شبیرہائے رے ۔۔۔۔یوم عتا�آؓ جامعتہ المحصنات کراچی (عفت شبیر)

265

 اللہ رب العزت نے ہم انسانوں کو بیش بہا قیمتی نعمتیں عطا کی ہیں انہی میں زندگی ایسی نعمت ہے کی جس میں کبھی تو خوشی کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں اور کبھی غمی سے واسطہ پڑتا ہے لیکن صبر و شکر کے ساتھ ہی ان اوقات کو گزار کر زندگی کے اصل مفہوم سے آشنائی ممکن ہوتی ہے دراصل یہ دنیا تو امتحان گاہ کی مانند ہے چنانچہ مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہیں تو قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور کہیں قدموں کو مضبوطی سے جما کر آگے بڑھنا پڑتا ہے اسی میں زندگی اصل لطف اور مزہ ہے۔طالب علمی کا حسین دور بے پناہ یادگار لمحات سے مزین ہوتا ہے اور جب کہیں بیٹھے بٹھائے یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلتا ہے تو گزرے لمحات اور وہ مناظر نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور بے اختیار مسکراہٹ آجاتی ہے ۔جامعہ میں گزرنے والا لمحہ ہی ایک نئی یاد دے کر گزرتا ہے ایسا ہی ایک لمحہ ان صفحات پر رقم کرنے کو قلم بے تاب ہے لیکن جامعہ کی چار دیواری میں گزرنے والے اوقات کے متعلق تحریر کرنے بیٹھوں تو صفحات ہی ناکافی ہوجائیں جامعہ میں چونکہ انتظامی امور کی معاونت کے لئے طالبات پر بھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے یہ ذمہ داریاں بھی تربیت کا حصہ ہوتیں ہیں ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا کہ ہمارے ناتواں کندھوں پر ذمہ داری آن پڑی چا رونا چار ہم نے اور ہماری سینئر باجی نے اس ذمہ داری اٹھانے کا عزم کر ی لیا اور مقررہ دن پر حلف برداری کی تقریب کے ساتھ ہی ہمیں کا لج ہیڈز کے اعزازی b.pسے نوازا گیا b.pکے متعلق تفصیلاََ ذکر کرنا تو گویا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا بہرحال یوں ہی سمجھ لیجئے کہ سلیشز بھی ہمارے یونیفارم کا حصہ بن گئے خوف اور ڈر کی ایسی کیفیت رہتی کہ چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا رہتا یہ تو جناب ایک مختصر سی تمہید تھی واقعہ تو اصل یہ ہے کہ ہماری پرنسپل آسیہ عمران صاحبہ وقت کی پابندی کے معاملے میں منٹ کیا سیکنڈ تک کا حساب رکھتی ہیں۔اس بات سے ہم باخبر تھے چنانچہ کوشش رہتی کہ کسی معملے میں بھی دیر کا سوچا بھی نہ جائے لیکن اسے ہماری بد قسمتی سمجھے ایک روز صبح 7:30 بجے کا وقت مقرر کیا گیا کہ پرنسپل کے ساتھ نشست ہوگی چنانچہ مکمل تیاری اور احتیاط کے باوجود مقررہ وقت سے ۵ منٹ دیر ہمارا مقدر ٹھری۔۔۔
ہاتھوں میں قلم اور ڈائری تھامے ہم دونوں بھاگم بھاگ آفس کے دروازے تک تو پہنچے مگر اندر جانے کا حوصلہ تو جیسے ختم ہی ہوگیا کیونکہ آفس میں سامنے ہی لگی گھڑی نے ہمارے قدموں کو جما دیا! اگلا مرحلہ اندر جانے کا تھا اور دونوں میں اتنا حوصلہ نہ تھا کیونکہ اندر کی صورتحال کا کچھ اندازہ توہو ہی رہا تھا بہرحال ہماری باجی صاحبہ شفیقانہ رویہ اپنائے ہمیں پہلے اندر دھکیلنے پر مصر تھیں اور ہم تھے کہ ادب کو ملحوظ رکھے باجی سے پہلے اندر جانے کو تیار نہ تھے۔۔۔ابھی یہی تگ و دو جاری تھی کہ پرنسپل صاحبہ نے نرم انداز میں مخاطب کر لیا اور صرف اتنا کہا کہ وقت دیکھا ہے بیٹے؟؟؟ اب آپ جا سکتی ہیں!!! اگلا جملہ یہی تھا
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے گئے
علامہ اقبال کا کہا ہوا یہ شعر نجانے ہمارے حواسوں پر کیسے وارد ہوا حالنکہ نہ تو مقابلہ شاعری کی کوئی نشست تھی اور نہ ہی ہمارے ہاتھوں میں موبائل تھا کہ اچانک ہی کوئی میسج آیا ہوا کیفیت ایسی تھی نا قابل بیان۔۔۔گویا صم بکم (بہرے گونگے) آفس کے دروازے کے ساتھ ہی لگ کر کھڑے رہے اور ایسا متفکرانہ انداز تھا کہ گویا پاکستان کا اگلا صدر ہم ہی نے بننا ہے۔ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ہماری وائس پرنسپل صاحبہ آفس کے دروازے سے باہر آئیں تو ان کے ہاتھ میں گلاس تھا یہ دیکھ کر دل اچھل کر حلق میں آگرا کیونکہ گلاس کانچ تھا تھا اور ہمارے ذہن میں تو آگے خاکہ کچھ اور ہی قریب ہوگیا ۔