یہ تحریکِ خلافت ہی تھی، جس کی بدولت ہندوستان میں جذبۂ آزادی بیدار ہوا۔ تحریکِ خلافت کے بطن سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک پیدا ہوئی۔ آزادی کی ان تحریکوں میں سے ایک تحریک ’ریشمی رومال‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ریشمی رومال تحریک ہو یا ہندوستان سے افغانستان کی جانب ہجرت اور دیگر سیاسی و جہادی تحریکیں۔۔۔ سب تحریکِ خلافت ہی کی مرہونِ منت ہیں۔
بنیادی بات جو ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ریشمی رومال تحریک الگ سے کوئی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ خالصتاً ایک سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی وہی مہم تھی جس کی ابتدا شیخ الہند مولانا محمود حسن (دیوبند) کرچکے تھے۔ داغستان میں مجاہدین کو مالی مدد دینے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کے تازہ دم دستے پہنچانے کی ذمے داری بھی انتہائی رازداری کے ساتھ نبھائی جارہی تھی۔
مائیکل فرانسس اوڈوائر انگریز سرکار کی جانب سے اُن دنوں پنجاب کا گورنر تعینات تھا۔ مائیکل فرانسس اوڈوائر کے دور میں (خفیہ محکمہ) سی آئی ڈی کے عہدیدار مسٹر وی وی دایان نے ایک رپورٹ مرتب کی، جس میں اس جدوجہد کو ریشمی رومال (سلک لیٹرز) کے نار سے متعارف کروایا گیا۔ وہ لکھتا ہے:
’’زیر نظر جو معاملہ ہمارے سامنے ہے، اسے ہم اپنی آسانی کے لیے ریشمی خطوط کا کیس اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس بارے میں ہمیں گہری اور مکمل آگاہی اگست 1916ء میں ریشمی کپڑے پر لکھے ہوئے تین خطوط کے پکڑے جانے سے ملی، یہ خطوط کابل میں موجود سازشیوں نے حجاز میں موجود سازشیوں کو بھیجنے کے لیے دستی طور پر (یہ خط کوٹ کی اندرونی سطح پر چھپا کر سلوائے تھے) روانہ کیے تھے۔۔۔‘‘
اس کی رپورٹ کے مطابق: ’’ہمیں اگست1916ء میں پہلی مرتبہ ریشمی خطوط سازش کا علم ہوا اور حکومت کو اس سازش کے محرکات کا اندازہ ہوا، یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا جو ہندوستان کی آزادی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق ایک طرف شمال مغربی سرحدات پر افراتفری پھیلا کر مسلمانوں کی موجودہ شورش کی مدد سے اس کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ برطانوی راج کو ختم کرنا مقصود تھا۔ اس منصوبے کو مستحکم اور قابل عمل بنانے کے لیے مولوی عبیداللہ نامی ایک شخص نے اپنے تین ساتھیوں عبداللہ، فتح محمد اور محمد علی کے ساتھ اگست 1910ء میں شمال مغربی سرحدوں کو پار کیا۔ اس شخص (مولانا عبیداللہ) اور اس کے دوسرے دوستوں (شیخ الہند) کا اہم مقصد یہ تھا کہ بیک وقت ہندوستان پر باہر سے (بیرونِ ہندوستان) حملہ کرایا جائے اور ہندوستانی مسلمانوں میں بغاوت بھی پھیلائی جائے‘‘۔
رپورٹ میں مولانا عبیداللہ سندھی کو بغاوت اور سازش کا سرغنہ گردانتے ہوئے اس طرح لکھا گیا کہ عبیداللہ نے دلی (ہندوستان) میں ’’نظارۃ المعارف قرآنیہ‘‘ نامی عربی تعلیم کا ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ ہماری تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ اس مدرسے کے قیام کا مقصد اس کو اتحادِ اسلامی کی سازش کا ہیڈکوارٹر بنانا تھا۔
