ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا ہے کہ فنِ چہار بیت مسلمانانِ ہند کا ثقافتی اثاثہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شانِ پاکستان چہار بیت پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والی محفل چہار بیت میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں فنِ چہار بیت انحطاط پزیر ہے تاہم کراچی اور حیدرآباد میں کبھی کبھار چہار بیت کی محفلیں سجائی جارہی ہیں اس محفل میں چہار بیت پارٹی کے ارکان ’’دف‘‘ بجا کر اشعار پیش کرتے ہیں۔ دف بجانے کو ہم غیر شرعی فعل قرار نہیں دے سکتے۔ اس موقع پر فیروز ناطق خسرو‘ حکیم مجاہد برکاتی‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ ظفر بھوپالی‘ احمد ضیا‘ اسامہ حسینی‘ ارشاد آفاقی‘ طارق ٹونکی نے بھی فنِ چہار بیت کے حوالے سے گفتگو کی۔ رشید خاں نے نظامت کی۔ یہ ایک پُروقار تقریب تھی اور اس محفل میں اس قدر عمدہ کلام پیش کیا گیا کہ عبدالصمد تاجی پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔آخر میں تمام مہمانوں کو عشائیہ پیش کیا گیا۔ تقریب کے آرگنائزر اختر سعیدی تھے جن کی دعوت پر کراچی کے اہم لوگ اس تقریب میں شریک ہوئے۔
۔۔۔*۔۔۔
غزل سنگیت ایک نوزائیدہ ادبی تنظیم ہے جس کے روحِ رواں مقبول زیدی ہیں اس ادارے کی 9 ویں نشست گلستان جوہر میں شاہدہ عروج کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے صدارت کی۔ مصدق لاکھانی مہمان خصوصی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ منیر شیخ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ مقبول زیدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ فیروز ناطق خسرو‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ انجم عثمان‘ سحر تاب رومانی‘ رانا محمود قیصر‘ توقیر تقی‘ تزئین راز زیدی‘ شبینہ گل انصاری‘ اسد لکھنوی‘ عدیل جعفری‘ حجاب فاطمہ‘ عائشہ عائشی اور شاہدہ عروج نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب مشاعروں میں تہذیبی روایات دم توڑ رہی ہیں ساکنانِ شہر قائد نے مشاعرے کو ’’تفریحی میلے‘‘ میں تبدیل کردیا ہے اب چھوٹی چھوٹی شعری نشستوں میں اچھی شاعری ہو رہی ہے جو لوگ اردو ادب کی آبیاری کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہماری زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کا اہم ذریعہ ہیں اس روایت کو زندہ رہنا چاہیے اور ہر شخص کو اردو کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
صاحب تقریب مقبول زیدی نے کہا کہ ہماری تنظیم کے اغراض و مقاصد میں اردو ادب کی ترقی شامل ہے ہم نوجوان شعرا کو پرموٹ کر رہے ہیں۔ غزل سنگت کے ساتھ ساتھ ہم نے سلام گزار فورم بھی تشکیل دیا ہے جس کے تحت ہم ’’سلام امام حسینؓ‘‘ کے مشاعرے کراتے ہیں۔ عموماً ہم طرحی مشاعرے کراتے ہیں اس سلسلے میں صرف طرحی ردیف دیتے ہیں تاہم کبھی کبھار غیر طرحی مشاعرے بھی کرا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم نے شاہدہ عروج صاحبہ کی رہائش گاہ پر اپنی نشست سجائی ہے ہم آئندہ بھی بہاریہ مشاعرے یہاں منعقد کریں گے۔ اس موقع پر شبینہ گل انصاری نے تحائف تقسیم کیے۔ مقبول زیدی نے اپنی غزلوں کا مجموعہ مہمانوں کی خدمت میں پیش کیے۔
۔۔۔*۔۔۔
