قاضی حسین احمد صاحب [جنھیں قدرت نے ایک دائمی مسکراہٹ سے نوازا تھا] نے جماعت اسلامی کی 22سال قیادت کی اور امارت کے عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے وہ میاں طفیل محمد کے ساتھ طویل عرصہ جنرل سیکرٹری رہے۔ منصورہ میں واقع دو کمرے کے ایک سادہ سے فلیٹ میں ہی اپنی امارت کے سارے سال بخوشی گزارنے والے قاضی صاحب کو میں نے ہمیشہ ایک مطمئن، متحرک اور متواضع انسان پایا۔ مسکراہٹ ان کے چہرے پہ خوب سجتی تھی، انھیں اس بات کا احساس تھا یا یہ حسن اتفاق تھا، یہ مسکراہٹ ان کے چہرے اور شخصیت کا حصہ بن گئی تھی اور شاید ہی کوئی بتا سکے کہ انھوں نے کب محبت اور مسکراہٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ میری یادوں میں ان کے کئی مضبوط حوالے ہیں، جو اُن سے محبت کو کم نہیں ہونے دیتے، اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے زمانے میں ایک دوست جو یو ایم ٹی میں ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز تھے، کو جوہر ٹاؤن بلایا اور ہم دونوں نہر کنارے ایک ہوٹل کے لان میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ کھانا ابھی شروع ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، مہمان نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر فون سنا ’’جی قاضی صیب!‘‘ پھر اس نے پشتو میں دو چار جملے کہے، فون بند کیا اور ایک نمبر گھمانے لگا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ مؤدب تھا۔ خاموشی سے بات سنتا رہا اور فون بند ہوتے ہی اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ہم دونوں کئی مہینوں کی مسلسل منصوبہ بندی کے بعد اس دوپہر نہر کنارے بنے ہوٹل سیچوان میں کھانا کھانے آئے تھے۔ اس پُرسکون جگہ پر بیٹھ کر کرنے کے لیے ہم نے کتنی ہی باتیں اٹھا رکھی تھیں، گرم گرم چاولوں کی بھینی بھینی خوشبو آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ چکن جنجر سے گرم گرم بھاپ مرغولے بنائے اوپر کو اٹھ رہی تھی۔ ابھی ہم نے صرف سالن اپنی پلیٹوں میں ڈالا تھا جب یہ فون آیا اور اگلے ہی لمحینور اسلم نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور جانے کی اجازت چاہی۔ میرے استفسار پر صرف اتنا کہا ’’قاضی صیب محترم کا فون تھا، سمیحہ راحیل آپا کی طرف فوری جانا ہے۔ تفصیل ابھی اس لیے نہیں بتا سکتا کہ قاضی صیب نے صرف اتنا ہی بتایا ہے کہ سمیحہ آپا کے گھر کام کرنے والی مائی رو رہی ہے، جاؤ جاکر اس کا مسئلہ دیکھو، پولیس اس کے میاں کو پکڑ کر لے گئی ہے۔‘‘
نور اسلم کی اُن سے محبت اور تعلق کا مجھے کچھ اندازہ تھا کہ وہ صرف اُن کے کہنے پر پشاور سے لاہور چلا آیا تھا جہاں مسجد مکتب پراجیکٹ اس کا منتظر تھا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے چاروں صوبوں کے دور دراز دیہات میں غربت کی سطح پر جینے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے مساجد میں پڑھنے کا انتظام اور اہتمام کرڈالا۔ میں تین سال تک دور و نزدیک سے لاہور آئے ان عالم اساتذہ کی تربیت کے لیے جاتا رہا۔ بالکل لو پروفائل (low profile) میں ہونے والے اس کام کے دوررس نتائج کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ نور اسلم ان کا سربراہ تھا۔ وہ انٹرنیٹ پر کام کرتا تھا اور ان اساتذہ نے کبھی کمپیوٹر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ مگر کام کی اثرپذیری دیکھ کر مجھے قاضی صاحب پر بہت پیار آیا کہ کس بندے کو کہاں سے اٹھا کر لائے ہیں اور کس کام پر لگا دیا ہے۔ نور اسلم کی صلاحیتوں کا اندازہ مجھے اسلام آباد میں FCO(فارن اینڈ کامن ویلتھ) کے لیڈرشپ پراجیکٹ کے دوران ہوا جہاں وہ بہترین اسکول، اساتذہ، طلبہ اور ان کی تربیت کے لیے ایک مثالی ادارے کی نشاندہی کرنے کے لیے لاہور سے آیا کرتا تھا۔ اس کے پاس دنیا جہاں کے بہترین اسکولوں کے تربیتی، تفریحی نظام کی تفصیلات اور پاور پوائنٹ میں پریزنٹیشنز ہوتی تھیں۔ آج وہ ریاض میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ انتظامی عہدیدار ہے۔ میں تب بھی سوچتا تھا کہ قاضی صاحب نے اس جن کو کیسے قابو کیا ہوگا؟ وہی جن میرے سامنے تھا۔ اس نے میز پر پڑی چابی اٹھائی، کوئی معذرت کیے بغیر اجازت لی اور سمیحہ راحیل قاضی کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا، جہاں سے اسے کام کرنے والی مائی کا مسئلہ حل کرانا تھا۔
شام کو اس کا فون آیا تو پتا چلا کہ مائی ویوز فیکٹری کے پیچھے رہتی تھی۔ فیکٹری میں چوری کرنے کے بعد چوروں نے پچھلی دیوار پھلانگی تو جاتے ہوئے ان کا کچھ سامان وہاں گر گیا۔ پولیس نے آسان ہدف دیکھ کر مائی کے میاں کو پکڑ لیا۔ اس کا پورے شہر میں کوئی والی وارث تھا، نہ دادرسی کرنے والا۔ وہ روتی سمیحہ راحیل کے گھر پہنچی، اور بیٹی نے قاضی صاحب سے اسلام آباد رابطہ کیا، اور قاضی صاحب جو ظلم کے خلاف بات کرتے تھے، جلوس اور ریلیاں نکالتے تھے، ایک غریب کام کرنے والی بے سہارا اور بے آسرا مائی کی مدد کو یوں آئے کہ خود مجھے کتنی دیر حیرت ہوتی رہی۔ نور اسلم نہ صرف مائی کے میاں کو تھانے سے چھڑاکر لایا بلکہ اس کے گھر چھوڑ کر بھی واپس آیا۔ میں نے اسے ممتاز دانشور اشفاق احمد کا کہا سنایا، وہ کہا کرتے تھے: ’’تھانے سے کسی دوست یا جاننے والے کا فون آ جائے تو فون پر پوچھنے، ڈانٹنے اور عقل سکھانے مت بیٹھ جاؤ۔ پہلے جاکر اسے مشکل سے نکالو، باقی سمجھانے کے شوق بعد میں پورے کرلینا‘‘۔ وہ بہت ہنسا۔۔۔ یہ سارے بزرگ ایک جیسا ہی سوچتے ہیں اور ایک ہی رسّی سے جڑے ہوتے ہیں۔
قاضی صاحب کی امارت کے دنوں میں میڈیا کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ قاضی صاحب جذباتی آدمی ہیں۔ غصہ بھی کرتے ہیں۔ مزاج کے برعکس کام ہورہا ہو تو چہرے کے تاثرات بھی بدلتے ہیں۔ اگر ایسا تھا بھی تو وہ ایک انسان تھے، ایسے اچھے اور بہترین انسان جنھوں نے آنے والے سالوں میں کڑوی، سخت اور ناروا باتیں بھی سننے، دیکھنے اور برداشت کرنے میں ملکہ حاصل کرلیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جب جماعت اسلامی کی امارت سے دست بردار ہوئے تو کسی روایتی سابق امیر کی طرح تنہا اور اکیلے نہیں تھے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، جماعت کے اپنے حلقوں سے بے شمار نوجوان اور بزرگ ان کے گن گانے والوں، ان کی بنائی ملّی یک جہتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہونے والوں اور اسلام آباد میں ان کی بنائی ہوئی مجلس فکر [ تھنک ٹینک] کی خیر چاہنے والوں میں شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ فراغت کے بعد بھی سیاسی جلسہ کھینچنے والے مقرر مانے جاتے تھے۔ کسی زمانے میں ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کی پھبتی کسنے والے بھی ان کے تدبر، اخلاص اور امت کے لیے درد اور جدوجہد کے قائل ہوگئے تھے۔ وہ جماعت کے حلقوں سے باہر پہلے سے کہیں زیادہ قابلِ قبول، محترم اور ایک بڑے لیڈر کے طور پر قبول کرلیے گئے تھے۔
