اور مضامین و مقالات میں یوں پیش کرتے تھے کہ وہ نگینوں کی طرح چمکتے اور پھولوں کی طرح مہکتے تھے:
آسیا یک پیکرِ آب و گلِ است
مِلّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او، فسادِ آسیا
در کشادِ او، کشادِ آسیا!
اسی طرح اردو میں علامہ کی ہر کتابِ شعر و سخن میں بھی جگہ جگہ غیور افغانوں کا ایمان افروز تذکرہ ملتا ہے
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفت سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردئ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا!
2002ء کے انتخابات سے قبل قاضی صاحب کی کاوشوں سے دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ وجود پذیر ہوا جس نے انتخابی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ہم ان تمام امور کی تفصیل کسی اور مضمون میں بیان کریں گے۔ قاضی صاحب کے ساتھ بطور امیر صوبہ بارہ سال اور بطور نائب امیر جماعت چھ سال کام کرنے کا موقع ملا۔ قاضی صاحب سے کئی امور میں اختلاف بھی ہوتا تھا۔ جماعت میں اختلافِ رائے کی روایت موجود ہے اور ہر دور میں ہر امیر کے ساتھ حکمتِ عملی کے معاملات میں رفقا نے اختلافِ رائے کیا ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے کہ اس اختلاف کی وجہ سے قاضی صاحب نے قدرے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ اُن کی ناراضی وقتی ہوتی تھی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ اپنے دل میں گرہ لگالیں کہ فلاں شخص میرا مخالف ہے۔ جو لوگ ہر معاملے اور فیصلے پر قاضی صاحب کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے تھے ان احباب اور ارکانِ جماعت کے خلاف بھی قاضی صاحب نے کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ اپنا معاملہ تو یہ تھا کہ جن باتوں سے اتفاق ہوتا تھا اُن کی کھل کر حمایت، اور جن سے اختلاف ہو، اُن کی مناسب فورم کے اوپر مخالفت میں رائے کا اظہار کیا جاتا تھا۔ جب فیصلہ اس رائے کے برعکس ہوجاتا تو راقم نے ہمیشہ اس فیصلے کو اجتماعی فیصلہ سمجھتے ہوئے خوش دلی سے قبول کیا۔ مجھے دو تین مواقع یاد ہیں کہ جب قاضی صاحب نے مجلس میں سخت ردعمل کا اظہار کیا مگر بعد میں اس پر معذرت بھی کی اور محبت و دل جوئی کے ساتھ تحسین بھی فرمائی۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ ان کی ناراضی بھی لوجہ اللہ ہوتی تھی اور رضا بھی لوجہ اللہ۔ ناراضی کے بعد جب وہ اعتذار کرتے تو بہت پیارے لگتے تھے!!
9۔10 جون 2001ء میں منعقدہ مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک فیصلے میں طے کیا گیا کہ ہر سطح کے امرا دو میقات پوری کرنے کے بعد تیسری میقات کے لیے ذمہ داری پر مقرر نہیں کیے جائیں گے، البتہ امیر جماعت اور صوبائی امرا اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ میں نے اس فیصلے سے قبل یہ رائے دی کہ امرائے صوبہ کو بھی دیگر ذیلی امرا کی طرح استصواب کے ذریعے امیر جماعت مقرر کرتے ہیں، اس لیے ان کی بھی دو میقات کی ذمہ داری کے بعد سبک دوشی ضروری قرار دی جائے۔ ہاں امیر جماعت کا تو انتخاب ارکانِ جماعت کی حتمی رائے کے عین مطابق ہوتا ہے، اس لیے اس میں دستوری لحاظ سے ردو بدل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا استثنا صرف امیر جماعت کو ہونا چاہیے۔ راقم اُس وقت پنجاب کا صوبائی امیر تھا۔ میری رائے کے برعکس چونکہ قرارداد منظور ہوچکی تھی، اس لیے میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ تاہم جماعتی دستور کے مطابق اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مجلسِ عاملہ اور مجلسِ شوریٰ کے اگلے اجلاسوں میں پھر یہ مسئلہ پیش کیا۔ قصہ مختصر، اجلاس مرکزی مجلس شوریٰ منعقدہ 7تا 9 جنوری 2002ء میں بحث و دلائل کے بعد میری یہ تجویز منظور ہوگئی۔ اب اگلے صوبائی استصواب میں مولانا عبدالحق صاحب (امیر صوبہ بلوچستان)، پروفیسر محمد ابراہیم صاحب (امیر صوبہ سرحد)، اسد اللہ بھٹو صاحب (امیر صوبہ سندھ) اور راقم الحروف (امیر صوبہ پنجاب) اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔ قاضی صاحب نے مجلس شوریٰ میں فرمایا کہ چاروں سابق امرائے صوبہ کو مرکز میں نائب امیر جماعت کے طور پر شامل کرلیا جائے۔ میں نے اصولی طور پر اس رائے کی مخالفت کی۔ میرا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ضرورت کے تحت کسی ساتھی کا تقرر بطور نائب امیر کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ روایت کہ جو لوگ امارتِ صوبہ سے فارغ ہوئے ہیں، انھیں یہ ذمہ داری سونپی جائے، درست نہیں ہے۔
محترم قاضی صاحب نے باقی تین حضرات کا تقرر فرما دیا اور مجھ سے [ایک مجلس میں بھی] اور انفرادی طور پر بھی پیار بھرا شکوہ کیا کہ میں نے ان کے ساتھ ان کی ٹیم میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے عرض کیا ’’حاشاو کلّا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں کہ میں آپ کی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ آپ کے نائب قیم کے طور پر کئی سال پوری دلجمعی کے ساتھ کام کیا۔ پھر بارہ سال بطور امیر صوبہ بھی آپ کی زیر قیادت اپنی صلاحیت و اوقات کے مطابق مسلسل کام کیا۔ میں کیسے آپ کی قیادت پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرسکتا ہوں؟ آپ میرے قائد ہیں اور بطورِ امیر جماعت میں آپ کے حکم فی المعروف کا مکمل پابند ہوں۔ میں نے تو ایک اصولی بات کی تھی مگر آپ نے مشاورت سے اس کے خلاف فیصلہ فرما دیا۔ میں اپنی اس رائے کے باوجود آپ کے فیصلے کا دل و جان سے احترام کرتا ہوں۔‘‘
فرمانے لگے ’’آپ احترام کرتے ہیں تو نائب امیر کی ذمہ داری سے کیوں بھاگتے ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا ’’بھاگ کے کہاں جانا ہے، جینا اور مرنا ان شاء اللہ اسی قافلے کے ساتھ ہے‘‘۔
فرمایا ’’تو ٹھیک ہے، تمھارا تقرر بھی میں نے کردیا ہے، حلف اٹھاؤ اور کام کرو۔‘‘
میں نے سر تسلیم خم کردیا۔
مجالس کی گفتگو اور بحث کے علاوہ دو تین اور امور پر بھی قاضی صاحب کو مجھ سے اور مجھے اُن سے اختلاف ہوتا تھا، مگر اپنے اختلاف کے اظہار کے باوجود ہماری باہمی عقیدت و محبت اور احترام میں کبھی ذرہ برابر بھی رخنہ نہ پیدا ہوا۔ میرے کسی فقہی عمل پر انھوں نے مجھے کبھی برا بھلا نہیں کہا، البتہ ان معاملات میں وہ اپنی رائے پر اصرار ضرور کرتے تھے۔ بطور چیئرمین شہدائے اسلام فاؤنڈیشن، میں ان شہدا کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا کرتا تھا جن کے جسدِ خاکی افغانستان میں یا وادئ کشمیر میں شہادت کے بعد وہیں دفن کردیے جاتے تھے۔ محترم قاضی صاحب غائبانہ نمازِ جنازہ کے حق میں نہیں تھے، اور وہی کیا تمام حنفی علما اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ رائے دی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنے کا عمل ثابت ہے تو میرے نزدیک فقہا کی رائے کے مقابلے میں وہ زیادہ ارجح واولیٰ ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کے بعد کبھی اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔
مرحوم کی وسعتِ قلبی کا اس سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں چند مواقع پر خود قاضی صاحب نے غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت فرمائی، اور اللہ نے اُن کی رحلت کے بعد پانچ براعظموں میں اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا بھی اہتمام فرمایا۔ اللہ یہ سب دعائیں اپنے مجاہد بندے کے حق میں قبول و منظور فرمائے اور ان کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں۔