مطالعۂ سیرتِ نبوی، علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو بظاہر تحصیلِ حاصل معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ہم جس طرح اس فریضے سے غفلت برت رہے ہیں وہ محض اس وجہ سے ہے کہ اس کی حقیقی ضرورت و اہمیت کا احساس ہمارے دلوں سے محو ہوگیا ہے۔ ہماری زندگیوں کی نہج کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہمیں اس اہم خلاء کا احساس بھی کم ہوتا ہے جو ہماری زندگیوں میں مطالعۂ سیرت کے فقدان یا کمی کی بنا پر پیدا ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی تشکیل و تعمیر کے لیے حقیقی روشنی اور رہنمائی کے سرچشمے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اور یہ وہ محرومی ہے جس کا ذمہ دار خود ہمارے اپنے سوا کوئی نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ کی ضرورت و اہمیت ایک وسیع موضوعِ گفتگو ہے، جس کو کسی مختصر تحریر میں سمیٹنا مشکل ہے، تاہم راقم الحروف کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اس موضوع کے کچھ اہم پہلو آئندہ سطور میں پیش کرسکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار اور سیرت و شخصیت کے بارے میں قرآنِ مجید کی، اور درحقیقت خدائے بزرگ و برتر کی شہادت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔ سورۃ القلم آیت 4 میں ارشاد ہوا ہے:
وانک لعلیٰ خلق عظیم (اور آپ کے اخلاق بہت اعلیٰ ہیں)
اور پھر اسی پر کیا موقوف ہے، پورا قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کی زندہ شہادت اور تفسیر ہے۔ مشہور روایات کے مطابق، اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
’’قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہے۔‘‘
اسی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآنِ ناطق کہا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کس قدر عظیم اور انسانیت کے کس قدر ارفع و اعلیٰ مرتبے پر فائز تھی۔ اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اب اس حقیقت پر نگاہ ڈالیے کہ انسانی زندگی دراصل عمل سے عبارت ہے۔ یہ عمل انفرادی زندگی کے دائرے میں ہو تو آدمی کی سیرت و کردار اور افکار و خیالات کی عکاسی کرتا ہے، اور اجتماعی زندگی میں یہ معاملات، معاشرت، تمدن، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ زندگی کے ان دو دائروں میں انسان کے اندر ایک ایسے معیار کی فطری طلب اور احتیاج رکھی گئی ہے جس کے مطابق وہ اپنے افکار و اعمال کو ڈھال کر ایک بہتر اور کامیاب زندگی کی طرف بڑھ سکے۔ چنانچہ اس کی یہ فطری احتیاج اس کے اندر انسانوں میں سے کسی ایسی ہستی کی تلاش و جستجو کو جنم دیتی ہے جو اپنی ہر ادا میں مثالی سیرت و اخلاق کا مجسمہ اور حسنِ عمل کی منہ بولتی تصویر ہو، جس کی ذات میں زندگی کی جملہ خوبیوں اور بھلائیوں کو متشکل دیکھا جا سکے، جس کے افکار و اعمال کی میزان کو ہاتھ میں لے کر، اور اس کے ان افکار و اعمال کے اجتماعی ظہور کے خدوخال کو مثال بنا کر شخصی، معاشرتی اور تمدنی زندگی کی تعمیر کی جا سکے۔ انسان کی اس فطری طلب و احتیاج کی تسکین کو مدنظر رکھ کر جب ہم تاریخ انسانی کے اوراق پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو صرف ایک ہی شخصیت ایسی نظر آتی ہے جو انسان کی اس طلب کا صحیح ترین اور مکمل ترین جواب ہے اور جس کی ذات ہی دراصل انسانیت کا کامل ترین معیار ہے۔۔۔ خالص، بے لاگ اور بے مثل!
