قومی قیادت اور مقتدر حلقوں پر اب واضح ہوچکا ہے کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے۔ ملک کا رقبے اور معدنیات کے لحاظ سے یہ بڑا صوبہ عشروں سے نظرانداز تھا۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے صوبے کی اہمیت اور قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس صوبے کا سینکڑوں کلومیٹر ساحل، گیس، تیل، کوئلہ، تانبا، سونا، لوہا اور مختلف معدنیات ہیں جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکی ہیں۔ ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ کا منصوبہ بلوچستان ہی سے قائم ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری دراصل گوادر ہی کا نام ہے جس سے شاندار مستقبل وابستہ ہوچکا ہے۔ سوئی گیس نے عشروں پاکستان کی معیشت کا پہیہ چالو رکھا۔ بالخصوص پنجاب کی صنعتیں اس گیس کی بدولت چلتی رہیں۔ ملک بھر کی گھریلو ضروریات سوئی گیس سے پوری ہورہی ہیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس خیال کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کیاگیا کہ سوئی گیس کے ذخائر محدود ہوگئے ہیں۔ اس طرح گویا بلوچستان سے توجہ ہٹائی گئی مگر جلد عیاں ہوا کہ بلوچستان قدرتی گیس سے مالامال خطہ ہے۔ 1950ء کی دہائی کے آغاز میں سوئی میں گیس دریافت ہوئی۔ اس کے بعد پیرکوہ اور لوٹی کے ذخائر دریافت ہوئے اور ڈیرہ بگٹی ہی میں اوچ کے مقام پر ایک اور بڑا ذخیرہ دریافت ہوا۔ دراصل حقِ اختیار کا حصول بلوچستان میں وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی شورشوں کی بنیاد ہے۔ غرض اس ذیل میں نئی خوش خبری یہ ہے کہ اب ڈیرہ بگٹی سے ملحقہ ضلع کوہلو میں گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ سوئی کے ذخائر سے بھی بڑے ہیں۔ ’’جندران‘‘ کا علاقہ مری قبائل کے علاقے کوہلو اور کھیتران قبائل کے علاقے بارکھان کے بیچ میں واقع ہے۔ کوہلو میں دہائیوں تک حکومتوں کو مشکلات درپیش رہیں جہاں نواب خیر بخش مری اپنے قبیلے کے تعاون و حمایت سے کسی کو تیل و گیس کی تلاش کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ سبی شاہرگ ریلوے سروس بند تھی۔ اسی طرح سبی کوہلو، ہرنائی اور بارکھان کو جانے والی شاہراہ پر مدتوں کام نہ ہوسکا۔ 2006ء میں سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بنا، یوں 2016ء میں 180کلومیٹر طویل شاہراہ کا افتتاح ہوا۔ یہ شاہراہ سبی، کوہلو سے رکھنی تک تعمیر ہوئی۔ گویا اب فورسز کو ان علاقوں میں اثر و رسوخ حاصل ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ تیل و گیس کی تلاش کا کام بھی زور و شور سے جاری ہے۔ جندران میں گیس کی دریافت سے ملک میں گیس کی قلت نہیں رہے گی، تاہم اس دریافت کی باقاعدہ سرکاری طور پر تفصیلات آنا باقی ہیں۔ ان علاقوں میں ماہرین نے تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت کی امید کا بھی اظہار کیا ہے۔ قلات کے علاقے ہربوئی میں بھی گیس کی تلاش کا کام جاری ہے۔ ہربوئی ایک پُرفضا مقام ہے۔ یہ علاقہ صنوبر کے قدیم جنگلات پر مشتمل ہے۔ ضلع خاران میں دریافت پر کام ہورہا ہے۔ آواران اور واشک کے علاقوں، داراپ، پلنتاک اور شاہو گڑی کے مقام پر پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، گیس کے ذخائر پر کام کررہی ہے۔ واشک کے ان علاقوں میں ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ذخائر کی دریافت متوقع ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ واشک اور اطراف میں پوشیدہ گیس کے ذخائر سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے بھی بڑے ہیں۔ غرضیکہ ملک کے قیام کے بعد عشروں حکومتیں غافل رہیں۔ نہ ملک کو ترقی دے سکیں، نہ بلوچستان کو، بلکہ بلوچستان کی صورت حال کا ادراک تک نہیں کرسکیں۔ کئی شورشیں اٹھیں لیکن حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو ان شورشوں کی وجوہات، اسباب و محرکات سمجھ میں نہ آسکے۔ حالانکہ بات بڑی سادہ تھی یعنی ’’اپنے وسائل پر اپنا اختیار‘‘۔ اگرچہ نواب خیر بخش مری کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، تاہم وہ صوبائی خودمختاری ہی چاہتے تھے۔ کسی موقع پر نواب مری مرحوم کہہ چکے تھے کہ ’’ہمیں تیل و گیس کی تلاش و دریافت پر ہرگز اعتراض نہیں مگر ضروری ہے کہ ہر کام ڈھنگ سے ہو، تیل و گیس سے پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے ممالک بھی مستفید ہوں، پر ان کو تو محروم نہ کیا جائے جن کی سرزمین سے یہ وسائل نکالے جاتے ہوں‘‘۔
