پاکستان کی آزادی کے چند ماہ بعد ہی سید مودودیؒ کی خصوصی ہدایت پر 23 دسمبر 1947ء کو لاہور میں 25 طلبہ نے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے ملکی سیاست، صحافت، ادب اور ہر شعبہ میں قوم کو اہم افراد دیے۔ طلبہ یونین کے دور میں جمعیت تعلیمی اداروں کی ناقابل تسخیر قوت رہی ہے۔
جمعیت ہر دور میں چلنے والی تحریکوں کی روحِ رواں رہی اور تمام قومی تحریکوں کی کامیابی کا سہرا جمعیت کے سر رہا ہے۔ سرکاری اداروں میں، انتظامیہ ، مدارس، جامعات، انجینئرنگ کے شعبے ہوں یا معیشت کے ادارے ہر ہر جگہ اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ شدہ افراد عملی میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
ملک کی تعمیر و ترقی اور نظریاتی بنیادوں پر جمائے رکھنے میں جمعیت سے فارغ افراد کا بیش بہا کردار ہے۔۔۔ یہی جمعیت تھی کہ جب پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرکے ہندوستان کا حصہ بنانے کا ارادہ کیا گیا تو اسلامی جمعیت اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدانِ عمل میں نکل آئی تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان میں ان نوجوانوں کی ایک پوری نسل نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر عزیمت‘ جرأت اور وفاداری کے وہ ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ اس جیسی نظیر ملنا مشکل ہے۔
میدانِ عمل میں آج بھی اسلامی جمیعت طلبہ کے یہ نوجوان اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔۔۔ کسی نے کہا تھا کہ ’’کچھ لوگ جماعت سے نکل تو جاتے ہیں مگر جماعت ان میں سے نہیں نکل پاتی۔‘‘
یہی بات ذرا مختلف انداز سے کہی جاسکتی ہے کہ دورِ تعلیم ختم ہو جانے کے بعد گو کہ جمعیت کا نوجوان از خود اپنی رکنیت یا کارکن کے تعلق سے فارغ ہو چکا ہوتا ہے مگر دو چار سال کی یہ رفاقت اور تربیت‘ جو جمعیت نے اس نوجوان کی گھٹی میں ڈال دی ہوتی ہے‘ اُس کا سحر تا عمر قائم رہتا ہے۔۔۔ سوائے معدودے چند حوالوں کے۔
ان فارغ شدہ افراد میں سے کچھ تو اپنے اللہ سے کئے گئے حلف کو تازہ رکھتے ہوئے براہ راست جماعت اسلامی کا حصہ بن جاتے ہیں اور بے شمار ساتھی گردشِ ایام اور معاش کی تگ و دو میں مشغول ہوکر ذہنی طور پر تو تحریک کا حصہ ہی رہتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کر پاتے۔ اس کی بھی بے شمار وجوہات ہیں جن پر کسی اور مناسب وقت پر بات کی جاسکتی ہے۔
مولانا سید مودودیؒ کے اس مشن اور اس ویژن کو‘ جو آپ نے اس طرح دیا تھا ’’ایک وقت آئے گا کہ کمیونزم کو روس میں جگہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام امریکا میں لرزہ بر اندام ہوگا‘‘ جمیعت کے نوجوانوں نے اِس خواب کو اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی میں پورا ہوتا دیکھا۔
سرخوں اور فرینڈ شپ ہاؤسز کے مقابلے پر اسلامی جمعیت کے مقبول ترین نعروں میں ’’لا شرقیہ ۔۔۔لا غربیہ ۔۔۔اسلامیہ اسلامیہ‘‘ نے جو ہیبت اور دبدبہ رکھا اُس کی پشت پر مضبوط دلائل کے انبار تھے۔ ان مضبوط دلائل نے نہ صرف پاکستان میں غیر ملکی نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا بلکہ اسلامی تشخص کو بیدار رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔
اسی طرح ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ ایوب خان کی آمریت میں طلبہ حقوق کی جدوجہد، بھٹو کے خلاف عوامی تحریک، قادیانی کافر ہیں تحریک اورضیا الحق کے زمانے میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے حوالے سے تحریک۔۔۔ ان تمام تحریکوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
