ایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشہ کرشنؔ ، ایڈیٹر ’’پرتاب‘‘ کا ایک دعوت نامہ آیا جس میں لکھا تھا:
’’(فلاں) دن پروشنا (فلاں) سمت بکرمی میرے سُپّتر ویرندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں‘‘۔ (شُبھ چنتک کرشن)
(فلاں دن میرے بیٹے ویرندر کی سرمنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لاکر مجھ پر اور میرے خاندان پر مہربانی کریں)
مولانا نے آواز دی:
’’سالک صاحب! ذرا آیئے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب میری طرف سے آپ ہی لکھ دیجیے۔ برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ میں کہاں جاؤں گا۔ معذرت کردیجیے‘‘۔
میں نے اسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا:
’’جمیل المناقب، عمیم الاحسان معلی الالقاب، مدیرِ پرتاب
السلام علیٰ من التبع الہدیٰ
نامۂ عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا۔ ازبسکہ تقاطرِ امطار بحدے ہے کہ مانعِ ایاب و ذہاب ہے۔ لہٰذا میری حاضری متعذّر ہے۔
العُذر عِندَ کِرامِ النَّاسِ مقبول‘‘۔
الرّاجی الی الرحمۃ والغفران
ظفر علی خان
مہاشہ کرشن نے یہ خط پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ پلے پڑنا تو درکنار، وہ پڑھنے میں بھی ناکام رہے۔ آخر مولانا کو دفتر ’’زمیندار‘‘ ٹیلی فون کرکے پوچھا:
’’مولانا! آپ کا خط تو مل گیا، لیکن یہ فرمایئے کہ آپ آسکیں گے یا نہیں؟‘‘
اس پر مولانا ظفر علی خان نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور مہاشہ جی سے کہا کہ:
’’آپ کا خط میں نے ایک پنڈت جی سے پڑھوایا تھا۔ آپ بھی کسی مولوی صاحب کو بلاکر میرا خط پڑھوا لیجیے‘‘۔
(ماخوذ ’’نوادراتِ سخن‘‘ صفحہ 82، 83)
حکمت و دانائی
رفیع الزماں زبیری
فارابی
بہت بڑے حکیم اور فلاسفر تھے۔ ترکی النسل تھے۔ 872ء میں فاراب میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں بغداد میں مشہور عیسائی طبیب یوحنا سے تعلیم پائی۔ اس کے بعد سیف الدولہ ہمدانی کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔
فارابی ارسطو کی تصانیف کی شرح کے لیے بہت مشہور ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان کی بنا پر انہیں معلم ثانی کہا جاتا ہے۔ فارابی نے اخلاقیات، نفسیات اور سائنس کی یونانی کتابوں پر حاشیے لکھے اور صرف یونانی کتابوں کی ہی طرف توجہ نہیں دی، بہت سی کتابیں نفسیات، مابعدالطبعیات اور فلسفہ و حکمت پر بھی لکھیں۔
فارابی صرف حکیم اور فلسفی نہ تھے بلکہ ریاضی داں بھی تھے، طبیب بھی تھے اور ماہر موسیقی بھی، جس پر انہوں نے ایک اہم رسالہ لکھا تھا۔ 80 سال کی عمر میں دمشق میں ان کا انتقال ہوا۔ (دائرۃ المعارف اسلامی)
بسیار خوری تمام بیماریوں کی جڑ
خلیفہ ہارون الرشید کا ایک ذاتی معالج مذہباً عیسائی تھا۔ اس نے ایک مرتبہ خلیفہ کے دربار کے عالم شیخ علی بن حسین سے کہا کہ تمہارے قرآن میں علمِِ طب پر کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے جب کہ علم دو طرح کا ہوتا ہے (علم الادیان اور علم الابدان)۔ شیخ علی بن حسین نے جواب دیا کہ ہماری کتاب قرآن مجید نے تو تمام تر علم طب کو ایک آیت میں سمو دیا ہے:
ترجمہ: ’’کھاؤ پیو اور حد سے نہ بڑھو۔ (الاعراف: 31)
وہ عیسائی طبیب کہنے لگا: ’’اللہ کی قسم! تمہاری کتاب قرآن نے حکیم جالینوس کے لیے طب میں کوئی بات نہیں چھوڑی‘‘۔ (نفحۃ العرب)
سرکہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سرکہ بہترین سالن ہے‘‘۔
حضرت ام سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تنہا کے گھر میں موجود تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترسالن سرکہ ہے۔ اے اللہ، تُو سرکہ میں برکت عطا کر کہ یہ مجھ سے پہلے نبیوں کا سالن تھا، اور وہ گھر غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہوگا‘‘۔
