(کہاں سے کمایا ،کہاں خرچ کیا(افروز عنایت

332

بہو نے اپنا سگھڑپنا دکھانے کے لیے ساس سے کہا ’’امی، رات کا بہت سا سالن بچ گیا تھا، آج دوپہر میں اس کا پلاؤ بنا لیں؟‘‘ ساس نے نئی نویلی بہو کو بڑی ناگواری سے دیکھا اور کہا ’’اے لو، اب باسی کھانا ہمیں کھلاؤ گی!‘‘
بہو: ’’پھر امی اس سالن کو۔۔۔؟‘‘
ساس: ’’پھینک دو، اور کیا کرو گی!‘‘
بہو: ’’پھینک دوں۔۔۔؟‘‘
بہو نے وہ سالن ایک شاپر میں ڈال کر فریزر میں رکھ دیا کہ صبح ماسی کو دے دوں گی۔ ایک گھنٹے کے بعد ساس نے کسی کام سے فریزر کھولا تو شاپر دیکھ کر ناراض ہوئیں اور اسے جاکر کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا۔ یہ سب دیکھ کر بہو کو بڑی حیرانی ہوئی، کیونکہ اس کی والدہ نے اسے ہمیشہ رزق کی قدر کرنے کی تعلیم دی تھی۔ اگلے چند دنوں کے بعد ساس کی ایک دیرینہ دوست ان سے ملنے آئیں۔ بہو نے ان کی خاطر مدارات کے لیے چائے کے ساتھ چھ سات شامی کباب بھی تل لیے اور مہمان کو پیش کیے۔ ساس نے غصے سے بہو کو دیکھا اور دو شامی کباب نکالے، ایک اپنی پلیٹ میں اور ایک مہمان کی پلیٹ میں ڈال کر کہا: ’’اتنے سارے کباب کیوں فرائی کیے ہیں؟‘‘
بہو سمجھ نہ سکی کہ ساس کیا چاہتی ہے۔ کہاں تو ڈھیر سارا کھانا بنوا کر اسے ضائع کردینا، اور پھر اتنی کنجوسی کہ مہمان کے آگے صرف ایک کباب رکھنا۔ زندگی میں اخراجات کے معاملے میں اعتدال اور میانہ روی یعنی توازن لازمی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری تھیں۔ لاکھوں روپے خرچ ہوچکے تھے لیکن ابھی تیاری مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ آج بیگم صاحبہ نے شادی کی مختلف تقریبات کی لسٹ شوہر کے ہاتھ میں تھمائی۔ دو ڈولکیاں، میلاد، مایوں، مہندی، شادی کی تقریب۔
’’بیگم یہ۔۔۔ یہ چار پانچ تقریبات؟ اس کے اخراجات کے بارے میں تمہیں کچھ اندازہ ہے؟‘‘
ثمینہ: ’’آپ کہاں رہتے ہیں عادل صاحب! ذرا اپنے آس پاس نظر دوڑائیں، ابھی راشد صاحب کی بیٹی کی شادی پچھلے مہینے تو ہوئی ہے، اُن کے یہاں چھ فنکشن تھے، سب کتنی تعریف کررہے تھے۔ باہر سے گلوکار اور فنکار بلائے گئے تھے شادی میں۔‘‘
شوہر: ’’بیگم ان کا بہت بڑا کاروبار ہے۔‘‘
بیوی: ’’عادل! میری دو ہی بیٹیاں ہیں، ہمارا یہ سب کچھ ان ہی کا ہے۔ کل کو انہیں کوئی طعنہ دے ہماری کنجوسی کا۔۔۔ نہ اُن سے اور نہ مجھ سے یہ برداشت ہوگا۔‘‘
شوہر: (حیرانی سے) ’’کنجوسی۔۔۔ یہ تمہاری شاہ خرچیاں۔۔۔ یہ کنجوسی ہے تو۔۔۔‘‘
بیوی: ’’بس۔۔۔ بس یہ سب انتظام تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا۔ وہ پلاٹ ہے ناں، اسے بیچ دیں انتظام ہوجائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارم: ’’امی مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے۔‘‘
امی: ’’دس ہزار؟ کس لیے بیٹا! ابھی پچھلے مہینے بھی تم نے جیب خرچ کے علاوہ پانچ ہزار لیے، اور اب یہ دس ہزار۔‘‘
