شہر بھر میں ماہِ ربیع الاوّل کے دوران سیرت النبیؐ کے کئی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ خواتین کی کثیر تعداد میں شرکت اس بات کی غماز تھی کہ وہ نہ صرف محبتِ رسولؐ سے سرشار ہیں بلکہ سیرت مطہرہ کے مختلف پہلوؤں سے مزید آگہی کی بھی خواہش رکھتی ہیں۔ ان مواقع پر حلقہ خواتین جماعت الامی کی طرف سے کثیر تعداد میں لٹریچر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایسا ہر برس ہی ہوتا ہے، مگر اس برس ایک قدر ہر جلسے میں مشترک تھی کہ شام کے مسلمانوں اور حلب کے مظلومین کے لیے رقت کے ساتھ دُعا کرائی جاتی اور سامعین بھی اشک بار ہوجاتے۔ ہر جلسہ گاہ میں استقبالیے پر ایک فنڈبکس رکھا ہوتا، جس پر ’’برائے متاثرین حلب‘‘ لکھا ہوتا اور خواتین قطار بنا کر اس ڈبے میں عطیات ڈال رہی ہوتیں۔ یہ منظر بار بار سوچنے پر مجبور کرتا کہ ان عطیات دینے والی خواتین کی کوئی تصاویر بن رہی ہیں نہ انہیں کسی نے مجبور کیا ہے، نہ اس کے صلے میں انہیں کوئی دنیاوی صلہ مطلوب ہے۔ پھر یہ کیسا جذبہ ہے جو، ان کو اس انفاق پر مجبور کررہا ہے؟ وہ درد، جو دل میں اس درجہ محسوس ہوا کہ عملی اقدام پر مجبور کردیا۔
ہمارے نام نہاد دانش ور کہتے نہیں تھکتے کہ اب ’’اُمّہ‘‘ نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ نہ یہ امت پھر سے وجود پاسکتی ہے، کیوں کہ اس بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں، لیکن جس طرح چودہ سو صدیاں گزرنے اور باطل کی ساری کاوشوں اور سازشوں کے باوجود ’’روح محمدؐ‘‘ کو مسلمانوں سے وجود سے جدا نہ کیا جاسکا، اسی طرح ’’جسد واحد‘‘ ہونے کا شعور ان کے تحت الشعور میں شامل ہے۔ چاہے ریاستی سطح پر اقدامات ہوں یا نہ ہوں، حکومتیں لاکھ سنگ دلانہ رویّوں کا مظاہرہ کریں، مگر شرق و غرب میں نہ صرف مسلمان بلکہ انسانیت کا درد رکھنے والا ہر فرد تڑپ اٹھتا ہے۔ اس ظلم وبربریت اور سفّاکی پر جس کا اوّلین نشانہ مسلمان ہی ہیں۔
یہ امت واحدہ اور جسد واحد کا تصور بھی اس وقت مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا پھر سے آغاز بن سکتا ہے اور اس وقت ہمارے دشمن کی سب سے کاری ضرب اسی اتحاد و اتفاق کی قوت کو پارہ پارہ کرنے پر ہے۔ یہود و ہنود کی آنکھوں میں یہی جذبہ کھٹکھتا ہے کہ اس امت کے تصور کو پارہ پارہ کیے بغیر اپنے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے، لیکن یہ جسدِ واحد ہونے کا تصور مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں کے حقوق غصب ہوں، وہ ریاستی مظالم کا شکار ہوں یا استعمار کے ایجنڈے کا ہدف ہوں، ساری دنیا کے مسلمان اس درد کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اپنا درد بیان کرنا ہی نہ آتا ہو یا ہماری حکومت کی انتہائی ناکام خارجہ پالیسیوں کے باعث ڈرون حملوں سے ہونے والے ظلم کی کہانی عالمی میڈیا پر اس طرح نہ آسکے، نہ مقبوضہ کشمیر کے مظالم دکھائے جاسکیں، جس طرح عالمی میڈیا نے نائن الیون کا طوفان اٹھا کر اس کو شرق و غرب کا موضوع بنا دیا اور مسلم دنیا کے لیے نیا شکنجہ تیار کرلیا۔ ڈرون حملوں میں مرنے والے ہر ہر خاندان کی ایک داستان ہے، مگر کس کے پاس فرصت ہے کہ اس سے مسلم دنیا اور عالمی میڈیا کو آگہی دے۔
حلب میں جو کچھ ہو رہا ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے اس درد کو محسوس کیا۔ وہاں کے حالات زخمیوں اور بیواؤں کے حالات اور گرے ہوئے مکانات جب اپنی آنکھوں سے لوگوں نے دیکھے تو علم ہوا کہ ہمارے جسم کے ایک حصے کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے اور ہمیں اپنے روز و شب کے سلسلے میں اس درد کو محسوس کرنے کی بھی فرصت نہیں۔