سرکہ مختلف چیزوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ گنے کے رس، جامن، انگور، کشمش، گندم، جو۔ انسان قدیم زمانے سے سرکہ بنانے کے فن سے واقف ہے اور اس کے بنانے کی ترکیب میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ الہامی کتابوں میں اس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔
سرکہ ٹھنڈک اور حرارت کا حسین امتزاج ہے۔ یہ جسم سے خراب مادوں کو نکالتا ہے اور طبیعت کو فرحت دیتا ہے۔ معدہ کی سوزش کو دور کرتا ہے۔ جن لوگوں کو سینے میں بوجھ کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ان کو اس کے استعمال سے آرام آتا ہے۔ دانت کے درد میں گرم پانی میں ڈال کر غرارا کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اس طرح سرکہ غذا بھی اور دوا بھی۔ (طب نبوی)
نفسِ اَمارہ کی دیوار
ندی کے کنارے ایک اونچی دیوار بنی ہوئی تھی اور اس دیوار کے اوپر ایک پیاسا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی۔ بداوسان دیوار پر بیٹھا پانی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔اُس کے اور پانی کے مابین دیوار کی بلندی حائل اور مانع تھی۔
بر لب جو بو دیوار بلند
بر سرِ دیوار تشنہ درد مند
پیاس سے بے قرار ہوکر اور کچھ نہ سوجھا تو دیوار سے اینٹ اکھاڑ کر ندی میں پھینکی۔ اینٹ کے گرنے سے جو پانی کی آواز آئی تو اس کو بڑی فرحت محسوس ہوئی اور ایسی سریلی لگی کہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہوگیا۔
اس آواز نے اس کے جان و جگر میں شراب کی مستی پیدا کردی۔ اس نے دوسری اینٹ اکھاڑی اور پانی میں پھینک دی۔ اس مرتبہ آواز پہلے سے بھی زیادہ دلفریب اور جان نواز معلوم ہوئی، پیاسے کو اس قدر لطف آیا کہ دیوانہ وار دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر ندی میں پھینکنے لگا۔
پانی نے زبانِ حال سے کہا: ’’ارے شریف آدمی مجھے اینٹیں مارنے سے تجھے کیا نفلوں کا ثواب مل رہا ہے؟ اس فضول کی مشقت سے باز آ۔ اس میں تیرا کیا فائدہ ہے!‘‘ تشنہ لب نے یوں جواب دیا: ’’اے ندی کے شیریں اور ٹھنڈے پانی! اس میں میرے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ اینٹ پھینکنے کے بعد آواز آتی ہے تو اس سے میرے تنِ مُردہ میں جان پڑ جاتی ہے۔ یہ معمولی آواز میرے لیے دنیا کے بہترین ساز کی آواز سے بھی دلفریب اور سریلی ہے۔ پیاسوں کے لیے یہ آواز مثلِ سازِ خوش آواز ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس دیوار کی جتنی اینٹیں اکھاڑ کر ندی میں پھینکتا جاتا ہوں اسی قدر پانی سے قرب بڑھتا جارہا ہے اور دیوار کے گرانے سے جوں جوں فاصلہ کم ہوتا جارہا ہے محبوب سے وصل کا لمحہ قریب آتا جارہا ہے‘‘۔
’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘
جب تک تیرے نفسِ اَمارہ کی دیوار سر اُٹھاکر کھڑی ہے وہ سجدہ ادا کرنے میں مانع رہے گی۔
ھمیں غنیمت واں جوانی اے پسر
سر فرود آور بکن خشت و مدر
درسِ حیات: اے عزیزم! اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھ، اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک جا اور نفسِ اَمارہ کی دیوار کے ڈھیلوں اور اینٹوں کو اکھیڑ ڈال۔
(’’حکایاتِ رومی‘‘۔ مولانا جلال الدین رومیؒ )
سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنا ڈپریشن کا شکار بنا سکتا ہے
کوپن ہیگن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق فیس بُک اور ٹویٹر جیسی دیگر سائٹس پر بہت زیادہ وقت گزارنا ڈپریشن کا باعث بنتا ہے اور جذباتی کیفیات متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس تحقیق کے دوران 1100 افراد کی آن لائن عادات اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت فیس بُک کے صارفین کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زائد ہے اور یہ اس دور کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا سوشل نیٹ ورک ہے۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ فیس بُک ہماری روزمرہ زندگی پر کئی طرح سے اثرانداز ہورہا ہے۔
