رشد وہدایت پروفیسر عبدالحمید ڈار
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بنایا اور اسے فکر و عمل کی لامحدود قوتوں سے نواز کر اس قابل بنایا کہ وہ وسائلِ کائنات سے استفادہ کرکے اپنے لیے راحت و آرام کا سامان پیدا کرے۔ اس مقصد کے حصول کو ممکن بنانے اور اسے فساد اور خلل سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے ایک مفصل ضابطۂ حیات بھی عطا کیا۔ اس ضابطۂ حیات یعنی دین کو اس نے اسلام کا نام دیا اور فرمایا کہ آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور اسلام کو بطور دین کے تمہارے لیے پسند کیا۔ (المائدہ۔ 3)
’اسلام‘ امن اور سلامتی کا دین ہے۔ یہ دین انسان کے لیے سکون اور راحت کا ضامن ہے۔ اس کے اصولوں اور اقدار پر عمل پیرا ہونے سے انسان کو وہ سازگار فضا میسر آتی ہے جو اس کی خداداد صلاحیتوں اور مخفی قوتوں کو جِلا بخشنے اور پروان چڑھانے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اسی سے ایک مہذب اور متمدن معاشرہ ظہور میں آتا ہے جس میں بھلائیاں فروغ پاتی اور برائیاں نابود ہوجاتی ہیں اور انسان کو خلافتِ ارضی کی ذمہ داریاں بطریقِ احسن انجام دینے کا موقع ملتا ہے، اس ماحول میں وہ سکونِ قلب سے دنیوی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رب کے تقاضے پورے کرنے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی مہذب اور پُرسکون معاشرے کے قیام کے لیے انبیاء علیہم السلام کو مختلف اقوام میں مبعوث فرمایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی سلسلۂ رسل کی آخری کڑی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتھک سعی و جہد اور بے مثال ایثار اور قربانیوں سے ایسے ہی ایک صالح معاشرے کو تشکیل دیا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے اور اپنے اصحاب کے لیے سندِ رضا حاصل کی۔
لوٹ مار اور ڈاکا زنی افرادِ معاشرہ کے سکون و آرام کو غارت کردیتی ہے۔ ان کے ذہن و شعور پرہر وقت جان و مال کے اتلاف کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے جس سے ان کی خداداد تخلیقی صلاحیتیں اور پیداواری سرگرمیاں سکڑ کر رہ جاتی ہیں اور ان میں انسانی تمدن کے ارتقا کی منازل طے کرنے کا حوصلہ باقی نہیں رہتا۔ لوٹ مار، دہشت گردی اور ڈاکا زنی کے نتیجے میں صالح نظامِ حکومت کی بنیادیں متزلزل ہوجاتی ہیں اور معاشرہ اضمحلال اور پسماندگی کا شکار ہوکر بالآخر معدوم ہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فعلِ بد کی سنگینی اور شناعت کا مکمل ادراک حاصل تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ارتکاب کرنے والوں کو قطع تعلقی کی وعید سنائی۔ لوٹ مار اور غارت گری کا شکار ہونے والے خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، دونوں صورتوں میں لوٹ مار کرنے والوں پر آپؐ کی وعید کا اطلاق یکساں طور پر ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’مومن وہ ہے جس سے لوگ (مسلم و غیر مسلم) اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں بے خوف رہیں‘‘۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الفتن 3934)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوٹنے والا جب ایسی لوٹ کرتا ہے کہ لوگ اس کی طرف اپنی آنکھیں اٹھائیں (یعنی وہ عَلانیہ لوٹ کرے) تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، یعنی اس وقت ایمان اس کے سینے میں موجود نہیں ہوتا‘‘۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الفتن۔ 3936)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستگی ہر صاحبِ ایمان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ جو بدنصیب انسان خواہشات کا اسیر ہوکر ڈاکا زنی اور لوٹ مار کرکے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ رحمت سے محروم کرلے، اُس کی بدبختی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کے نتیجے میں اخروی عذاب کا وبال کیا ہوگا اسے اللہ ہی جانتا ہے۔ دنیا میں بھی ایسے لٹیروں اور اچکوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت سزائیں تجویز کی ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں، اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘۔[المائدہ۔ 33]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے‘‘۔ [ابن ماجہ۔ کتاب الفتن 3933]
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے اور فرماتے تھے ’’کیا عمدہ ہے تیری خوشبو اور کیسی عظمت ہے تیری، اورکیسی بڑی حرمت ہے تیری۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن کے مال اور اس کی جان کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔ [ابن ماجہ۔ کتاب الفتن 3932]
افسوس آج کے ڈاکوؤں اور لٹیروں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ دن دہاڑے ڈاکا زنی کرتے ہیں۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے، نہ مال اور عزت، نہ بچوں کو دیکھتے ہیں نہ عفت مآب عورتوں، بوڑھوں اور مریضوں کو چھوڑتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی وعیدوں سے بے خوف، آبادیوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ پُرامن شہریوں کی زندگیاں ان کے ہاتھوں اجیرن بن چکی ہیں۔ ان کی غارت گری، اور اغوا برائے تاوان کے ہتھکنڈوں سے ہر مہذب آدمی کا سکون برباد ہوچکا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو بدکردار لوگوں کو شریف اور پاکیزہ انسان بنانے آئے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بدقماش نام نہاد امتیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ رحمت کو اپنے اعمال سے داغدار کردیا ہے۔ غیر مسلم جو دینِ مبین کے پیروکاران کے حسنِ صدق و کردار سے متاثر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے اب ان کی درندگی اور بداعمالیوں کو دیکھ کر دین سے متوحش ہوتے ہیں۔ یہ جسدِ امت کا ناسور ہیں۔یہ اسی بات کے مستحق ہیں کہ انہیں کاٹ پھینکا جائے اور ان سے کامل بے تعلقی کا اعلان و اظہار کیا جائے۔