سماجی خدمات کے حوالے سے مظہر ہانی ایک معتبر شخصیت ہیں انہوں نے ریڑھی گوٹھ لانڈھی میں اسپتال‘ اسکول قائم کرنے کے علاوہ مظہر ہانی دستر خوان کا اہتمام بھی کیا ہے لیکن مظہر ہانی‘ شعر و ادب کی خدمت میں بھی مصروف ہیں اس وقت وہ کئی ادبی اداروں کے سربراہ ہیں اور وہ شعرا کی مالی مدد بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو ریڑھی گوٹھ میں انہوں نے ایک ’’سمندری مشاعرہ‘‘ منعقد کیا انہوں نے تمام شعرا کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کی۔ شعرا ایک بجے ریڑھی گوٹھ پہنچ گئے جہاں ایک شان دار مشاعرہ ہوا۔ مشاعرے کی صدارت رشید اثر نے کی مہمان خصوصی محمود احمد خاں تھے‘ مہمان توقیری انور انصاری تھے جب کہ یہ مشاعرہ اختر سعیدی کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔ رشید خاں رشید نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ سب سے پہلے مظہر ہانی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصے سے اختر سعیدی کے اعزاز میں تقریب کرنا چاہتے تھے آج کی محفل ان کے اعزاز میں سجائی گئی ہے۔ اختر سعیدی ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اخبار سے بھی منسلک ہیں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو پرموٹ کیا ہے ان کے کریڈٹ پر بے شمار تقریبات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نثار‘ رشید خاں رشید اور اسحاق خاں اسحاق کے اعزاز میں بھی مشاعرے منعقد کیے جائیں گے انہوں نے اس موقع پر تمام مہمانوں کی خدمت میں گل دستے اور اجرکیں پیش کیں۔
مہمان خصوصی محمود احمد خاں نے کہا کہ وہ آرٹس کونسل میں اختر سعیدی کے لیے ایک بڑا پروگرام منعقد کرائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان میں قائداعظم کا یوم پیدائش منایا جارہا ہے لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے قائداعظم کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ ہم آپس کے جھگڑوں میں الجھ گئے ہیں ہمارے دشمن ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد ہو کر پاکستان کی خدمت کریں۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں‘ ہمارا جینا مرنا پاکستان کی ترقی سے مشروط ہے۔
مہمان توقیری انوار انصاری نے کہا کہ پاکستان میں شاعری اپنے عروج پر ہے اور نوجوان نسل بھی شاعری کی طرف راغب ہوچکی ہے کچھ نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اردو اب ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے سعودی عرب میں بھی اردو مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن وہاں کی شاعری اور پاکستاسن کی شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں کے رہنے والے ہجر کے کرب سے آشنا ہے لہٰذا وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار المیہ اشعار کے ذریعے کرتے ہیں اس کے علاوہ دیارِ غیر میں دیگر مسائل بھی درپیش ہیں ہر شاعر اپنے معاشرے کو نظم کرتا ہے۔
صاحبِ اعزاز اختر سعیدی نے کہا کہ میں ہانی ویلفیئر ٹرسٹ کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں اتنی شان دار تقریب سجائی اس شعری نشست میں صاحبِ صدر‘ مہمان توقیری (انور انصاری)‘ مہمان اعزازی (اختر سعیدی) اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ عظمی جون‘ سلیم فوز‘ مظہر ہانی‘ شاہد اقبال‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ یوسف چشتی‘ محسن سلیم‘ اسحاق خان اسحاق‘ عامر ثانی‘ نجیب راہی‘ عاشق حسین شوکی اور علی کوثر نے اپنا اپنا کلام سنایا۔ مشاعرے کے سامعین نے دل کھول کر ہر شاعر کو داد دی۔
شعری نشست کے بعد لنچ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعدازاں تمام شاعروں کو ریڑھی میاں گوٹھ کے سمندر کی سیر کے لیے ایک بڑی لانچ کا اہتمام کیاگیا تمام شعرا لانچ میں سوار ہوئے اور چار گھنٹے تک سمندر کی سیر کی اس دوران کشتی کو سمندر میں لنگر انداز کیا گیا اور مشاعرہ شروع ہوا چونکہ انور انصاری اور رشید اثر پہلی شعری نشست کے بعد چلے گئی تھے اس لیے ’’سمندری مشاعرے‘‘ کی صدارت عظمیٰ جون نے کی۔ اختر سعیدی مہمان خصوصی تھے جب کہ رشید خاں رشید نے نظامت کی اس سمندری مشاعرے میں بھی سامعین شامل تھے جنہوں نے ہر عمدہ شعر پر داد و تحسین سے نوازا۔ شعری نشست میں تمام شعرا اور سامعین کی خدمت میں چائے پیش کی گئی جو کہ لانچ پر ہی بنائی گئی تھی۔