محققین کے بقول فیس بُک پر گزارے جانے والے وقت کا دورانیہ ذہنی کیفیات پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ عادت کسی بھی طرح دماغی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس بُک کا بہت زیادہ استعمال منفی طور پر اثرانداز ہوتا ہے اور ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ اس سے دوری دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنادیتی ہے۔محققین نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ فیس بُک سے مکمل دوری تو انتہاپسندی ہوگی تاہم اس کے استعمال کے دورانیے میں کمی لانے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف ذہنی امراض سے بچا جاسکے۔
جاپان میں مریض کو گٹھڑی میں بند کرکے علاج کا عجیب طریقہ
جاپان میں خراب انداز میں اٹھنے بیٹھنے سے متاثرہ جسم میں پیدا ہونے والی سختی اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے مریضوں کو ایک بڑی چادر میں گٹھڑی کی طرح لپیٹ کر ان کا علاج کرنے کا طریقہ بہت مقبول ہورہا ہے۔ جاپانی طویل اوقات تک سخت محنت کرنے میں مشہور ہیں اور اِس دوران اُن کی نشست و برخواست کا انداز (پوسچر) متاثر ہوتا ہے جس سے طرح طرح کی تکالیف مثلاً جوڑوں کا درد، سختی اور دیگر امراض پیدا ہوتے ہیں۔ مساج اور اعضا کو کھینچنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن جاپانی ماہرین نے اس کا بہتر حل تلاش کیا ہے، وہ مریضوں کو ایک بڑی چادر میں باندھ کر جسم کو اسی حالت میں رکھتے ہیں جس طرح ایک بچہ ماں کے پیٹ میں سکڑ کر سویا رہتا ہے۔ اسے بالغ افراد کو لپیٹنے (اڈلٹ باڈی ریپنگ) کا نام دیا گیا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اسے اپنا رہے ہیں۔ اس میں ایک باریک کپڑا بدن پر لپیٹا جاتا ہے تاکہ مریض کو سانس لینے میں تکلیف نہ ہو اور اسے 15 سے 20 منٹ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک میں بھی چھوٹے بچوں کو سکون دینے یا معمولی پیدائشی نقائص دور کرنے کے لیے انہیں اسی طرح لپیٹا جاتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ اب اسے بالغ افراد پر آزمایا جارہا ہے۔ اسے آزمانے والے خواتین و حضرات نے بہت مفید قرار دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کمر اور ہڈیوں کی لچک کم ہوتی جاتی ہے اور خود کو اس طرح گھٹڑی میں باندھنے سے بدن کو نہ صرف سکون ملتا ہے بلکہ ڈھانچے پر ہونے والے اثرات بھی کم ہوجاتے ہیں۔اگرچہ اس طریقے پر تنقید اور غیر سائنسی ہونے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے، لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک سیشن کی قیمت 3 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار روپے ہے۔
امریکہ میں نفسیاتی مسائل کا معالج 11 سالہ بچہ
نیویارک سب وے میں ہر اتوار کو ایک 11 سالہ بچہ لوگوں کو اُن کے نفسیاتی مسائل اور الجھنوں پر مشورے دیتا نظر آتا ہے جو صرف 2 ڈالر فیس لیتا ہے، جب کہ اس بچے کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس 11 سالہ بچے کا نام سائرو آرٹز ہے جو نیویارک سب وے اسٹیشن میں 5 منٹ مشورے کے 2 ڈالر وصول کرتا ہے۔ ہر اتوار کو آرٹز 2 گھنٹے کے لیے نیویارک میں بیٹھتا ہے اور لوگ اس سے مشورہ کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لوگوں نے آرٹز کو ’’جذباتی مشیر بچہ‘‘ قرار دیا ہے کیونکہ اس کی کچھ باتیں بالکل درست ہوتی ہیں اور لوگ اس کی کونسلنگ سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