ایک معروف اصول ہے کہ جس علاقے سے معدنیات دریافت ہو، اُس پر پہلا اور زیادہ حق اس علاقے اور وہاں کے باسیوں کا بنتا ہے۔ سوئی سے گیس نکلی، پنجاب اور دیگر علاقوں کے کارخانے چلے، گھروں میں چولہے جلے مگر ڈیرہ بگٹی آج بھی گیس سے محروم ہے۔ یہ ظلم اور ناانصافی نہیں تو اورکیا ہے؟ یہاں تک کہ بلوچستان کے دارالحکومت کو 1980ء کی دہائی میں گھریلو ضروریات کے لیے گیس فراہم کی گئی۔ نواب اکبر خان بگٹی نے اسٹینڈ لیا کہ اصول و ضوابط کی تجدید ہو، تو حاکم نے معاملات سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیئے۔ بدامنی کی ایک نئی فضا قائم ہوئی۔ بات چیت ہوئی مگر بے سود۔ یکطرفہ مفاد و ترجیحات مقدم نہ ہوتیں تو شاید بلوچستان میں نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اور اب امن و تحفظ پر سالانہ ہوش ربا رقم خرچ ہورہی ہے۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جہاں جہاں سے گیس دریافت ہوئی اور جہاں جہاں مزید دریافت پر کام ہورہا ہے، یہ تمام علاقے پسماندگی اور محرومیوں سے دوچار ہیں۔ ایران سے متصل علاقوں کو بجلی ایران سے دی جارہی ہے، اگر یہ بجلی دستیاب نہ ہوتی تو شاید ان علاقوں کے عوام اس جدید دور میں بھی چراغ جلانے پر مجبور ہوتے۔ ان تمام تر محرومیوں اور کسمپرسی میں بلوچستان کی اپنی قیادت برابر کی شریکِ جرم ہے۔ کوئی اپنا اختیار جان نہ سکا۔ حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سیندک اور ریکوڈک کے منصوبوں سے فوائد وفاق، چین اور کسی کمپنی نے ہی حاصل کیے، نہ کہ بلوچستان نے۔ گوادر پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے والا پلانٹ مئی سے خراب ہے۔ آنکاڑہ ڈیم خشک ہوچکا ہے۔ سنتسر سے ٹیوب ویلوں اور ٹینکروں کے ذریعے گوادر کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس پر یومیہ ستّر لاکھ سے زائد خرچ آتا ہے۔ لیکن مستقل بندوبست کی منصوبہ بندی میں تاخیر ہورہی ہے۔
(باقی صفحہ 41 پر)
شاید ان کی نیت یہ ہے کہ جب پورٹ پوری طرح فعال ہوگا، جب ایک نئی آبادی بس جائے گی تب ان کے لیے پیشگی بندوبست کردیا جائے گا۔ یعنی مقامی عوام کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں۔ چنانچہ صوبے کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو اپنے مفاد پر کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ زیادتی اور حق تلفی کا کوئی گوشہ نظر آئے تو اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ صوبائی خودمختاری حاصل کرنے کی آئینی و جمہوری جنگ ہونی چاہیے۔ گوادر بندرگاہ کے ثمرات اول اول بلوچستان کے عوام تک پہنچائے جائیں۔ ماضی کی حکومتوں نے اس بندرگاہ کو پرِکاہ برابر اہمیت نہیں دی، بلکہ یہ ساحلی علاقہ 1958ء تک ریاست مسقط وعمان کے زیر کنٹرول تھا، جسے پاکستان کے وزیراعظم فیروز خان نون کی مساعی سے پاکستان میں دوبارہ شامل کرایا گیا۔ ریاست مسقط و عمان کے شہزادے سید سلطان بن احمد بن سعید البوالسعیدی گوادر میں پناہ حاصل کی تھی۔ خان آف قلات میر نصیر خان نے1783ء میں اس شہزادے کی گزربسر کے لیے یہ ساحل عنایت کیا۔ 1861ء میں انگریزوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ گوادر اور پسنی کی بندرگاہیں انگریز استعمال کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد فیروز خان نون نے اسے مستقط و عمان کے سلطان سے حاصل کرلیا۔ گویا ریاست قلات کے والیوں کو بھی بندرگاہ کی دفاعی اور معاشی اہمیت و ضرورت کا ادراک نہ تھا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں انگریزوں، ولندیزیوں اور پرتگالیوں نے ہند کی بندرگاہوں پر اختیار حاصل کرکے اپنی دفاعی اور معاشی پوزیشن مزید مضبوط کرلی، بڑے بڑے بحری جہاز ان بندرگاہوں پر لنگرانداز ہوتے۔ اور ریاست قلات اپنے ساحل سے محدود پیمانے پر بھی فائدہ حاصل نہ کرسکی۔ بہرکیف جندران گیس ذخائر کی دریافت ایک بڑی خوشخبری ہے اور اللہ کا بڑا انعام ہے۔ چنانچہ مقصدِ بیان یہ ہے کہ بلوچستان کے حاکم صوبے کی آئینی خودمختاری اور فیصلہ سازی کے حق کے حصول پر کوئی سمجھوتا نہ کریں۔