یکم جنوری کو، جب عیسوی سال کا آغاز ہورہا تھا اور نئے سال کے آغاز کو دنیا بھر میں جس انداز سے منایا جاتا ہے، وہ ہماری اخلاقی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے، مگر اس بار یکم جنوری کو کراچی میں ہزاروں خواتین، مرد، بچے، بوڑھے، گھروں کو چھوڑ کر شہر کی معروف شاہراہ پر اکٹھے ہوئے اور پاکستان کے میڈیا سمیت عالمی میڈیا کو یہ پیغام یا کہ مسلم اُمّہ کا تصور ابھی زندہ ہے۔۔۔ خنجر کسی پہ چلتا ہے اور درد کوئی محسوس کرتا ہے۔ یہ ایمان کا رشتہ ہے، جو ہر رشتے پر بھاری ہے۔ نوجوان جھولیاں پھیلا کر حلب کے متاثرین کے لیے امداد وصول کر رہے تھے۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں شرکا عطیات دے رہے ہیں، نوجوان اس ظلم کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، امت کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ تاحد نظر انسانوں کا اژدھام جو صرف اپنے ایمانوں کی گواہی پیش کرنے نکلا ہے کہ اس امت کی خاکستر میں ابھی چنگاری موجود ہے۔ امیر جماعت اسلامی حکم رانوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کر کے ہم روزِ قیامت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہ حکمران تو ایوان اقتدار میں سجے ہوئے لکڑی کے کندے ہیں، ہمیں خود ہی اٹھنا ہوگا اور اس درد کو عام کرنا ہوگا۔
اور واقعی ہم میں سے کسی کو کیا معلوم کہ اہالیان حلب پر چھ ماہ کے محاصرے کے دوران کیا گزری؟ وہ تو جب جنگ رکی اور حلب کے شہری باہر آئے تو دنیا نے دیکھا کہ وہ کس طرح روز مرمر کے جی رہے تھے، ان کے جسم اُدھڑے ہوئے تھے، حتیٰ کہ زخموں میں وہ نوکیلی چیزیں تک پیوست تھیں جو بم باری کے دوران زخموں کا باعث بنیں۔ ان کے زخم سڑ رہے تھے‘ سوشل میڈیا پر ان کی جو تصاویر شیئر کی جارہی ہیں، محسوس ہو رہا تھا کہ گوانتا ناموبے کے قیدی ہیں، جنہیں قید سے اس حال میں رہائی ملی ہے کہ جسم اور جاں کا رشتہ سسک رہا ہے۔ کئی ماہ تک بھوک پیاس برداشت کرنے اور شہر سے نقل مکانی کے خوف ناک اور اذیت ناک سفر (وہ بھی خون منجمد کر دینے والی سردی کے دوران) نے ان کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ وڈیو کلپ میں ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ ہم نے بڑی سُرعت سے لوگوں کے جسموں سے ان کے اعضا کاٹ کاٹ کر الگ کیا، جو بہت تکلیف دہ عمل تھا۔ مریضوں کی زندگیاں بچانے کے لیے تعداد بڑی تھی، وقت کم تھا، اس لیے جو شدید زخمی تھے، انہیں بچانے کے لیے تیزی سے آپریشن کیے گئے، ہمارے پاس انہیں درد سے بچانے والی ادویہ بھی بہت محدود تھیں۔
ہم نیچے کی ٹانگ کاٹ دیتے۔۔۔ پھر اوپر کی بھی جسم سے جدا کردیتے، ایسا ہم بہت جلدی جلدی کر رہے تھے کہ جسم میں مزید انفیکشن نہ پھیل جائے، کیوں کہ ہمیں علم تھا کہ یہ خوش نصیب ترین لوگ ہیں اور شاید مضبوط ترین بھی کہ ایسے ہزاروں لوگ ہم تک آنے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں یا بم باری کے ہاتھوں یا بھوک اور درد کے ہاتھوں یا سخت سردی یا سفر کی صعوبتوں کے باعث اس سے جاملے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ بہت خاص ہیں، انہیں ہمیں ہر صورت میں زندگی واپس دینی ہے، چاہے نامکمل جسم کے ساتھ ہی ہو۔ ہمارے سامنے سمندر تھا۔۔۔ زخموں کا سمندر، خون، پیپ، آہیں، بچھڑنے والوں کے نوحے۔ ایسی سیکڑوں وڈیو کلپس، درجنوں تحریریں، اس وقت سوسل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں، جب ہم چوک چوراہوں کو سجانے اور گلی بازاروں کو بقعۂ نور بنانے، جھنڈیاں اور قمقمے سجانے میں مصروف تھے۔ جشن آمد رسولؐ سے ہمارے گلی محلّے گونج رہے تھے اور رسولِ رحمتؐ کی امت کا ایک حصہ درد و کرب محسوس کرنے سے قاصر تھا۔
وہ برٹش ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ میں اس ننھی پریوں جیسی بچی کو کیسے بھلادوں، جس کی عمر صرف چار ماہ تھی۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ بم باری سے اس کے ماں باپ دونوں اسے دنیا میں تنہا چھوڑ کر رخصت ہوچکے ہیں اور وہ اس حال میں زندہ بچی تھی کہ اس کی ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور بازو بھی، مگر وہ زندہ تھی۔ وہ پھولوں جیسی بچی اپنے ماں باپ کو کتنی پیاری ہوگی۔ میں حلب سے واپس آنے کے بعد بھی اس بچی کے تصور سے باہر نہیں آپاتا۔ آہ۔۔۔!!
خون دیوانہ ہے، دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے، خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کو چہو بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رُکتا نہیں سنگینوں سے
سر جو اُٹھتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے، آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مِٹاؤ تو مِٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بُجھاؤ تو بُجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ دبے