قارئین کی معلومات کے لیے مناسب ہوگا کہ ہم مولانا عبیداللہ سندھی کے کابل پہنچنے کے واقعے کو بھی پڑھ لیں۔ مولانا سندھی اپنے کابل پہنچنے کے واقعات کی تفصیل میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’کابل جاکر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الہند (محمود الحسن) جس جماعت کے نمائندہ تھے، اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیر منظم شکل میں حکم کی تعمیل کے لیے تیار تھا۔ اب مجھے اس ہجرت اور شیخ الہند کے اس انتخاب پر فخر محسوس ہونے لگا‘‘۔
مائیکل اوڈوائر نے اپنی یادداشتوں میں اس کا ذکر اس طرح سے کیا:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سازش کا علم ہمیں اگست 1916ء میں ہوگیا تھا اور ہم اسے ابتدا ہی میں ختم کردینے کی پوزیشن میں تھے۔ ہماری تحقیق اور اطلاعات کے مطابق کابل میں اوائل 1915ء میں اس سازش کی بنیاد ڈالی جا چکی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ عثمانی (ترک) اور عرب قبائل شریفِ مکہ کی قیادت میں ایک محاذ بنالیں۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان، سرحدی قبائل اور افغان متحد ہوجائیں۔ اس طرح تمام مسلمان انگریز سرکار کے خلاف ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آجائیں گے۔ اور پھر ہندوستانی جنونیوں کو ورغلا کر اور سکھوں اور انقلاب پسند ہندوؤں کو ساتھ ملا کر سرکارِ برطانیہ پر حملہ آور ہوجائیں‘‘۔
مائیکل اوڈوائر کے مطابق: ’’سازش کے تانے بانے انتہائی مہارت سے بُنے گئے تھے اور اس میں بہت رازداری سے کام لیا گیا تھا۔ اس سازش کو وسطی ایشیا، ہندوستان، حجاز اور میسو پوٹیمیا کے علاقوں تک پہنچایا گیا۔ سیاسی اور روایتی تمام ہی طریقے بروئے کار لائے گئے۔ سفارتی مشن بھیجے گئے اور متعدد مواقع پر ایلچی روانہ کیے جاتے رہے۔ ان کے مابین مراسلت خفیہ کوڈز میں کی جاتی تھی۔ مجاہدین اور جنونیوں کو مالی امداد سونے اور نقد رقوم کی صورت میں بھی پہنچانے کا معقول انتظام موجود تھا۔ ہمیں اس پراسرار کارروائی کا علم ان خطوط کے پکڑے جانے سے ہوا جو سلک (ریشم کے کپڑے) پر تحریر تھے۔‘‘
حقیقت یہ تھی کہ خلافت تحریک کے ابتدائی مدارج ہی میں مسلمان حوصلہ پکڑ چکے تھے اور ان کی ’خلافت بچاؤ جدوجہد‘ اب مکمل طور پر آزادی کی تحریک کے قالب میں ڈھلتی جارہی تھی۔ آزادی کی جدوجہد اور عالم اسلام کا اتحاد مرکزی نکتہ تھا۔ تحریک ریشمی رومال کا کام ایک طویل المیعاد منصوبہ تھا، (پچھلی قسط میں اس کی تفصیل موجود ہے) جس پر برسوں سے کام ہورہا تھا۔ روس، کابل، ترکی اور ہندوستانی علمائے کرام ہر طرح سے اس پر آمادہ تھے۔ ان تمام قوتوں کو ساتھ رکھے بنا یہ منصوبہ ناقابلِ عمل تھا۔ اس ضمن میں سفارتی محاذ پر کام جاری تھا اور اسے اپنے متعین وقت پر ہی ہونا تھا، مگر بدقسمتی سے بین الاقوامی سیاسی حالات نے اس سارے منصوبے کو نہایت سرعت کے ساتھ عمل میں لانے پر مجبور کردیا۔ مختصر ترین مدت میں جرمن، افغان اور ترکی حکومتوں کا مکمل تعاون حاصل کرکے منصوبے پر عمل درآمد ہونے والا تھا کہ عالمی جنگ میں عثمانیوں (ترکی) کی شکست اور عربوں کی آپس کی بغاوت نے معاملہ بگاڑ دیا۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ریشمی خط سی آئی ڈی (خفیہ پولیس) کے ہتھے لگ گئے۔ تفصیل یہ ہے کہ ملتان کے ایک اعزازی مجسٹریٹ خان بہادر رب نواز خان نے اگست 1916ء میں عبدالحق نامی شخص سے (جو ماضی میں کبھی اس کے بیٹوں اللہ نواز خان اور شاہنواز خان کا اتالیق رہا تھا، اور پھر اس کے بیٹوں کے ساتھ ہجرت کرکے کابل چلا گیا تھا) تین ریشمی خطوط حاصل کیے اور جرح کرنے کے بعد ملتان ڈویژن کے کمشنر کے حوالے کردیے۔ کمشنر نے پہلے ان خطوط کو کوئی اہمیت نہ دی، مگر جب یہ خطوط پنجاب کی خفیہ پولیس کے اہل کار اور خفیہ کوڈز کو ڈی کوڈ کرنے کی مہارت رکھنے والے مسٹر چارلس کولولینڈ ٹومکنس کے حوالے کیے گئے اور عبدالحق قاصد پر جرح کی گئی تو تمام سازش آشکار ہوگئی اور خفیہ اہل کاروں کو سازش (تحریک) کا اندازہ ہوگیا۔
یہ خطوط خوب صورت رسم الخط میں فارسی زبان میں تحریر کیے گئے اور انہیں ریشمی کپڑے کے کوٹ کے استر کے اندر نہایت عمدگی کے ساتھ ٹانک دیا گیا تھا۔ ملزم عبدالحق نے گرفتاری کے خوف سے کوٹ اور خطوط کی بابت لڑکوں کے باپ کو سب کچھ بتادیا۔ مجسٹریٹ خان بہادر رب نواز خان نے ان خطوط کو جو فارسی میں تحریر تھے، مطلب جانے بنا کمشنر کے حوالے کردیا۔
یہ خطوط عبداللہ اور عبیداللہ (سندھی) کی جانب سے تحریر کیے گئے تھے، جو ان مذکورہ افراد نے 1915ء میں اپنے دورۂ کابل کے دوران ہندوستانی مجاہدین کے نام لکھے تھے۔ کابل میں قیام کے دوران مذکورہ افراد مجاہد تنظیموں، قبائلیوں اور بااثر سرداروں سے بھی ملتے رہے۔ اسی دوران جرمن اور روسی سفارت کاروں سے ملاقاتوں کا بھی علم ہوا۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے حریت پسندوں مہندرا پرتاب سنگھ اور مولوی برکت اللہ سے بھی ملاقات کا علم ہوا۔ یہ خطوط دراصل محمود الحسن (شیخ الہند) کو پہنچانے کی تاکید کی گئی تھی۔ ان خطوط کی روشنی میں یہ اندازہ بھی لگایا گیا کہ سازش کے تحت جنود دربانیہ (خدائی لشکر) کے نام سے جہادی تنظیم کی تشکیل بھی عمل میں لائی جا چکی ہے، جس کا کام سرکار کے خلاف جہاد اور بغاوت ہے۔
انگریز سرکار کی جانب سے خطوط پکڑے جانے کے بعد اس سازش کے نامزد اراکین کو جنود ربانیہ (خدائی فوج) کے نام سے پکارا جاتا۔
رپورٹ میں الزام تھا کہ خدائی فوج کا اوّلین مقصد فرنگیوں (کافروں) کے ماتحت اسلامی مملکتوں اور خاص طور پر ہندوستان کو فرنگی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے اسلامی حکومتوں کو متحدکرنا تھا۔
مولانا محمود الحسن شیخ الہند کی ذمے داری تھی کہ وہ حجاز کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ (ترکی) سے رابطے استوار کریں او دباؤ ڈال کر چند شرطیں ماننے پر آمادہ کریں، تاکہ اس کے نتیجے میں والئ افغانستان انگریز سے جنگ پر آمادہ ہوجائے اور پھر سابق فوجی افسران اور مجاہدین، چاہے وہ افغانی ہوں یا ہندوستانی، سب ایک ساتھ سرکارِ برطانیہ پر حملہ کردیں۔
رپورٹ میں بتلایا گیا تھا کہ ہندوستان میں جو سازشی سرگرم تھے، اُن کا کام مجاہدین کے لیے رقم اکٹھی کرنا تھا، جس کی مدد سے کابل، ہندوستان اور حجاز میں سازش پر آنے والے اخراجات پورے ہوسکیں۔۔۔ مزید یہ بھی کہ ساتھ ساتھ انہیں ہندوستانی مسلمانوں میں مذہبی جنون (آزادی کی تحریک) کو اتنا زیادہ بڑھا دینا تھا کہ افغانستان اورہندوستان کے درمیان جنگ چھڑتے ہی ہندوستانی بھڑک کر ہر طرف آگ لگادیں۔
(جاری ہے )