حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔‘‘
یعنی انسان میں دوغلا پن آجاتا ہے۔ اس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا نہیں رہتا‘ وہ قابل بھروسا نہیں رہتا۔ امریکی گلوکار جمی ہینڈرک کے مطابق، تم لوگوں کو موسیقی سے ہپنا ٹائز کرسکتے و اور موسیقی کی مدد سے جب تم انہین ذہنی طور پر کمزور کر دو تو اب ان کے لاشعور میں ہر وہ بات پہنچا سکتے ہو جو تم چاہو۔ (حوالہ: لائف میگزین امریکا 1999)
گویا سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں موسیقی کے اثر سے مفلوج ہوجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو مختلف یونیورسٹیوں میں تجربات کیے گئے تو پتا چلا کہ لیبارٹری کی بھول بھلیوں (Maze) میں ان چوہوں کو راستہ پانے میں انتہائی دشواری پیش آئی، جہاں باپ میوزک چل رہا تھا۔
ٹینی ریاست امریکا کی نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن نے اپنی تحقیق سے نتیجہ نکالا ہے کہ ہر سال امریکا میں 6,000 نوجوان گانے بجانے کے اثرات سے متاثر ہوکر خودکشی کرتے ہیں۔ بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ نوجوانوں نے گانوں کی البم سننے کے بعد اپنے آپ کو گولی مار کر ہلاک کرلیا۔ معروف امریکی پاپ سنگر Ozzy Osboume کے گانے Solution کو سن کر خودکشی کی گئی، اس کے ایک گانے کا عنوان ہی موت کی حدود سے پیار ہے۔
گانوں سے حواس کا کھو جانا اور ایسے میں انتہائی غلط قدم اٹھا بیٹھنا عام ہے۔ علامہ ابن جوزی کتاب ’’ابلیس‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ گانے میں دو مضرتیں جمع ہیں، ایک طرف تو وہ قلب کو عظمت الٰہی پر تفکر کرنے سے روکتا ہے، دوسری طرف اسے مادّی لذت کی طرف راغب کرتا ہے، اسی لیے راگ رنگ سے زنا کی ترغیب ملتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں جب اسلام کی دعوت دلوں کو تسخیر کر رہی تھی، ایسے میں سرداران قریش سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ قرآن کے اثرات کا کیا توڑ کیا جائے کہ یہ دعوتِ قرآن جو دلوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے، اس کا رُخ بدل سکے۔ جھوٹے الزامات‘ طنز‘ تحقیر سب ضائع ہوچکے تھے، مادی لالچ نے بھی کام نہ کیا ایسے میں نصر بن حارث نے پکارا کہ میں اس کا وعدہ کرتا ہوں۔اب وہ مکے میں گانے بجانے والی لونڈیاں لے کر آیا اور رقص و موسیقی کی مجلسیں آباد کر دیں۔ قرآن کی دعوت پر کان دھرنے والوں کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کیا جاتا کہ وہ سنجیدہ موضوع سے ہٹ کر لغویات میں گم ہوجائیں۔
کلام پاک میں اس حقیقت کو سورہ لقمان آیت 6 میں بیان کیا گیا ہے:
’’اور انسانوں میں سے کوئی ایسا ابھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس آیت کی تفسیر میں تین بار قسم کھاکر کہا کہ خدا کی قسم اس سے مراد گانا ہے۔
اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچانے میں آج بھی موسیقی ایک سہارا ہے۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہی ہے کہ درودیوار سے موسیقی کی آوازیں آیا کریں گی۔ یہ موسیقی نہ صرف ذہنوں کو تعطل کرے گی بلکہ جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ہوگی۔
ایک امریکی محقّق پال کنگ کے مطابق، بلوغت کے وقت نوجوان لڑکوں میں صرف مردانہ ہارمونز کی وافر مقدار ہوتی ہے، جس سے دماغی فیصلہ کرنے کا نظام متحرک ہوجاتا ہے۔ سائنسی تجربات بتاتے ہیں کہ موسیقی سننے سے بھی دماغ کا یہی حصہ متحرک ہوجاتا ہے اور اس سے جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ عموماً نوجوان تشدد پر اتر آتے ہیں‘ ضبط نفس متاثر ہوتا ہے‘ خصوصیت سے پاپ میوزک ان جذبات کو بھڑکانے میں بہت اہم ہے۔ موسیقی کے اثرات سے نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے‘ موسیقی کا شوق رکھنے والے نوجوانوں میں درج ذیل اخلاقی کمزوریاں نمایاں دیکھنے میں آئی ہیں:
* والدین کی نافرمانی کرنا۔
* وقت سے پہلے شادی کی خواہش رکھنا۔
* ذمّے داریاں اٹھانے سے گریز کرنا۔
* گندی اور فحش زبان استعمال کرنا۔
* پڑھائی سے بے رغبتی برتنا۔
* سنجیدہ اور دینی گفتگو سے بے نیازی۔
جس قوم کے نوجوانوں کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہو تو اس قوم کا روبہ زوال ہونا ہی مقدر ہوتا ہے اور جس ریاست کا قیمتی سرمایہ بکھر جائے اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے!!