آرٹز کو اسکول میں بچوں کی جانب سے لفظی تشدد کا نشانہ بنایا اور ستایا جاتا تھا جس پر اس نے بہت مشکل سے قابو پایا۔ اسی لیے اُس نے لوگوں کو بھی جذباتی کیفیات سے نکالنے کی ٹھانی اور انہیں قابلِِ قدر مشورے دینا شروع کردیئے۔کچھ لوگ خوف زدہ ہوکر اُس کے پاس آتے ہیں اور کچھ ازدواجی رشتوں کے بارے میں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ آرٹز کے مطابق اس کے والدین نے اس کی تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ ہر فرد کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کی درست رہنمائی کرتا ہے، جب کہ وہ اپنے اس کام سے ایک دن میں 50 ڈالر تک کما لیتا ہے۔
واٹس ایپ کا نام “whats up” سے لیا گیا ہے جس کا اردو میں معنی ’’کیا چل رہا ہے‘‘ کے ہیں۔ واٹس ایپ کو آپ مستقبل کا سوشل میڈیا بھی کہہ سکتے ہیں جس کی وجہ اس کے جدید فیچرز ہیں۔ واٹس ایپ کا ہیڈ کوارٹر ماؤٹین ویو، کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ پہلے پہل واٹس ایپ iOS آپریٹنگ سسٹم رکھنے والے اسمارٹ فونز کے لیے ہی دستیاب تھا، بعدازاں اس کی بڑھی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر پہلے بلیک بیری، پھر اینڈرائیڈ اور آخر میں ونڈوز کے لیے بھی الگ سافٹ ویئرز متعارف کروا دیئے گئے۔
واٹس ایپ سے وائس کال، ویڈیو کال، ٹیکسٹ میسج، PDF فائلیں، تصویریں، اپنا مقام، آڈیو اور ویڈیو فائلیں بھی بھیجی سکتی ہیں، لیکن یہ سب تو آج کی بات ہے۔ اس سے قبل یعنی 2008ء سے 2009ء تک یہ فیچرز دستیاب نہ تھے۔ واٹس ایپ کو مشہورِ زمانہ سرچنگ اور سوشل ویب سائٹ ’’یاہو‘‘ کے ملازمین برین ایکٹن اور جین کوم نے ڈیزائن کیا۔ 2007ء میں یاہو سے مستعفی ہونے کے بعد دونوں دوستوں نے اپنا ذاتی سافٹ ویئر ڈیزائن کرنے کا سوچا جس کے لیے وہ جنوبی امریکہ پہنچے، یہاں انہوں نے فیس بُک اور ٹویٹر میں نوکری کے لیے کئی بار تگ ودو کی لیکن ناکام رہے۔ اسی اثناء میں جین کوم نے ایک روسی ڈویلپر کے ساتھ مل کر واٹس ایپ ڈیزائن کیا اور جلد ہی اسے iOS کے ایپ اسٹور پر ریلیز کردیا۔ ریلیز کے کچھ عرصے بعد ہی واٹس ایپ دنیا بھر میں مقبول ہوگئی، یہاں تک کہ 2009ء میں دنیا کی سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی میسجنگ ایپلی کیشن بن گئی۔ 2013ء تک واٹس ایپ پر تقریباً 200 ملین صارفین سرگرم رہے۔
اس دوران اعداد وشمار کی ذمہ داری 50 ملازموں پر مشتمل اسٹاف پر تھی۔ 2014ء میں صارفین کی تعداد بڑھ کر 500 ملین تک پہنچ گئی۔ اپریل 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ صارفین ہر روز 700 ملین تصویریں، 100 ملین ویڈیوز، 10 بلین میسج کیا کرتے تھے۔ جین کوم نے واٹس ایپ کو اِن کارپوریٹ کروایا اور 19 فروری 2014ء کو 19.3 بلین ڈالر میں فیس بُک کو فروخت کردیا۔ 19.3 بلین کی بھاری رقم خریداری میں دنیا کی تاریخ کی سب سے زیادہ صرف کی جانے والی رقم تھی۔ بقول جین اور کوم اگر فیس بُک یا ٹویٹر انہیں اپنے پاس ملازمت دے دیتے، تو ان سے بے شمار فائدے اٹھا سکتے تھے۔ فیس بُک نے واٹس ایپ میں ہر وہ چیز شامل کی، جس کی عام مواصلاتی زندگی میں لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ 70 فیصد کے قریب واٹس ایپ صارفین روزانہ کی بنیاد پر آن لائن ہوتے ہیں۔
واٹس ایپ کے مطابق ہر روزتقریباً ایک ملین نئے صارف شامل ہوتے ہیں۔ واٹس ایپ، اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز میں تیسری سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے۔ واٹس ایپ اب کمپیوٹر پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے اسمارٹ فون سے صرف ایک QR کوڈ اسکین کرنا ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں ایک بلین دفعہ ڈاؤن لوڈ ہونے کے دوران کوم سمیت صرف 4 لوگ واٹس ایپ کے تمام اعداد وشمار سنبھالے ہوئے تھے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ٹویٹر اور فیس بُک کی طرف سے رد کیے جانے پر برین ایکٹن نے ٹویٹ کیا کہ ’’یہ میرے لیے ایک بڑا موقع تھا کہ میں فیس بُک یا ٹویٹر کے باکمال اسٹاف کے ساتھ کام کرتا، لیکن ایسا نہ ہوا، پھر بھی میرا ایڈونچر ابھی باقی ہے‘‘۔ اور دلچسپ بات یہ کہ ایکٹن کے اس ٹویٹ کے کچھ عرصے بعد وٹس ایپ کا قیام عمل میں آیا۔