1970ء کے انتخابات اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سربراہی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت 1972ء میں قائم ہوئی تو عبدالحفیظ پیرزادہ کابینہ کے نوجوان رکن تھے۔ سکھر کے معزز خانوادے سے تعلق رکھنے والے حفیظ پیرزادہ کے والد پیرزادہ عبدالستار پاکستان کی پہلی کابینہ کے رکن تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پیشے کے اعتبار سے ماہر قانون کی حیثیت سے دستور سازی میں خصوصی کردار ادا کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک چلائی، بالآخر پی این اے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تو حکومت کی ٹیم میں ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا کوثر نیازی کے ساتھ حفیظ پیرزادہ بھی شامل تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین دور میں دستور سازی سے لے کر مذاکرات تک پروفیسر غفور احمد کے ساتھ حفیظ پیزادہ کے تعلقات اور مراسم رہے۔ اس حوالے سے ان کے متفقہ آئین کی منظوری میں پروفیسر غفور احمد کے کردار کے حوالے سے اپنی زندگی میں راقم کو ایک دیے ہوئے انٹرویو کے اقتباسات ذیل میں دیے جارہے ہیں
* ** *
پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات 1970ء کے عام انتخابات کے وقت ہوئی تھی۔ اور اس دوران کئی مرتبہ خیالات کا تبادلہ ہوا۔ لیکن 1970ء کا جو بحران آیا اس کے نتیجے میں سقوطِ مشرقی پاکستان ہوگیا۔ اس دوران ہم نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ ہمارے نظریات مختلف تھے۔ ان کا اور ان کی جماعت کا تعلق دائیں بازو سے تھا اور ہم ایک لبرل لیفٹ جماعت تھے۔ پیپلزپارٹی نئی جماعت تھی۔ 1970ء کے بحران میں ان کا نظریہ الگ اور ہمارا الگ تھا، ہماری سوچ مختلف تھی اور یہ پولرائزیشن کا زمانہ تھا۔اس لیے ایک دوسرے پر تنقیدیں بھی ہوتی تھیں ،لیکن جب مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور آئین سازی کا کام شروع کیا تو ہمارے رابطے اور بڑھ گئے کیونکہ غفور صاحب اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر تھے۔ میں منسٹر آف لا تھا۔ پھر قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی بنی اورمیں اس کا چیئرمین بنا تو پھر بڑے قریبی تعلقات ہوگئے اور میں نے یہ دیکھا کہ باوجود اس کے کہ ہمارے نظریات میں فرق تھا پھر بھی میں نے ان کو لبرل پایا۔ وہ rigidنہیں تھے۔ ہمیشہ Open to Conversation تھے، بیٹھ کر بات کرتے تھے۔ جو بھی قوانین، پالیسیاں، تجاویز ہوتی تھیں ان کو وہ کھلے دل کے ساتھ قبول کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ اچھی چیز ہے، اور اس پر میں ساتھ دوں گا۔ 1970ء سے لے کر 1977ء تک ہمارے تعلقات بہت قریبی ہوگئے۔ میرے دل میں ان کے لیے ہمیشہ احترام رہا، ا ن کے نکتہ نظر سے میں متاثر تھا۔ جب بھی وہ کوئی بات کرتے تھے تو میں دو تین مرتبہ سوچ کر جواب دیتا تھا۔ میں نے ان کی باتوں کو یکسر کبھی مسترد نہیں کیا۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ 1977ء کے بحران کے بعد ہماری سوچوں میں فرق آیا۔ ان کی جماعت ضیاء الحق صاحب کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے چلی گئی، اس سے پہلے پاکستان نیشنل الائنس بنا، 1977ء کے انتخابات کے بعد ہمارے تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ اس دوران حل ڈھونڈنے کے لیے مذاکرات ہوئے۔ اس میں اہم کردار پاکستان نیشنل الائنس کی طرف سے پروفیسر غفور صاحب نے ادا کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے میں نامزد تھا، اور اس سلسلے میں ہم ون آن ون کئی مرتبہ ملے۔ مارشل لاء آنے کے بعد پھر ہم جیلوں میں رہے، جلا وطنی میں بڑا عرصہ گزارا۔ 1977ء سے 1988ء تک جب ضیاء صاحب کا جہازکریش ہوا تو پھر جمہوری سیاست کے قریب آئے، اس کے بعد بھی بڑے قریبی تعلقات رہے۔
آئین سازی میں چار پانچ افراد نے بہت اہم کردار ادا کیا، اگر ان کی کھلے دل سے مدد نہ ہوتی تو شاید یہ آئین متفقہ طور پر منظور نہ ہوسکتا۔ اس میں پروفیسر غفور صاحب بھی تھے، مولانا ظفر احمد انصاری بھی تھے، سردار شوکت حیات تھے، غوث بخش بزنجو تھے، مولانا مفتی محمود بھی تھے لیکن ایک حد تک۔ بھٹو صاحب پروفیسر غفور کو مانتے تھے کہ ان کے اندر بڑی اہلیت ہے، قابلیت ہے، اصول پسند ہیں۔ ان ہی کا فیصلہ تھا کہ آپ دونوں (غفور صاحب، عبدالحفیظ پیرزادہ) کراچی سے ہیں، دونوں وہاں سے منتخب ہوئے، آپ ون آن ون بات چیت کریں۔
پی این اے کی ٹیم کے ساتھ ہماری ٹیم کی میٹنگز ہوتی تھیں، اس میں ان کو 9جماعتوں کا نقطۂ نظر پیش کرنا ہوتا تھا، وہ کافی تیاری کے ساتھ آتے تھے، اس میں ہر ایک کے اپنے خیالات ہوتے تھے۔ سیاسی بات نواب زادہ صاحب کرتے تھے یا مفتی محمود۔ لیکن ایشوز پر بات چیت پروفیسر صاحب کرتے تھے اور وہ تیاری کے ساتھ آتے تھے۔ میری بھی یہ عادت رہی ہے کہ جب بھی کسی میٹنگ میں جاتا ہوں پوری تیاری کرکے جاتاہوں۔ ہم دونوں باہمی رابطہ کرتے تھے، دونوں ٹیموں کے ساتھ بھی اور اکیلے میں بھی، ہم ایک دوسرے سے انفرادی بات چیت بہت کرتے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان کو ذہین پایا اور وہ اپنے ایجنڈے اور شیڈول پر تیار ہوکر آتے تھے۔
کبھی کسی نے غفور صاحب اور ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی کہ آپ نے کوئی غلط کام کیا ہے۔ یہ ان کی خصوصیت تھی۔ اس وجہ سے میں ان کے بہت قریب بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اتنے بلندپایہ سیاست دان اور لیڈر تھے کہ ان کو جماعت اسلامی کا امیر بننا چاہئے تھا، مجھے کافی تکلیف ہوئی تھی جب وہ امیر نہیں بنے، میری ان سے بات بھی ہوئی، میں نے کہاکہ غفور! یہ ناانصافی ہوئی ہے، آپ کی جماعت نے اپنے ساتھ بھی ناانصافی کی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں تو کام کرتا رہوں گا۔
کھلا ذہن جس کو کہتے ہیں وہ سیاست کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ اگرکوئی سیاست دان سخت گیر ہوجائے، دوسرے کا نکتۂ نظر تسلیم نہ کرے تو پھر اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ پروفیسر صاحب کھلے ذہن کے آدمی تھے، اگر آپ ان کو قائل کرلیں تو وہ مان لیتے تھے۔ میں نے آپ سے کہا کہ چند لوگ تھے جنہوں نے میرے ساتھ تعاون کیا اور ہم نے ایک متفقہ آئین دیا۔