ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی کی 2 تا 8 دسمبر 2016ء کی اشاعت میں شکیل عثمانی صاحب کا ایک مضمون ’’ جاوید غامدی اور جماعتِ احمدیہ لاہور مخمصے میں ‘‘پڑھا۔ ا س مضمون سے دو اور دو چارکی طرح یہ بات و اضح ہوجا تی ہے کہ جناب جاوید غامدی اور جماعتِ احمدیہ لاہور مسئلہ تکفیرکے بارے میں اپنے اختیار کردہ موقف کے سبب ایک مخمصے میں ہیں۔ ہماری دونوں سے اپیل ہے کہ جلدازجلد اس مخمصے سے نکل آئیں اورایک اصولی موقف اختیار کریں۔
جناب جاوید غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی بنیاددو کلیّے ہیں۔ اول احمدی موؤل (تاویل کرنے والا)ہیں اور موؤل کی(تاویل کرنے والا) تکفیر نہیں کی جاسکتی دوم قرآن کی رو سے تکفیر کے لیے اتمامِ حجت لازمی ہے اور اتمامِ حجت صرف اﷲ کے رسول ہی کرسکتے ہیں۔ اس لیے محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تکفیر کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے اوراب کسی فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں رہاکہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔جہاں تک احمدیوں کے موؤل ہونے کا تعلق ہے تو یہ سوال اٹھایا جاسکتاہے کہ کیا ہر قسم کے موؤل کا ایک ہی حکم ہے اور تاویل کس حد تک قبول کی جاسکتی ہے ؟یہ ایک طویل بحث ہے۔اس بحث میں اگر یہ ثابت بھی کردیا جائے کہ احمدی موؤل نہیں ہیں،توجاوید غامدی صاحب کاقرآن سے کشید کیا ہوا قانونِ اتمامِ حجت اس بحث کے نتیجے کو کالعدم کر دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ’’ قرآنی ‘‘قانون اتمامِ حجت ان کے جلیل القدراستادامام امین احسن اصلاحی کی سمجھ میں نہیںآسکا اور انھوں نے قادیانیوں کی تکفیر کر دی۔ استاذ امام نے نہ صرف قادیانیوں کی تکفیرکی بلکہ مصلحانہ جہاد اور ارتداد کی سزا کے بارے میں بھی جمہور کا موقف اختیار کیا، جب کہ قانون اتمامِ حجت کے تحت اِس دور میں غامدی صاحب مصلحانہ جہاد اور ارتداد کی سزا کے مخالف ہیں۔(یہ صرف اشارے ہیں تفصیل کے لیے قارئین غامدی صاحب کی کتابیں بالخصو ص ’’ میزان ‘‘ ملاحظہ فرمائیں)
جماعتِ احمدیہ کے بارے میں شکیل عثمانی صاحب نے اہلِ قبلہ کے حوالے سے حقائق پرمبنی دلائل دیے ہیں۔ہندستان میں برطانوی استعمار کے غلبے کے بعد جب احمدیوں کا کفر زیر بحث آیاتومتکلمین کے اس قول کا حوالہ دیا گیاکہ ہم اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے اور اس سے یہ مطلب کشید کیا گیا کہ جو شخص مکّے کے بیت اﷲکو قبلہ مانتا ہے، اسے کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں برصغیر کے ممتاز متکلّم مولانا محمد عبدالعزیز فرہاروی کی کتاب ’’النبراس شرح لشرح العقائد‘‘ سے ایک ا قتباس نقل کرکے اس دلیل کے تار و پود بکھیر دیے ہیں۔یہ ا قتباس اتنا اہم ہے کہ اسے یاد دہانی کے لیے قارئین کی خدمت میں دوبارہ پیش کرنا مناسب ہوگا۔ یہ خصوصیت سے ان قارئین کے لیے مفید ہوگا جن کی نظر سے عثمانی صاحب کا محوّلہ بالا مضمون ’’جنابِ جاوید غامدی اور جماعتِ احمدیہ لاہور مخمصے میں ‘‘ نہیں گزرا۔مولانا محمد عبدالعزیز فرہاروی لکھتے ہیں:
’’ہم اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے۔ اہلِ قبلہ سے لغوی اعتبار سے وہ شخص مراد ہے جو کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے یا اسے قبلہ مانے لیکن متکلّمین کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ضروریاتِ دین کی تصدیق کرے، یعنی ان امور کی جن کا ثبوت شرع سے معلوم و مشہور ہے۔ لیکن جس شخص نے ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا انکار کیا، مثلاً حدوثِ عالم کا، یا حشرِ اجساد کا یا اللہ تعالیٰ کے علمِ بالجزئیات کا، یا فرضیتِ صلاۃ و صوم کا، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہے، خواہ وہ طاعات میں مجاہدہ کرتا ہو۔ اسی طرح جس شخص نے ایسا کام کیا جو دین کی تکذیب کی علامات میں سے ہے جیسے بتوں کو سجدہ کیا یا کسی شرعی امر کی توہین و استہزا کا مرتکب ہوا، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہے۔ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان فقط اس وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا کہ اس نے گناہ کیا ہے‘‘۔