nn
سردی میں ادرک کا استعمال کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے
قدرت نے ادرک کے اندر نہ صرف بہت سی بیماریوں کا علاج پوشیدہ رکھا ہے بلکہ اس میں بے شمار خوبیاں بھی موجود ہیں، لہٰذا ادرک کا استعمال صحت کے لیے انتہائی مفید ہے، بالخصوص سردیوں میں۔ اس حوالے سے چند انتہائی اہم فوائد ہیں جو آپ کو بتائے جارہے ہیں۔
جسم کو گرم رکھنے کے لیے:
ادرک کے چند ٹکڑے 2 کپ پانی میں ڈال کر اُبال لیں، پھر اس میں شہد کے چند قطرے شامل کرکے دن میں 2 سے 3 مرتبہ پی لیں۔ یہ طریقہ سردی میں آپ کے جسم کو گرم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا اور ٹھنڈ سے بچائے گا۔
پیروں کو گرم رکھنے کے لیے:
ادرک نہ صرف جسم کو گرم رکھتی ہے بلکہ پیروں کو بھی گرم رکھنے کے لیے ادرک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک برتن میں پانی اور اس میں ادرک کے چند ٹکڑے ڈال کر ابالیں اور جیسے ہی پانی ٹھنڈا ہونا شروع ہوجائے، اُس میں 15 منٹ تک پاؤں ڈال کر رکھیں، اور دن میں 2 بار اس عمل کو دہرائیں۔
زکام اور کھانسی کے علاج کے لیے:
سردیوں میں نزلہ، زکام اور کھانسی عام سی بیماریاں ہیں لیکن اس کا بھی علاج ادرک میں موجود ہے۔ ایک چمچ شہد میں ادرک کے رس کے چند قطرے ڈالیں اور دن میں 2 سے 4 مرتبہ اس کا استعمال کریں۔
درد ختم کرنے کے لیے:
ادرک میں موجود خصوصیات ہر طرح کے درد کو ختم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا ادرک کو کھانے میں استعمال کریں یا پھر ادرک کی چائے پینے سے جسم میں درد اور سوزش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
نظام ہاضمہ اور پیٹ کے درد کے لیے:
ادرک نظام ہاضمہ کے مسائل کو ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ روزانہ ایک گرام ادرک کا استعمال پیٹ کے درد اور نظام ہاضمہ کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے پیٹ میں مستقل درد رہتا ہے تو ادرک کے رس کے چند قطرے استعمال کریں۔
دنیا میں کسی مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں
امریکی ارب پتی فلاحی کارکن اور ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں صحتِ عامہ کے مختلف نظاموں میں، تیزی سے پھیلنے والی کسی مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ پُرامید ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر وباؤں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، تاہم ان کے خیال میں فی الحال ہم قدرے غیر محفوظ ہیں۔ یاد رہے کہ بل گیٹس ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ کے شریک بانی اور ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے بانی ہیں۔ وہ دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں انھوں نے مائیکروسافٹ میں اپنے کردار کو وقت کے ساتھ ساتھ کم کرتے ہوئے اپنی توجہ فلاحی کاموں پر مرکوز رکھی ہے۔ وہ اور ان کی بیوی ’’بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ نامی فلاحی تنظیم چلاتے ہیں۔ اس تنظیم کے اہم ترین پروگراموں میں غریب ممالک میں بیماریوں کے خلاف ویکسینز تقسیم کرنا شامل ہے۔
بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ماضئ قریب میں ایبولا اور زکا وائرس کے پھیلنے سے جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی، اس سے عالمی سطح پر نئی ادویات اور ویکسینز بنانے کی صلاحیت کی کمزوری نمایاں ہوگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے تھوڑے پریشان رہتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ دس سالوں میں کوئی بڑی وبا دنیا میں نہ آئے۔ اس وقت دنیا بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ ہنگامی صورت حال میں تنظیمی اور قانونی حدود کی وجہ سے ہمارے ردِعمل میں آنے والی رکاوٹوں کو کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔
دفتری اوقات میں وقتاً فوقتاً چہل قدمی ضروری
ایسی لاتعداد رپورٹیں سامنے آچکی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ دفاتر میں 8 گھنٹے مسلسل بیٹھے رہنا صحت کے لیے نہایت مضر ہوتا ہے، لیکن اب ماہرین نے ان اثرات کو زائل کرنے کے لیے مشورہ دیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہر گھنٹے اپنی نشست سے اٹھ کر 5 منٹ واک ضرور کریں جس سے نہ صرف توانائی بڑھے گی بلکہ موڈ درست ہوگا اور بھوک کی شدت میں کمی ہوگی۔
حالیہ سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ دن میں کام روک کر کئی بار کھڑے ہونے اور چلنے پھرنے سے کام کا دباؤ زائل ہوتا ہے، مزاج اچھا اور توانائی بڑھتی ہے، ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے اثرات دن بھر رہتے ہیں اور ان سے بھوک کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دفتری امور کے سلسلے میں لوگ بہت دیر تک بیٹھے رہتے ہیں جس سے ذیابیطس، ڈپریشن، موٹاپا اور دیگر خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