منصورہ میں قیم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جس گھر میں انھیں رہنا چاہیے تھا، وہاں جماعت کے ایک سابق قیم رہتے رہے۔ لوگ باہم باتیں کرتے تھے، خدا جانے کسی نے ان سے بھی کہا کہ نہیں، بہرحال قاضی صاحب نے کبھی نہیں کہا اور خوش دلی سے اسٹاف کے لیے بنائے گئے فلیٹ میں منتقل ہوگئے اور امیر جماعت بننے کے بعد، امیر جماعت کے لیے تعمیر کیے گئے نسبتاً بڑے گھر میں منتقل ہونے سے بھی انکاری رہے، اور اسے جماعت کے مہمانوں کے لیے دارالضیافہ بنوا دیا۔ یہ تقویٰ تھا، احتیاط تھی یا جو بات بھی اس فیصلے کے پس منظر میں رہی ہو، کم و بیش تیس سال تک انھوں نے اپنے فیصلے سے خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کو کھلے گھر کی اس آسودگی سے محروم رکھا، جو ان جیسے متحرک، ان تھک، شکرگزار اور قانع قائد کا استحقاق تھا۔ ان کے بعد بننے والے امیر سید منور حسن اس بھی سے ایک ہاتھ آگے چلے گئے، وہ گھر اور فلیٹ کے بجائے مہمان خانے کے ایک کمرے کے باسی ہورہے۔آنے والے سالوں میں جماعت کے نئے امراء اور قائدین کے لیے یہ مثالیں آسانی کا باعث بہرحال نہیں ہوں گی۔ جیسے حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے تقویٰ، احتیاط اور بیت المال سے حاصل کیے مال کی واپسی کی وصیت کے بعد فرمایا تھا کہ ’’حضرت ابوبکرؓ آنے والوں کو مشکل میں ڈال گئے ہیں۔‘‘
امرودوں بھری ٹرے
یہ 1986ء کا کوئی مہینہ تھا جب میں پہلی بار قاضی صاحب سے ملا۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست اکرم زبیر خان کے والد غلام غوث ہمدانی صاحب جماعت کی شوریٰ کے رکن تھے۔ ان کا کوئی پیغام پہنچانا تھا، تو اکرم زبیر کے ساتھ قاضی صاحب کے گھر جانے کا پروگرام بنا۔ سچی بات یہ ہے کہ ذہن میں ایک خوب صورت، کھلے ڈُلے اور آسودہ گھر کا تصور تھا۔ یہ بھی علم تھا کہ پشاور اور زیارت کاکاخیل میں ان کا گھر اور کاروبار ہے۔
مگر سیڑھیاں چڑھ کر فلیٹ کی گھنٹی بجاتے ہوئے حیرت ضرور ہوئی۔ گھر کا دروازہ قاضی صاحب نے خود کھولا۔ ہمیں چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں بٹھاکر اندر گئے اور کچھ دیر بعد ایک ٹرے اٹھا کر لائے۔ اس میں کٹے ہوئے سیب اور امرود تھے۔ بولے ’’بھئی! گھر میں اس وقت یہی کچھ ہے۔ میں بھی کئی روز کے بعد آیا ہوں۔‘‘ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی، امرودوں کی طرف دھیان بھی نہیں گیا۔ وہ کہتے رہے ہم سنتے رہے۔ عام طور پر بڑے منصب پر پہنچ کر یا بزرگی کی منزل پر جاکر ہمارے ہاں بزرگ بن کر بات کرنے کا بہت رواج ہے۔ یہیں سے خلیج حائل ہونا شروع ہوتی ہے۔ آدھے گھنٹے کی ملاقات میں لمحہ بھر کو محسوس نہیں ہوا کہ ان سے پہلی ملاقات ہے اور وہ عالم اسلام کی اتنی بڑی جماعت کے قائد ہیں۔ ان کے لہجے کی یہ مٹھاس اور کھلا پن، زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ہم رکاب رہا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان ہی نہیں، دینی جماعتوں کے قائدین اور سربراہان بھی ان کی اس خوبی کے معترف رہے۔
داماد کی وفات پر طرزِ عمل
مجھے ذاتی طور پر قاضی صاحب کو مختلف مواقع پہ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ محترمہ سمیحہ راحیل قاضی کے میاں فوت ہوئے تو تعزیت اور افسوس کے لیے قاضی صاحب کے ہاں گیا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل اپنی چھوٹی بہن کے میاں کے اچانک انتقال کا صدمہ ہم جھیل چکے تھے۔ بہنوں اور بیٹیوں کی بیوگی کے صدمے پر پتھر سے بنے انسان بھی پگھلتے دیکھے ہیں۔