اہلِ سنت کے نزدیک ضروریاتِ دین کا انکار کرنے والے کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے، خواہ وہ تمام عمر اہلِ قبلہ میں سے رہا ہو۔
احمدیوں کامسئلہ اتنا سادہ ہے کہ قارئین یہ فیصلہ خود کرسکتے کہ احمدی ضروریاتِ دین کے منکر ہیںیا نہیں۔ ضروریاتِ دین میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری نبی ہونا شامل ہے۔مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے جانشین حکیم نور الدین صاحب کے انتقال کے بعد احمدیہ جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ایک دھڑاجس کی قیادت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے صاحب زادے مرزا بشیر الدین محمود کر رہے تھے، جماعتِ احمدیہ قادیان کہلایا۔(اب اسے جماعتِ احمدیہ ربوہ کہتے ہیں)جب کہ دوسرا دھڑاجس کے قائد متّحدہ جماعتِ احمدیہ کے ایک ممتاز رہنما،مولوی محمد علی لاہوری تھے، جماعتِ احمدیہ لاہور کے نام سے موسوم ہوا۔ مرزا بشیر الدین محمود گروپ کا عقیدہ ہے کہ نبوت جاری ہے، مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حقیقی نبی تھے اوران کی نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔مولوی محمد علی لاہوری گروپ کا کہنا ہے کہ بابِ نبوت بند ہے،مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مجدّد،مہدی معہود،اور مسیح موعود تھے اور ان کے دعوے کا منکر مسلمان ہے،اگرچہ فاسق ہے۔
اجرائے نبوت کے عقیدے کے سبب جماعتِ احمدیہ ربوہ کا مسئلہ تو صاف ہے کہ یہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جماعتِ احمدیہ لاہو رکا عقیدہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔اس کا کہنا ہے ’’ہم ہر اس شخص کو جولاالہ الااﷲمحمدرسول اﷲ کا اقرار کرتا ہے، مسلمان کہتے ہیں‘‘ اپنے اس عقیدے کے سبب جماعتِ احمدیہ لاہور،جماعتِ احمدیہ ربوہ کی تکفیر سے انکار کرتی ہے اورآ ں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداجرائے نبوت کے قائلین کو مسلمان قرار دیتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ ہوشکیل عثمانی صاحب کا مضمون ’’جنابِ جاوید غامدی اور جماعتِ احمدیہ لاہور مخمصے میں ‘‘اور مولوی محمد علی لاہوری صاحب کا کتابچہ (Sir Muhammad Iqbal’s statement regarding the Qadianis)
اس لیے اس کے بارے میں بھی شرعی حکم وہی ہوگا جو ‘جماعتِ احمدیہ ربوہ کے بارے میں ہے۔
جماعتِ احمدیہ لاہو ر کی ایک اوروجہ کفر یہ ہے کہ یہ حقیقتِ ثابتہ ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔وہ اپنے آپ کولغوی معنی میں ( پیشین گوئیاں کرنے والا) نہیں کہتے بلکہ اﷲ کا بنایا ہوا نبی قرار دیتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اﷲ نے انھیں نبی کے نام سے پکارا اور ان کا نام نبی رکھا۔نیز ان کا ارشاد ہے : ’ ’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا،مسلمان نہیں ہے۔‘‘اس سلسلے میں حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو مولانامفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا سمیع الحق کی مرتّبہ کتاب ’ ’قادیانی فتنہ اور ملتِ اسلامیہ کا موقف ‘‘۔ادارۃ المعارف کراچی نمبر14کی شائع کردہ اس کتاب کے سرورق پر عنوان کے نیچے خفی فونٹ میں لکھا گیا ہے :قومی اسمبلی پاکستان میں قادیانیوں کے بارے میں ملتِ اسلامیہ کا بیان،جس پرقادیانیوں کو متّفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا۔ اس کتاب کے مرتّبین کا کہنا ہے: ’ ’مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہے، لہذا اس کو کافر کہنے بجائے دینی پیشوا قرار دینے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔‘‘واضح رہے کہ جماعتِ احمدیہ لاہور مرزا صاحب کی تمام تحریروں کو درست سمجھتی ہے اور انھیں مجدّد،مہدی معہود،اور مسیح موعود مانتی ہے۔
آخر میں ہم بالخصوص جناب جاوید احمدغامدی صاحب سے گزارش کر تے ہیں کہ مسئلہ تکفیر کے بارے میں اپنے اختیارکردہ موقف کے سبب وہ جس مخمصے میں ہیں،اس سے جلد نکل آئیں۔