(انیلہ نواز)جامعتہ المحصنات کراچی

235

 آپی جاگیں! پلیز آپی جاگیں۔۔۔فاطمہ نے تیسری مرتبہ آکر اسے جگایا تھا۔ حفصہ خودمحسوس کر رہی تھی کہ کئی دنوں سے وہ نماز اور فجر کے وقت قرآن کی تلاوت میں بہت سستی سے کام لے رہی ہے۔ نماز کو تقریباً قضاکر کے پڑھتے ہوئے وہ بغیر دعا کئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکول جانے کی تیاری شروع کی ۔ خاص نئے فیشن کا بنایا ہوالبا س پہن کر وہ دل ہی دل میں خوشی محسوس کر رہی تھی میک اپ کر کے جلدی سے ناشتہ کیا۔ بڑھتی ہوئی اس سردی میں بھی وہ پچھلے فیشن کے پرانے جوتے پہن کر اسکول جا رہی تھی اس نے جوتے پہنتے ہوئے سوچا آج تو لازمی ہی بازار چلی جاؤں گی اور اس موسم کے لئے مناسب نئے فیشن کے جوتے لے لوں گی۔بریک میں معمول کے مطابق وہ اسکول گئی اپنی کلاسز لینے کے بعد چھٹی لے کر بازار کا رخ کیا۔باجی کو بعد میں کال کر کے بلالوں گی پہلے کچھ دیر اکیلی ہی گھوم پھر لوں یہ سوچتے ہوئے وہ مین بازار میں داخل ہوگئی۔
بازار میں ہر طرف لوگ گھومتے پھرتے خریداری کرتے ہوئے نظر آرہے تھے دکانوں کے باہررنگ برنگے کپڑے اور فینسی ملبوسات دیکھ کر اس نے منہ بسوڑا ،اس کی جیب اس وقت صرف جوتے لینے کی متحمل تھی۔شوق اور حسرت کے ملے جلے جذبات میں وہ جوتوں کی ایک بڑی دکان میں داخل ہوگئی۔دکان خریداروں سے بھری ہوئی تھی۔حٖفصہ بھی مناسب جوتوں کی تلاش میں ایک کی طرف متوجہ ہوئی کہ اچانک’’ کھڑ کھڑ کھڑ ‘‘ کی آوازوں کے ساتھ زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ساتھ ہی لوگوں کی چیخ و پکار دل دہلانے لگی۔’’زلزلہ آرہا ہے ۔۔۔۔اورپھر ہر طرف کلمے کی آواز گونج اٹھی اور ہر کوئی اپنے ساتھیوں سے بے نیاز باہر کی طرف دوڑنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ بلند آواز میں ’’ استغفراللہ‘‘ کی تکرار بھی جاری تھی۔۔۔وہ لوگوں کی دھکم پیل میں باہر کی طرف جاتی انتہائی خوفزدہ تھی لمحے بھر نے اسے پوری زندگی کا تجزیہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔فانی زندگی کی حقیقت کیا تھی جان بچانے کی آرزو میں باہر کی طرف بھاگتے اسے اسی لمحے پتہ چلی تھی۔
زلزلہ کب تھما ۔۔۔!!!اس نے گھر فون کرتے ہوئے کیا کہا ۔۔!!!۔اسے کچھ خبر نہ تھی۔بس اتنا پتہ تھا کہ وہ لمحہ اسے بدلنے آیا تھا ۔بازار جانے والی اور اب لوٹنے والی حفصہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

حصہ