یہ شخصیت نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے، جس کا تعارف خود خالقِ کائنات نے اسے صاحبِ خلقِ عظیم کہہ کر کرایا ہے۔
کیسی انوکھی شخصیت اور بے مثال ذاتِ گرامی ہے وہ کہ قرآن مجید اس کو لوگوں کے سامنے مثالی شخصیت و کردار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ ایک صاحبِ ایمان جب اس سوال کا جواب چاہتا ہے کہ اس کامل و اکمل ہستی کا اخلاق و کردار کیا ہے؟ تو جواب میں اس کے سامنے اسی قرآن کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ عظیم کتاب ہی اُس صاحبِ خلقِ عظیم کا اخلاق ہے۔ گویا یہ بتایا گیا کہ اگر تمہیں قرآنِ عظیم کے معانی کا ادراک کرنا ہے تو نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوراقِ زیست کا مطالعہ کرو، اور اگر تم سیرت و اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلمکے جویا ہو تو قرآن کے صفحات و آیات کا مطالعہ کرو۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص قرآن کو صاحبِ قرآن کے بغیر سمجھنا چاہے تو یہ محض ایک خودفریبی اور فسادِ فکر و نظر ہے، اور اگر کوئی شخص قرآن کے اسرار و معانی تک رسائی حاصل کیے بغیر صاحبِ قرآن کی سیرت و کردار کے محاسن کی جلوہ آفرینیوں کا نظارہ کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی محض ایک خام خیالی ہے۔ قرآن اور صاحبِ قرآن میں سے کسی ایک سے بے نیاز ہوکر ہدایتِ ربّانی کی متاعِ گراں کسی طالبِ ایمان کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ اس لیے یہ ناگزیر امر ہے کہ طالبانِ رشد و ہدایت صاحبِ قرآن کے بلند پایہ اخلاق و عادات، بے مثل سیرت و کردار اور ارفع و اولیٰ افکار و تعلیمات کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور اس سے اپنے قلوب و اذہان کو منور کرنے کا سامان کریں۔
سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے:
(ترجمہ)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اورکثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، انسان کی یہ ایک فطری ضرورت ہے کہ وہ انفرادی سیرت کی تعمیر اور اجتماعی معاملات کی صورت گری کے لیے کسی معیاری اور مثالی شخصیت کے عملی نمونے کا طالب ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کیا ہے جو خدائے واحد پر ایمان لائے ہوں، آخرت میں اس کے سامنے کھڑے ہونے پر یقین رکھتے ہوں اور زندگی کی مہلتِ عمل کو اس کی یاد دلوں میں تازہ رکھتے ہوئے اور اس کی عطا کردہ ہدایت کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے گزارنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہوں۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اپنی دعوت کے آغاز سے لے کر آج تک اسلامی معاشرے کی مرکزی اور بنیادی شخصیت ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام و مرتبہ کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اگر کسی فرد یا گروہِ افراد کی زندگیوں کو بعض خاص اصولوں کے مطابق ڈھالنا مقصود ہو اور ان کی شخصیتوں کی تعمیر کسی خاص نظامِ فکر کے مطابق کرنا مطلوب ہو تو ان افراد کے سامنے محض ان خاص اصولوں اور نظریوں اور افکار و تعلیمات کو (خواہ وہ کتنی ہی تفصیل کے ساتھ کیوں نہ ہوں) پیش کردینا کبھی کافی نہیں ہوتا۔ اس غرض کے لیے ان کے سامنے کسی ایسے عملی نمونے کا موجود ہونا ضروری ہے جس کی ذات کے اندر وہ ان اصولوں اور نظریوں کو عملاً جلوہ گر دیکھ سکیں اور ان افکار و تعلیمات کی عملی کارفرمائی کا مشاہدہ وہ اس شخصیت کے واسطے سے کرسکیں۔ جب تک ایسی ایک شخصیت سامنے نہ ہو، آدمی کو بہت سے اصول محض قوّتِ متخیّلہ کی کرشمہ سازی ہی نظر آئیں گے اور ان کو عملی جامہ پہنانا ایک امر محال معلوم ہوگا۔ لیکن جب ایک شخصیت ان اصول و تعلیمات کا عملی پیکر بن کر سامنے آئے گی تو انسانی ذہن خودبخود ان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا اور ان کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کسی تشکیک کا شکار نہیں ہوگا۔ پس اسلامی نظامِ فکر اور ربّانی نظریۂ زندگی کے مطابق انسانی سیرت و کردار کی صورت گری کے لیے جس عملی نمونے کی ضرورت تھی وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتِ گرامی سے پیش فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جس نعمتِ ہدایت کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائی اس کے مطابق قلوب و اذہان کی تطہیر اور اخلاق و کردار کی تعمیر کا واحد ذریعہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا نمونۂ عمل ہے۔ چنانچہ رضائے الٰہی کی منزل کو پانے اور قرآن کا انسانِ مطلوب بننے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہر مومن مرد اور عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرے اور اس کی روشنی میں اِس طرح زندگی بسر کرے کہ گویا زندگی کے ہر مرحلے اور ہر معاملے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔
اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اگرچہ اہلِ ایمان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہِ حسنہ قرار دینے کے مفہوم میں یہ بات آپ سے آپ شامل ہے کہ اس اسوہ حسنہ کی پیروی بھی ہونی چاہیے، لیکن قرآن مجید میں اس کو وضاحت اور صراحت کے ساتھ لازم قرار دیا گیا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مثالی زندگی ہونے کی وجہ سے محض قابلِ تقلید ہی نہیں ہے بلکہ واجب التقلید بھی ہے اور اہلِ ایمان کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محض ایک عظیم الشان شخصیت اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تسلیم کرلیں، بلکہ ان کے لیے اس بات کا ماننا اور اس پر عمل پیرا ہونا بھی اشد ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت ہی دراصل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا۔‘‘( سورۃ آل عمران)
اور
’’جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا بیشک اس نے خدا کی اطاعت کی‘‘۔(سورۃ النساء)
چنانچہ جس ہستی کی اطاعت احکامِ الٰہی کی اطاعت کا واحد راستہ اور جس کی اتباع خدائے کریم کی خوشنودی کا واحد ذریعہ ہے اس کے پورے کارنامۂ حیات کے گہرے علم اور اس کی تعلیمات و ہدایات سے مکمل آگہی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن سکے اور رضائے الٰہی کے حصول کی منزلِ مراد کو پہنچ سکے!۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے:
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ’’اُمتِ وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔‘‘
اس آیت شریفہ میں اُمتِ مسلمہ کو ’’امت وسط‘‘ قرار دیا گیا ہے، اور امتِ وسط کی حیثیت سے اس کا بنیادی فریضہ لوگوں پر حق کی شہادت قائم کرنا ہے۔ نیز یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اس امت کے اوپر حق کی شہادت قائم کرنا ہے۔
معلوم ہوا کہ شہادتِ حق کا جو کٹھن فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں انجام دیا، بعینہٖ وہ فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی امت پر عائد ہوتا ہے۔ اور اس کے امتِ وسط ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے فریضے کو ادا کرے۔ اگر وہ اپنے اس اہم اور بنیادی فریضے کو ادا نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس جرم میں پکڑی جائے گی کہ اس نے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمام لوگ الٹا اس کے خلاف گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں جن تک دینِ حق کا صحیح پیغام اس کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے نہ پہنچ سکا ہوگا، بلکہ اس صورت میں تو اس کا یہ جرم، کہیں زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرجائے گا جب کہ دینِ حق کی صحیح شہادت ادا کرنا تو ایک طرف، اس امت کے بعض افراد یا گروہوں کا غلط طرزِعمل خدا کے سچے دین کی غلط نمائندگی کرنے اور اس طرح لوگوں کو اس سے برگشتہ کرنے اور دور ہٹانے کا سبب بنا ہو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہم نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی بنا پر ایک طرف ایک عظیم سعادت سے مشرف ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایک بڑی بھاری ذمہ داری کا بوجھ بھی ہمارے کندھوں پر ڈالا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سعادت کے سزاوار ٹھیرتے ہی اُس صورت میں ہیں جبکہ ہم اپنی ذمہ داری کو کماحقہٗ سمجھیں اور شہادتِ حق کے اس فریضے کو کمال احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں جو امتِ مسلمہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے۔ اس فریضے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہماری اوّلین ضرورت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ خاص طور پر اس رُخ سے کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے شہادتِ حق کا یہ گراں بار فریضہ کیسے ادا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی بحیثیت داعئ حق اور شاہدِ حق کے کن کن مراحل سے گزری ہے اور ہر مقام و مرحلے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بندگانِ خدا پر کس طرح حق کی شہادت قائم فرمائی۔ انفرادی دعوت سے لے کر اسلامی نظامِ حکومت کے قیام
(باقی صفحہ 41پر)
تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کن کن طریقوں سے لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلایا، اپنی شخصی زندگی سے اس دین کی نمائندگی کیسے فرمائی اور بالآخر کس طرح زندگی کا اجتماعی نظام اس دین کے مطابق قائم کرکے شہادتِ حق کی تکمیل فرما دی۔ ان سب چیزوں کا تفصیلی مطالعہ کیے بغیر نہ ہم شہادتِ حق کے وسیع تر تقاضوں کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ عملاً اس سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہماری یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے کہ سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مبارکہ کے جامع اور تفصیلی مطالعہ کا اہتمام کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا نقشہ اس کے مطابق مرتب کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ اس کے بغیر نہ ہم دنیوی کامرانی و سربلندی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں اور نہ اُخروی فوز و فلاح کی خوش بختی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