بہرحال تھوڑے سمجھدار تو تھے ہی لپک کر گلاس لینا چاہا کہ نیکیاں کمانے کا موقع ہی مل جائے گا پانی لیکر آئیں لیکن ہمیں اس سے محروم کر دیا گیا اور وائس پرنسپل صاحبہ نے کہا کہ بیٹا میڈم نے منع کیا ہے کہ آپ لوگ رہنے دیں! حالات کی سنگینی کا احساس تو اس لمحہ ہوگیا اور مارے شرمندگی کے نظریں اٹھانا تک ناممکن ہوگیا اسی اثناء میں اسمبلی کے وقت نے غضب ڈھایا اور تمام طالبات کا گزر شروع ہوگیا اور ایسے میں ساتھی طالبات مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہوئے ہمارے آس پاس سے گزرتیں ساتھ ہی آنکھوں کے اشارے کرتیں تو دل کرتا کہ کاش ان تک رسایء ممکن ہوتی تو پھر مسکراہٹوں اور آنکھوں کے اشارے کا جواب انھیں عملی طور پر دیتے لیکن صبر کا گھونٹ ہی پی کر رہ گئے ۔ہم نے سوچا کہ اسمبلی کے دوران جب سب مصروف ہوں گے ہم آفس جا کر معذرت کر لیں گے اور اندر جانے کے لئے ایک دوسرے کی ہمت بندھانے لگے کچھ وظائف بھی پڑھ کر خود پر دم کر لیا اور آنکھیں بند کر کے دونوں نے ساتھ ہی آ فس میں قدم رکھ دیا۔۔۔آنکھیں بند کئے یہی سوچ رہے تھے کہ نجانے کیا بیتے مگر آنکھیں کھولیں تو ششدر رہ گئے کیوں کہ آفس میں سوائے ہم دونوں کے اور تیسرا کوئی نفسِ انسان موجود نہ تھا دل چاہا کہ زور زور سے رودیں تاکہ گھبراہٹ کم ہو کیونکہ پرنسپل صاحبہ اور وائس پرنسپل صاحبہ آفس کے پچھلے دروازے سے اسمبلی میں شرکت کے لئے نجانے کب کی جا چکی تھیں نڈھال مزدوروں کی طرح اپنی اپنی نشست پر آکر کھڑے ہوگے جہاں گھنٹہ بھر پہلے کھڑے تھے ایک دوسرے کے چہرے پر نظر پڑی تو نہ یہ سمجھ آتا کہ کھل کر ہنسیں یا یا پھر رو لینا چاہئیے بہرحال تھوڑا وقت گزرنے کے بعد اسمبلی سے میڈم کا پیغام موصول ہوا کہ دونوں گراؤنڈ میں آجائیں ہمت کرتے ہوئے گراؤنڈ کی طرف بڑھے اور آگے کی صورتحال کے لئے خود کو تیار کرنے لگے گراؤنڈ میں پہنچ کر جائزہ لینے کے لئے تھوڑی ناکام کوشش کی کچھ بھی سمجھنے سے قاصر رہے لیکن تھوڑے ہی اوقات گزرنے پر وائس پرنسپل کا اعلان سن کر پورے جسم کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کیوں کہ پچھلے عرصے میں بروقت جامعہ نہ پہنچنے والی طالبات کو گراؤنڈ میں سزا کے طور پر کھڑا ہونے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا اور یہ سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اس لئے کہ ان معصوموں میں ہمارا شمار بھی تھا اس وقت اہنی کیفیت ایسی تھی کہ کاٹو تو جسم میں لہو کا قطرہ تک نہیں۔۔۔کان سائیں سائیں کر رہے تھے گویا ریگستان میں کھڑے ہوں اور چڑیوں کے چہچہانے کی آواز ہی محسوس ہو رہی تھیں!! اس واقع نے حقیقت میں ذمہ داری کا احساس دلایا کہ وقت کی ناقدری کے سبب نقصان اپنا ہی ہوتا ہے کیوں کہ گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور پرنسپل صاحبہ کی وقت کی قدر کرنے سے متعلق اہمیت کو یوں سمجھانا کبھی فراموش نہیں کر سکتی زندگی مین ذمہ دار ہونے کے ساتھ کسی بھی جگہ وقت کی قدر کرنا نہایت ضروری ہے اسی سے زندگی با اصول طریقے کے ساتھ ترتیب کے ساتھ بہترین گزر سکتی ہے۔میڈم کی یہ بات تو ذہن سے چپک کر رہ گئی ہے۔ ’’ بچیوں! جو شخص سیکنڈ جائعو کرتا ہے اس کے لئے منٹ ضایع کرنا آسان ہوجاتا ہے اور جو شخص منٹوں کو کھو دیتا ہے اس کے گھنٹے اس سے چھن جاتے ہیں اور گھنٹوں کی بے قدری مہینوں کو تباہ کرڈالتی ہے اور جس کے مہینے ضائع ہو جائیں وہ اپنا مقصدِ وجود تک بھول جاتا ہے۔اللہ کی اس عظیم نعمت کی نا قدری ذلتوں اور پستیوں کا سبب بن جاتی ہے۔اور بات صرف یہاں تک نہیں رہتی اخروی تباہی و بربادی مقدر ٹھرتی ہے۔۔۔وقت کی قدر کیجئے وقت آپ کی قدر کرے گا آپ کو کھونے نہ دے گا۔آپ کو کھونا بھی نہیں چاہئے کہ آپ کھونے کے لئے نہیں نئے نقوش بنانے کے لئے ہیں۔آپ کے کاندھوں پر بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں اور ایک لمبا اور پرمشقت سفر طے کرنا ہے۔نئے راستے اور اونچی منازل آپ کی منتظر ہیں۔‘‘
nn

حصہ