۔۔۔*۔۔۔
فیروز ناطق خسرو ایک سینئر شاعر ہیں وہ بزمِ ناطق بدایونی کے زیر اہتمام ہر مہینے اپنی رہائش گاہ پر شعری نشست منعقد کرتے ہیں۔ عرصۂ دراز سے یہ سلسلہ بغیر کسی تعطل کے جاری ہے اس تناظر میں انہوں نے گزشتہ ہفتے پروفیسر جاذب قریشی کی صدارت میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھی جب کہ رفیع الدین راز‘ سہیل ثاقب اور انور انصاری مہمانانِ اعزازی تھے۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
فیروز ناطق خسرو کی پسر زادی علشبہ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل اور کی اور نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ فیروز خسرو نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ میں اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے کرا رہا ہوں میرا مقصد شہرت حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ میں اردو ادب کا خدمت گزار ہوں اور اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ ڈال رہاہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کراچی کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے اور ادبی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ ہر مہینے مختلف ادبی تنظیموں کے زیر اہتمام دس‘ پندرہ ادبی تقاریب ہورہی ہیں۔ آرٹس کونسل‘ کراچی پریس کلب اور اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں بھی مشاعرے ہو رہے ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ فیروز خسرو تسلسل کے ساتھ مشاعرے کرا رہے ہیں یہ ادبی گھرانے کے فرد ہیں اور شاعری ان کے خون میں رواں دواں ہے ان کی غزلوں کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے ان کے اشعار میں ندرت خیال کے ساتھ ساتھ تازہ کاری بھی ہے یہ بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے رفیع الدین راز کے بارے میں کہا کہ ان کے شعری مجموعے ناقدین ادب سے خراج تحسین پا رہے ہیں انہوں نے ہائیکو کے علاوہ رباعیات پر بھی بہت کام کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی نعتیہ شاعری بھی سامنے آئی ہے انہوں نے بہت کمال کی نعتیں کہی ہیں۔
پروفیسر جاذب قریشی نے انور انصاری کے بارے میں کہا کہ انور انصاری ایک ہمہ جہت شخصیت ہے یہ شاعر ہیں‘ صحافی ہیں‘ خطاط ہیں اور مصور بھی ہیں انہوں نے شاعری میں بھی خوب صورت مناظر پینٹ کیے ہیں۔ سہیل ثاقب کے لیے صاحبِ صدر کا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں وہ جب بھی کراچی آتے ہیں ان کے اعزاز میں تقریبات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں یہ بہت اچھے شاعر ہونے کے علاوہ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ مہمان خصوصی نے اپنے اشعار سنانے سے پہلے کہا کہ آج کی نشست بہت کامیاب ہے آج یہاں بہت اچھے اشعار پیش کیے گئے کراچی میں ادبی حوالے سے تحقیقی اور مطالعاتی کام ہورہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کا عملی نفاذ بہت ضروری ہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اردو زبان ادب میں شاعری کا قابل قدر ذخیرہ موجود ہے اورجب تک اساتذہ کے کلام کو نہیں پڑھیں گے ہم اچھی شاعری نہیں کرسکتے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سعید الظفر صدیقی‘ فیروز خسرو‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ سراج الدین‘ محمد علی گوہر‘ عظمی جون‘ ضیا شاہد‘ ظفر بھوپالی‘ یاسمین یاس‘ سعد الدین سعد‘ الحاج نجمی‘ یاسر سعید‘ ڈاکٹر نثار‘ عاشق شوکی‘ اسد لکھنوی اور یاسر سعید نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس موقع پر فیروز خسرو نے اپنا بہاریہ مجموعہ کلام شعرا کرام کی خدمت میں پیش کیا۔
nn