ہر چیز ایک انتہا تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ جس کی مقررہ مدت گزر جاتی ہے وہ ایک سیکنڈ بھی باقی نہیں رہتی۔۔۔ اس کی حاضری اور موجودگی کو کوئی فلاسفر، کوئی دانشور اور کوئی ادیب یا عالم بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔۔۔ اس طرح جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، وقت اپنی تیز ترین اور عالم بالا کی طرف سے طے شدہ مدت و رفتار کو طے کرتا ہوا گزرتا رہا ہے اور گزر رہا ہے۔۔۔ اور اب 2016ء بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔ اس 2016ء میں کیا کچھ ہوا۔ کیا کیا سانحات و واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ اللہ کے بندوں نے اپنے بادشاہِ حقیقی کو کتنا فراموش کیا۔ کتنا وقت اپنے آقا کی نافرمانی کرتے ہوئے گزرا۔۔۔! کتنے عہد تھے جن کو ایفاء نہ کیا۔۔۔ کتنے فرائض تھے جن کو ادا نہ کیا۔ اور کتنی غلطیاں تھیں جن کی اصلاح نہیں کی۔۔۔! لیکن 2016ء کے اختتام پر لوگ ہیپی نیوایئر یعنی ’’2017ء‘‘ کے استقبال کے لیے زور و شور سے تیاریاں کررہے تھے۔ اپنا پیسہ، اپنی طاقت اور اپنا قیمتی وقت ان غیر مہذب اقوام کی تہذیب و کلچر کو اپنا اور اپنے مسلم ضمیروں کا سودا کرنے میں صرف کررہے تھے!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
بندگانِ خدا اور خصوصاً مسلمان اپنی شناخت، شجاعت و بہادری، اقوامِ عالم پر اسلام کا علَم لہرانے کی تاریخ سے دامن بچا کر اغیار کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر ناچ رہے ہیں۔ آج امتِ مسلمہ کے نوجوان ’’نیوایئر‘‘ کی خوشی میں یہ بھول بیٹھے ہیں کہ بطورِ مسلمان ہمارا سال کب شروع ہوتا ہے۔ کون کون سے مواقع ہیں کہ جن میں ہمیں خوشی کے شادیانے بجانے چاہئیں۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے مسلمان کو جب پیدا کیا ہے اور اس کو لازوال انعامات سے نوازا ہے تو روزِ محشر اس سے پوچھا بھی جائے گا کہ تم نے میرے انعامات و اکرامات کو کہاں صرف کیا۔۔۔؟ اور کیوں وقت کو دنیا کی لذتوں، معاشرے کے اندر پنپنے والے موذی عناصر کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا؟ کیوں میرے احکامات سے آنکھیں چرا کر دل و ضمیر کو بیچ ڈالا۔ کیوں اپنے مسلمان ہونے پر احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا حالانکہ اللہ ربی وقت جیسے بہترین طاقت سے تجھے نوازہ۔ وقت جو ایسا ہتھیار جس سے دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ یہی وقت جس کے مطلق امام رازیؒ سورۃ العصر کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: عصر (زمانہ/وقت) وہ ظرف ہے جس کے اندر حیرت انگیز واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس (وقت) کے اندر انسان سب کچھ کرتا ہے۔ تنگی و ترشی سختی و نرمی، اور تنگ دستی و فاقہ کشی اس پر گزرتی ہے۔ لہٰذا انسانی عمر کے اوقات بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ لیکن۔۔۔!
نوجوانانِ ملتِ، مسلمہ ممالک میں پسنے والے معصوم بچوں کی آسماں تک پہنچنے والی آہ و زاری۔۔۔ اپنے جگر گوشوں کو گولیوں سے بھنتا ہوا دیکھ کر حواس کھو بیٹھنے والی ماؤں کی بے بسی دیکھ کر بھی بڑے آرام و سکون سے سوتا ہے۔ بڑے ’’Easy‘‘ ہو کر کلبوں اور ’’Five Star‘‘ ہوٹلوں میں پارٹیاں منانے میں مست و مگن رہتا ہے۔ اور بڑے تفاخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہی ہمارا اسٹیٹس ہے۔ اسی سے ہماری Approch ہو گئی۔۔۔ اور اس سے ہمارا Family back graund پاؤر فل ہو گا۔۔۔ لیکن اقبال کا شاہین اپنے شاعر مشرق کا یہ شعر بھول چکا ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قولِ رسولؐ
مسلمان نیوایئر کی حقیقت سے نا آشنا ہیں لیکن پھر بھی غیر مذہب کی اندھی تقلیب میں گرفتار ہیں۔۔۔ نیوایئر دراصل انگریزی نام سے یہ مصروف چلا آتا ہے۔۔۔ نیا سال شروع ہونے پر ایک جشن منایا جاتا ہے۔ دسمبر کی 31 دسمبر تاریخ کو لوگ جاگتے رہتے ہیں۔ اور نیا سال آنے کی خوشی میں جشن کی تیاریاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ تقریب نا سعید جو عیسائیوں کے ایک رسم ہے مسلمانوں میں بھی قبولِ عام حاصل کر چکی ہے۔۔۔!! نہیں معلوم یہ خوشی کس بات پر منائی جارہی ہے۔۔۔؟ کیا اپنی زندگی کا ایک قیمتی سال کم ہونے کی ۔۔۔؟ کیا اپنی موت ایک سال قریب آجانے کی۔۔۔؟؟
یہ تہوار ہر لحاظ سے غیر شریعی ہے۔ اس کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔! یہ ہماری اقدار کے منافی ہے۔ نیوایئر ہماری نوجوانِ نسل کے کچے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا آسان اور دلفریب آلہ ہے۔ نیو ایئر کی انجوا میں مصروف ہو کر مسلمانوں اپنے دین و ملت کی ترقی و خوشحالی کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔
امتِ مرحوم کا جب تک تھا قرآن پر عمل
اسی کی شوکت ساری دنیا میں رہی ضرب المثل
چھوڑ کر قرآن کو مسلم حق سے بیگانہ ہوا
دین بھی رسوا کیا اور آپ بھی رسوا ہوا
nn