23مارچ کو جو واقعہ لیاقت باغ (راولپنڈی) میں ہوا تھا جس میں بہت ساری جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ حزب اختلاف نے 23مارچ 1973ء سے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ آئین بننے کے قریب آرہا تھا،دوسری خواندگی چل رہی تھی، ایک رہ گئی تھی۔ لیکن میرے ساتھ ان کے مذاکرات جاری رہے۔ اپوزیشن سے ملنا میں نے کبھی نہیں چھوڑا۔ اگر آپ دیکھیں کہ جس دن آئین منظور ہوا ہے بھٹو صاحب نے پہلی تقریر کی، انہوں نے اس چیز کا ذکر کیا کہ میں نے کبھی بھی اپوزیشن کے لیے بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے، میں ملتا رہا چاہے بھٹو صاحب کو علم تھا یا نہیں تھا، ان میٹنگوں کے درمیان میں نے جب اپوزیشن کی باتیں مان لیں کہ جب ہم 13ترامیم پاس کریں گے تو یہ آجائیں گے، میں نے کہا ٹھیک ہے،کیا آپ ووٹ دیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا:نہیں۔ میں نے کہا: میں یہ تیرہ ترامیم پاس کردیتا ہوں آپ آجائیے۔ اس دوران لوگ اسپیکر صاحب کے کمرے میں جاکر بیٹھے۔ اس میں غفور، بزنجو، سردار شوکت حیات، مولانا ظفر احمد انصاری کا اہم کردار تھا۔ جیسے ہی میں نے ترامیم منظور کروائیں، یہ ریکارڈ ہے قومی اسمبلی کی بحثوں کا، یہ اندربیٹھے سن رہے تھے، اٹھ کر حصہ لینے چلے آئے، اور انہوں نے بائیکاٹ کو توڑ دیا۔ ابھی تک اس کی ٹیپیں اسمبلی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ بڑی زبردست ڈیسک بجائی گئی۔ میں نے خطاب کیا، غفور صاحب کی تقریر ہوئی، جب ووٹ کا وقت آیا تو تین آدمی تھے جن کی طرف میں نے دیکھا۔ آپ اندرآگئے ہیں، آپ کی ترامیم منظور کی جاچکی ہیں اب کیا وجہ ہے کہ آپ ووٹ نہیں دے رہے ہیں؟ غفور، بزنجو، سردار شوکت حیات تمام اپوزیشن کے اوپر حاوی ہوگئے۔ Positiveووٹ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر باقی آہستہ آہستہ اٹھ گئے جو نہیں اٹھ رہے تھے۔ ولی خان صاحب ایوان میں بیٹھے رہے۔ میں نے خان صاحب کی طرف دیکھا، دونوں ہاتھوں سے اشارے کیے، میں نے کہا کہ آپ اٹھیں اور Positiveووٹ دیں۔ انہوں نے کہا کیوں؟ میں نے کہا آپ چاروں طرف دیکھیے۔ ایک طرف ان کے پیچھے بزنجو تھے، ایک طرف پروفیسر غفور تھے، سردار شوکت حیات تھے۔ پھر خان صاحب مجبوراً کھڑے ہوگئے۔ یہ غفور صاحب کا بہت بڑا تعاون اور مدد تھی جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اگر آپ کا یہ آئین جس کے لیے آج بھی ہم لڑ رہے ہیں متفقہ نہ ہوتا تو کبھی بھی اتنے مارشل لاء کے باوجود باقی نہ رہتا۔ اس لیے میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔کسی بات پر قائل ہوتے تو ان کو اس کا اظہار کرنے میں کوئی شرم یا دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ کہہ دیتے تھے کہ ہاں میں غلط تھا، آپ درست ہیں۔ یہ تھا ہمارا رشتہ۔بعد میں کئی سیمینارز یا تقاریب میں غفور صاحب سے ملاقاتیں رہیں۔ دو تین مرتبہ میرے گھر آئے۔ ایک دو مرتبہ میں اُن کے دفتر بھی گیا۔
[عبدالحفیظ پیرزادہ کا زیر نظر انٹرویو۔ مرتبہ کتاب: پروفیسر عبدالغفور احمد۔ رفتہ ولے نہ از دلِ ما، میں شامل ہے۔ جسے سید عامر اشرف نے مرتب کیا ہے اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے]
nn