قاضی صاحب نے گلے لگایا۔ میں نے تعزیتی الفاظ ادا کیے۔ انھو ں نے ہاتھ پکڑ کر، آنکھوں میں دیکھ کر کہا ’’اللہ کا مال تھا، اس نے واپس لے لیا۔ اس کی رضا پر راضی ہونا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ مجھے لمحہ بھر کو یوں لگا میری اپنی بہن کا معاملہ ہے اور وہ تسلی اور تشفی کے کلمات سے میری تالیفِ قلب کررہے ہیں۔ بیٹی کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔ وہ کوئٹہ سے لاہور آگئیں۔آنے والے سالوں میں جس شفقت اور توجہ سے انھوں نے سمیحہ راحیل قاضی کا خیال رکھا، ان کے بچوں محمد ابراہیم قاضی اور رحام قاضی جو تب بہت چھوٹے تھے، کی پرورش کی، اسی کا اثر تھا کہ رحام نے قاضی صاحب کی وفات پہ روتے ہوئے جھوٹ نہیں کہا تھا کہ ’’آج دوبارہ یتیم ہوگئے ہیں۔ والد کی وفات پہ چھوٹے تھے، قاضی صاحب کی شفقت کے زیر سایہ ہی جینا سیکھا تھا۔‘‘ سمیحہ راحیل نے ایک خط میں مجھے لکھا ’’جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا، تو وہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے کہ راحیل اب تم نے اپنے کردار کو مستحکم کرلیا ہے۔ اب تم اعتماد کے ساتھ اپنے کام کیا کرو۔ معاشرے میں اپنے اچھے اور بھرپور کردار سے اپنی حیثیت کی پہچان کراؤ۔ بچپن سے ہی مجھے اقبال کے یہ دو فارسی اشعار سنا سنا کر یاد کرائے تھے:
بہل اے دخترک ایں دلبری ہا
مسلماں را نہ زیبد کافری ہا
منہ دل بر جمال غازہ پرور
بآموز از نگہ غارت گری ہا
(اے (میری) ننھی بیٹی! یہ کافروں کی سی آرائش و زیبائش اور نازو انداز دکھانے والے اطوار چھوڑ دو اور اپنے کردار کی طاقت سے دنیا کو مسخر کرنا سیکھو۔) یہ شعر تو وہ ہر خواتین کے اجتماع میں ضرور سناتے:
ز شامِ ما بروں آور سحر را
ز قرآن باز خواں اہلِ نظر را
نمی دانی کہ سوز قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را
ترجمہ: میری امت کی تاریکی میں سے سپیدۂ سحر کی نوید اور خوشخبری دلا دے۔ اہلِ بصیرت کو پھر سے قرآن سنانا شروع کر دے۔ کیا تجھے علم نہیں ہے کہ تیری تلاوت کا سوز ہی تو تھا کہ اس نے حضرت عمرؓ کی تقدیر بدل دی۔
انھوں نے مجھے فارسی کلیاتِ اقبال میں سے عورت کے بارے میں تمام اشعار زبانی یاد کرا دئیے تھے۔ میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں ان سب اشعار کو شامل کرلیا ہے۔
میرے ڈاکٹر بننے پر اتنے زیادہ خوش تھے کہ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ میری سہیلیاں مجھے کہتیں: تمھارے آغا جان کا چہرہ بہت ہی پُرنور ہے۔ وہ گھر میں بھی ہمیں ولی اللہ لگتے تھے۔ ان کا ظاہر و باطن اتنا اجلا تھا کہ اس کی روشنی سے ان کا چہرہ اور زیادہ روشن ہوگیا تھا۔ میرے مقالے کی نوک پلک سنوارنے میں وہ رات گئے تک میرے ساتھ مصروف ہوتے۔ میری امی کبھی کبھی بہت حیران ہوتیں کہ تم باپ بیٹی کی کتنی باتیں ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتیں۔ ویسے تو امی کو جلد سونے کی عادت تھی جو ساری عمر آغا جان اور ہم نے پوری نہ ہونے دی، کیونکہ ہم سب دیر تک آغا جان کے ساتھ گپ شپ کرتے اور وہ ہمیں واقعات کے دلچسپ پیرائے میں مشکل اور نہ سمجھ میں آنے والی باتیں سمجھاتے رہتے۔ وہ اپنی ذات میں پوری یونیورسٹی تھے اور علم و ادب کا ایک گہرا سمندر ان کے شفیق سینے میں موجزن رہتا۔ اوپر سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق نے اسے زیادہ گہرائی اور گیرائی عطا کردی تھی۔ مگر وہ ہمارے لیے ایک عام سے درویش آغا جان تھے۔ میں اپنے آغا جان کی ایک صفت سے بہت زیادہ متاثر ہوں جسے ہم نے اپنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے مگر ان کی یہ صفت اتنی فطری تھی کہ بہت حیرت ہوتی تھی۔
(جاری ہے)