یوں تو ہر سال جماعت اسلامی ماضی کا حصہ بن جانے والے سابقین جمعیت کو ’’احباب فورم‘‘ کے نام پر ایک پروگرام کی صورت میں یکجا کرنے کا اہتمام کرتی ہی ہے مگر اس سال یہ دھوم دھڑکا کچھ اور ہی عزائم کا پتا دیتا ہے۔
’’ کنیکٹ کراچی‘‘ کے عنوان سے گزشتہ چھ ماہ سے کسی بہت بڑے ایونٹ کی تیاری کی جارہی تھی جس کی تفصیلات کے لیے مدیر جسارت سنڈے میگزین نے میری ذمے داری لگائی کہ ’’اندر کی خبر لاؤ۔۔۔ حکم تھا‘ جس سے انکار کی جرات نہیں تھی سو اسی خیال سے پروگرام کے خالق مشہور معالج ڈاکٹر واسع شاکر صاحب کی خدمت میں جا بیٹھا اور جو معلومات ملیں وہ آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر واسع شاکر صاحب کراچی میں حلقہ احباب جمعیت کے انچارج بھی ہیں‘ انہوں نے بتایا کہ اس تقریب کا خیال یوں آیا کہ ہم ہر مرتبہ حلیم پارٹی اور کوئی عید ملن تو کر ہی لیتے ہیں مگر اس سے آگے بڑھ کر کوئی اور پروگرام نہیں ہو پاتا، نہ ہی یہ افراد تحریک میں فعال ہو پاتے ہیں۔۔۔ انہوں نے کہا کہ پانچ دہائیوں سے نکلنے اور فارغ ہونے والے بلا مبالغہ لاکھوں افراد اس معاشرے میں موجود ہیں اور اب ان کی اولادیں بھی جوان ہو چکی ہیں مگر ہم ان کو اپنے متحرک دائرے میں نہیں لا پائے۔ اس بار ہماری کوشش ہے کہ ہم کم از کم دس ہزار سابقین کو ایک چھت تلے مجتمع کریں اور ان کی فیملیز کو ایسا ماحول فراہم کریں کہ تحریک ان کے دل کی آواز بن جائے۔
میرے اس سوال پر کہ اتنا بڑا پروگرام کیسے ممکن ہو پائے گا ؟ ان کا جواب تھا کہ ’’ہم نے اس کی تیاری کے لیے 27 ذیلی کمیٹیاں بنائی ہیں۔۔۔ پہلی کمیٹی پروگرام کمیٹی تھی جس کے نگراں سید سیف الدین ایڈووکیٹ تھے‘ انھوں نے پروگرام دیا اس کی جزیات طے کیں پھر ہر ذمہ داری 27 ذیلی کمیٹیوں کے سپرد کیں۔ چھ ماہ سے اس پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ 1960 سے 2016 تک کے سابقین اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدعو ہیں۔
اس کے علاوہ اس پورے پروگرام کے تین سیشن ہوں گے جس میں سابقین جمعیت اور معروف اسکالرز، جمعیت سے تعلق رکھنے والے حکومتی اور سیاسی انتظامی شخصیات کے علاوہ ناظمین اعلیٰ بھی خطاب کریں گے۔ ایونٹ مینجمنٹ کمیٹی کے نگران سہیل عزیز کے مطابق یہ پروگرام اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام ہوگا جس میں بچوں کے لیے پلے ایریا اور اکٹویٹیز رکھی گئی ہیں۔۔۔ شاپنگ کے اسٹالز، کھانے کے انتظامات بھی وافر مقدار میں ہیں۔۔۔ دوران پروگرام مشاعرے کا بھی انعقاد ہے جس میں مزاح و سنجیدگی دونوں کا ا ہتمام رکھا گیا ہے احباب سے رابطے کے لیے کمیٹی کے انچارج عنایت اللہ اسماعیل بے حد مصروف ہیں یہاں تک مصروف کہ ہم سے بات کرنے کی بھی فرصت نہیں۔۔۔ ایک بہت بڑا مسئلہ فنانس کا ہے جس کی ذمے داری محمد حسین محنتی صا حب کی ہے۔
ڈاکٹر واسع شاکر کے مطابق اس پروگرام میں ہر شریک کو ایک یادگاری مجلہ دیا جائے گا جس کی تیاری پر دن رات کام ہورہا ہے۔ سابقین جمعیت میں سے احسن اقبال وزیر مملکت، غفار بلو، ڈاکٹر اعجاز شفیح گیلانی واقس انجم جعفری ، اظہار الحق، ارشاد کلیمی کے علاوہ بہت سے دوسرے بھی بطور خاص مدعو ہیں۔
اب 15 تاریخ زیادہ دور نہیں ہے۔۔۔ دیکھتے ہیں چل کر کہ ڈاکٹر واسع شاکر کا کہنا کس حد تک درست ہے۔۔۔ کہتے ہیں کہ آزمائش شرط ہے۔۔۔ تو چلو آزما کر دیکھتے ہیں۔ اتوار 15 جنوری کی صبح ایکسپو میں سابقین جمعیت کی بھرمار ہوگی ان شا اللہ۔ ’’ویل ڈن احباب جمعیت !‘‘
nn