(سال نو (محمد عمر احمد خان

330

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدّت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کِسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہوگی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بَسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مُبارک بادیں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نِرالے ڈھب کی
nn

برے ماحول میں اچھی تربیت ممکن نہیں
بچّہ جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔اس کا ذہن خیالات سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ اس کورے کاغذ کی مانند ذہن پر ایمان و اخلاق کے پھول بنا نا یا دنیا پرستی کی لکیریں کھینچنا، سب والدین کا کام ہوتا ہے۔ معاشرہ اور والدین اس کی تربیت جن اصولوں پر کرتے ہیں، وہی اس کی آیندہ کی زندگی طے کرتا ہے۔ والدین کی اس تربیت میں دراصل ان کی اپنی خوش رنگ اُمیدیں بھی پنہاں ہوتی ہیں۔ ان کی آرزو ہوتی ہے کہ یہ بچّہ اعلی خصوصیات کا حامل ہو اور ان کے بڑھاپے کا سہارا اور سکون و راحت کا بنے۔ انھی اُمیدوں کے بل پر وہ اس کے لیے بخوشی بے شمار صعوبتیں اُٹھاتے اور تکالیف برداشت کرتے ہیں اور ذرّہ برابر بھی بیزاری کا اظہار نہیں کرتے۔ باپ کا اپنے بچّے کے لیے وسائل مہیّا کرنے کی خاطر جدوجہد کرنا، ماں کا بچّے کو دودھ پلانا، اس کے فضلات کو صاف کرنا، اس کی ہر صدا پر لبیک کہتے ہوئے دل وجان سے خدمت کرنا، اس کی ضروریات کے لیے دن کے علاوہ کئی کئی راتیں بھی جاگ کر گزارنا بلا شبہ کوئی معمولی کام نہیں۔۔۔لیکن بعض اوقات جب یہی بچّہ بڑا ہوتا ہے تو والدین کی تمام امیدوں پر پانی پھیردیتا اور اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر ان کی خدمت و اطاعت کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ دن رات ایک کرکے بچّے کی پرورش کے بعد یہ نتیجہ نکلنا یقیناً انتہائی مایوس کن ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے والدین خدا سے نافرمان اولاد کی شکایت کرتے اور بچّوں کو طعن و تشنع کرتے ہیں، مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے بچّے کی تربیت کس طرح کی؟ بچّوں میں اخلاقی بُرائیوں اوراس رویّے کے ذمّے دار اکثر بچّوں سے کہیں بڑھ کر خود والدین ہی ہوتے ہیں، کیوں کہ انھی کی تربیت کے نتیجے میں اس میں وہ خامیاں یا بُرائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم بچے کی تربیت خوف، ڈانٹ ڈپٹ، لڑائی جھگڑے اور بُرے ماحول میں کریں اور اس سے ایک اچھے کردار کی اُمید رکھیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ایک اچھی شخصیت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیاوی اور دینی دونوں حوالے سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بنیادی باتیں اچھی طرح سمجھ لیں اور ان خطوط پر اپنے بچوں کی تربیت کریں، جو روشن اسلامی کردار کی ضامن ہوں۔
اے رب العزّت، تمام والدین کو خطوط پراپنے نونہالوں کی بہترین تعلیم وتربیت کی توفیق عطا فرما، آمین!
nn

حصہ