ون ویلنگ کا تماشہ۔۔۔ بغیر سائلینسر کی بائیک کا مظاہرہ۔۔۔
پھلجھڑیوں کی جھلمل۔۔۔ برفی بموں کا شور و غل، نوجوانوں کے رقص وکرور کی محفل، ہوائی فائرنگ کا تسلسل، شراب و کباب کے مزے لوٹے گئے، دلوں کو دہلا دینے والا نرالہ انداز، شریف شہریوں کا جینا حرام کرکے۔۔۔ سالِ نو کا نرالہ آغاز، ویلکم ٹو نیویئر 2017ء۔۔۔ 2016ء جس آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا، اسی آب و تاب کے ساتھ غروب ہی ہو گیا۔۔۔ نہ دن بدلا نہ رات، وہی صبح وہی شام،
کچھ نوجوانوں کا گزشتہ سال کا احوال، کچھ ایسا ہی میرے گوش گزار ہوا، کلفٹن کے ساحل پر 31 دسمبر کی رات نوجوانوں کی کثرت دکھنے میں ائی جشن کی تیاریوں کے اپنے عروج پر لے جا کر نوجوانوں نے وہ شور و غل مچایا کہ موجوں نے بھی ساحل پر ٹھہرنے سے احتراز برتا، والدین کے پس پردہ ان کے بھروسے کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے پیسوں کا بے دریغ استعمال کیا نہ جانے حرام تھا کہ حلال، پھر۔۔۔ جونہی رات کے بارہ بچے۔۔۔ آسمان کی طرف ہاتھ بلند ہوئے اور فائرنگ کی گھن گرج نے شب کی تاریکی کو چیر ڈالا۔۔۔ اور۔۔۔ وہ ہلا بولا، جو تاریخ میں رقم ہونے کے لائق تھا، ایک دوسرے کے مد مقابل بائیک ریس لگائی گئیں۔۔۔ جس میں پیسوں کی شرط کے ساتھ ساتھ بغیر سائلینسر کی شڑط بھی عائد کی گئی، نیز، ریس میں صفِ نازک کو بھی ساتھ بٹھانے کا احتمام کیا گیا، تقریباً 04 میل کی مسافت کو چیلنج کیا گیا۔۔۔ رپس کے آغاز پر فائر کیا اور 180 کی رفتار سے بائیک بھگا دی گئیں، یہ گزشتہ 2016ء ہی کی بات ہے پانچوں میں سے ہر ایک اپنے مد مقابل کو ہم ادینے کے جنون میں تھا۔۔۔ انہیں میں سے ایک نوجوان جو ساتھ کسی لڑکی کو بھی لیے ہوئے تھا۔۔۔ بائیک کو وننگ لائن تک پہنچانے کے لیے جہاز کی سی برق رفتاری سے پہنچنے کی حتیٰ الامکان کوشش تیز کر دی۔۔۔
خدا جانتا ہے کہ، لڑکے اور لڑکی کے درمیان کون سے جائز تعلقات تھے، اور پھر، سامنے کسی انہونی چیز کے باعث بائیک نے چاہت کا احترام کرتے ہوئے ہوا میں پرواز کرنا شروع کیا۔ پیچھے بیٹھی لڑکی تو پھسل کر گر گئی۔۔۔ لیکن چلانے والا سڑک پر اس بے دردی سے قلابازیاں کھاتا گرا۔۔۔ کہ دیکھنے والوں کی چیخوں نے رات کے سناٹوں کو توڑ ڈالا۔۔۔ اور موقع پر ہی دل کی رفتار نے سکونت اختیار کر لی۔۔۔
اس طرح۔۔۔ آنے والے سال کو گویا خوش آمدید کہا گیا اور جانے والے سال کو رخصت کیا گیا۔۔۔ یہ ایک حال کی منظر کشی تھی۔
اسی طرح، گزشتہ سے گزشتہ سال نکاح کے بند عصن سے جڑ کر حورعین اور عالیان نے اپنی زندگی کے خوبصورت سفر کا آغاز کیا۔۔۔ عوام کو اب نئے سے نئے تہوار اور محفلیں سجانے اور منانے کے موقع تلاش کرتی ہے گو کہ۔۔۔ زندگی اسی دائرے کانام ہے۔۔۔ عالیان بھی کچھ ایسی ہی طبیعت کے حامل افراد میں سے تھا۔۔۔ ان کی شادی کو ابھی 6 ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ۔۔۔ سال نو کا چاند ظہور پذیر ہو گیا۔۔۔ رات بھر عالیان نے خوب ہوائی فائرینگ کرکے اپنے ذوق کا اظہار کیا۔۔۔ شام وہ رئیولور صاف کر رہا تھا اس نیت سے کہ اب اسے لوکر میں رکھ دے گا۔ تب ہی حورعین اچانک چائے لے کر اندر آئی عالیان نے شرارتاً رئیولور اس کے سامنے تان دی اور اسے تنبیہ کرنے لگا کہ اگر تم میرے پاس آئیں تو میں تمہیں گولی سے اڑا دوں گا۔ حورعین اس کی شرارت کو بھانپتے ہوئے مسکرانے لگی اور چائے ٹیبل پر رکھ کر ہاتھ پھیلا دیے کہ۔۔۔ اچھا چلا دیں پھر۔۔۔ عالیان نے مسکراتے ہوئے ٹریگر دبادیا۔۔۔ اس خیال سے کہ رئیولور توخالی ہے۔۔۔ گولی ایک چھناکے کے ساتھ حورعین کے پیٹ میں جا لگی، رئیولور ہاتھ سے گرا اور عالیان اس طرح جامد ہو گیا گو کہ اب کبھی ہل نہیں سکے گا۔
بہرحال۔۔۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ، حورعین کو اللہ نے دوبارہ جان عطا کر دی لیکن اسے ہمیشہ کے لیے بانجھ کر دیا اور عالیان ہمیشہ کے لیے لفامت کے سائے اپنے چہرے پر لے کر گھومتا ہے۔
’’تن ہمہ داغ داغ شد
پنسبہ کجا کجا نہم‘‘
مغربی ذرائع ابلاغ جو رپورٹ پیش کرتے ہیں اس کے مطابق سب سے زیادہ ناسمجھ اور جاہل مسلمانوں کو ظاہر کیا جاتا ہے اس وقت سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے مسلمان ہیں سب سے زیادہ بے عمل نعراہ بازی سے تسلی حاصل کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں چراغا کرنا اور ہوائی فائرنگ کی اداکاریاں۔۔۔ مسلمانوں میں زور پکڑتی جا رہی ہیں فرض کہ داغ داغ شد والا معاملہ ہے۔
پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، ٹی وی، ڈش کیبل اور ریڈیو اور موبائل، غرض ہر جگہ ’’نیا سال مبارک‘‘ کا شور و غل برپا ہوتا ہے اور جانے والے سال کے مختلف انداز سے جائزے پیش کیے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کا اسراف اور فضول خرچی کثرت سے ہونے لگ جاتی ہے عیسائیوں کی رسم میں مسلمانوں میں بھی قبولِ عام ہو چکی ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں کرسمس کے موقع پر فائرنگ سے 64 افراد ہلاک ہو گئے صرف 48 گھنٹوں میں 155 مقامات پر فائرنگ ہوئی۔۔۔ آج امریکا بھر سے یہی صورت منتقل ہو رہی ہیں۔ سخت سردی میں بھی منچلوں کا مال روڈ پر رقص جاری رہتا ہے۔ بڑے بڑے ساؤنڈ سسٹم کے زیر تحت سرور میں ڈوبے نظر آتے ہیں آتش بازی کے وہ شرارے چھوڑے جاتے ہیں کہ آسمان بھی پناہ مانگتا ہے گو کہ اس کا منانا قرآن و سنت ہی سے نابت ہے۔ ہم اپنی موت کے ایک سال قریب آجانے کا جشن مناتے ہیں بے حیائی کا عروج پر ہونا، بے ہودہ اور غیر اخلاقی پروگراموں کا انعقاد سرکاری سرپرستی میں ہونا کہیں بھی ان میں رب کا حوالہ نہیں ہوتا صرف انجوائے منٹ در انجوائے منٹ اور بس۔۔۔
’’ہر کوئی مستِ ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے‘‘
یہ سب ہماری اقدار کے منافی ہے۔ یہ ہماری مسلمانی نہیں ہے نہی عن المنکر کا فریضہ یہیں عائلہ ہوتا ہے ہم نے یہ تہیہ کرنا ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے موجودہ سال کو گزشتہ سال کے مقابلے میں نیکی تقویٰ اور اخلاقیات کے حوالے سے بہتر بنایا ہے نئے عزائم نئے حوصلے تو ہر ماہ، ہر روز بلکہ ہر لمحہ احتساب کرنا ہے۔ زندگی تو بہت انمول چیز ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے۔۔۔؟
nn