ارم: ’’بیلا کی سالگرہ ہے، مجھے نیا ڈریس بنوانا ہے اور اُس کے لیے گفٹ بھی خریدنا ہے۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ پچھلے مہینے زیب کی شادی کے لیے جو سوٹ بنوائے تھے ان میں سے پہن لوں۔ میں نے نیٹ پر زبردست ڈیزائن کا جدید سوٹ دیکھا ہے۔ سستا ہے، صرف آٹھ ہزار کا۔ یونیورسٹی کی ساری دوستوں نے نئے سوٹ بنوائے ہیں، میں نہ بنواؤں!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تقریب میں تیس پینتیس قسم کے کھانے تھے۔ ہر ٹیبل پر لوگوں کا ازدحام۔ ہاتھوں میں دو دو پلیٹیں جو لبالب کھانوں سے ابل رہی تھیں۔ ایک صاحب جو دبلے پتلے اور نحیف سے تھے، اپنی ٹیبل پر دو تھالیاں بھر کر رکھ آئے تھے اور مزید دو تھالیاں بھررہے تھے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے شوہر سے نہ رہا گیا، بولے ’’جناب یہ سب آپ کھا سکیں گے؟ اتنا لیں جتنا آپ کے پیٹ کو ضرورت ہو، یہ سب تو ضائع جائے گا‘‘۔ ان صاحب نے بڑی لاپروائی سے کہا کہ تھوڑا لوں گا اور اگر ضرورت پڑے گی، آؤں گا تو سارے برتن خالی ہوچکے ہوں گے کیونکہ سب نے ہی اپنی اپنی تھالیاں اسی طرح بھری ہیں۔ جب ہم اس تقریب سے رخصت ہورہے تھے تو میں نے میزوں پر ایک نظر ڈالی، جتنا لوگوں نے کھایا تھا اس سے دگنا برتنوں میں جھوٹا پڑا تھا جو کچروں کے ڈبوں میں انڈیلا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’وجاہت مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے‘‘۔ وجاہت صاحب نے ناگواری سے صبا کو دیکھا اور پوچھا ’’کس لیے؟‘‘
صبا: ’’اسد بھائی کے بیٹے کی شادی ہے۔ سبین کے لیے کپڑے بنوانے ہیں۔‘‘
وجاہت: ’’تم عورتیں تو فضول خرچ ہو، سمجھتی ہو جیسے پیسے درختوں پر لگے ہوئے ہیں۔ ابھی تو دو جوڑے اسے بنوا کر دیے تھے۔‘‘
صبا: (ہنستے ہوئے) ’’جی وہ ’’ابھی‘‘ کو ایک سال سے اوپر ہوگیا ہے۔ دس مرتبہ خاندان کی تقریبات میں وہ یہی کپڑے دہرا چکی ہے، اب تو ان کی چمک بھی ماند پڑ چکی ہے۔ ویسے بھی اب وہ جوان بچی ہے، اس کے پہننے اوڑھنے کی عمر ہے۔ اور بچیاں بنی سنوری ہوں تو دوسروں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں، یہ خاندان کی تقریب ہے، سب سے ہی ملاقات ہوگی۔‘‘
وجاہت: (غصے سے) ’’کیا مطلب؟‘‘
صبا: ’’اس طرح ہی بچیوں کے رشتے آتے ہیں۔‘‘
وجاہت: ’’عجیب منطق ہے تمہاری‘‘۔ بڑی جھنجھلاہٹ کے بعد انہوں نے جیب سے دو ہزار نکال کر بیوی کی ہتھیلی پر رکھے۔ صبا نے اس رقم کو حیرانی سے دیکھا لیکن وجاہت جیسے کنجوس شخص کی جیب سے دو ہزار نکلنا کوئی آسان بات نہ تھی۔ وجاہت جو ایک بڑے کاروبار کا مالک تھا، پیسہ خرچ کرنے میں اس کی جان جاتی تھی، دوسروں پر تو کیا اپنی اولاد پر خرچ کرنا بھی اسے ناگوار گزرتا تھا۔ اس نے اپنی تجوریاں بھری تھیں لیکن بچے دال روٹی پر اور کسمپرسی میں گزارا کرنے پر مجبور تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سہیل! آج زینب خالہ آئی تھیں، بیچاری بہت بیمار ہیں، علاج کے لیے انہیں کچھ رقم درکار ہے، کہہ رہی تھیں کہ آپ دوسرے رشتے داروں سے بھی کہیں کہ وہ میری مدد کریں۔‘‘ سہیل اپنی بیوی شکیلہ کی بات پر بگڑ گئے ’’تم تو بیوقوف عورت ہو، یہ مانگنے کے طریقے ہیں، خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔‘‘
شکیلہ: ’’لیکن سہیل وہ آپ کی دور پرے کی خالہ لگتی ہیں اور ماشاء اللہ، اللہ نے آپ کو بہت دولت سے نوازا ہے، اگر اسے۔۔۔‘‘
سہیل: ’’بس بس ہوگئیں شروع۔ کیا حرام کی کمائی ہے جو میں بانٹتا پھروں! محنت کرتا ہوں۔ تمہیں تو گھر بیٹھے آرام سے مل جاتا ہے۔ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کمائی کے لیے۔‘‘
شکیلہ: ’’میں نے عائشہ بھابھی کو فون کیا تھا، وہ ہم سے کم آمدنی والی ہیں لیکن ایسے موقعوں پر دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں۔ اب بھی کچھ نہ کچھ بھیج دیں گی، لیکن آپ۔۔۔‘‘
سہیل: ’’اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ نیا پلاٹ بھی خریدنا ہے، اس کے لیے رقم جمع کررہا ہوں‘‘۔
شکیلہ میاں کی کنجوسی پر کھول اٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چند حقیقی تصاویر ہیں جو میں نے ان سطور کے ذریعے سے شیئر کیں۔ یقیناًآپ کا بھی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہی ہوگا۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں حدیثِ مبارکہ کا ایک حصہ بیان کیا تھا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک تعالیٰ بندوں سے پوچھے گا کہ مال کہاں سے آیا اور کہاں خرچ کیا۔ مذہب اسلام نے مال (روزی) کمانے اور اسے خرچ کرنے کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے۔ یہاں میں خرچ کے بارے میں احکاماتِ الٰہی اور احادیث کی روشنی میں مختصراً وضاحت کروں گی۔ دینِ اسلام نے مسلمان امت کو ’’امتِ وسط‘‘ کہا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال کو مدنظر رکھنا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ اخراجات کے بارے میں بھی میانہ روی اور اعتدال پر عمل کرنے میں ہی افادیت ہے۔ اسلام نے جس طرح کسبِ حلال حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے اسی طرح اس مال کو خرچ کرنے کے طریقے بھی واضح کیے ہیں۔ چاہے مال کتنی ہی محنت و مشقت سے حاصل کیا ہو، اسے اپنے مصرف کے علاوہ دوسروں کے مصرف میں لانا بھی فرض ہے، یعنی اس مال میں ضرورت مندوں کا بھی حصہ ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس مال کے بارے میں بھی پوچھے گا جو اس نے ہوس میں جمع کیا ہے۔ سورۃ التکاثر میں اسی چیز کی وضاحت فرمائی ہے کہ مال و دولت کی کثرت نے اور اس کی ہوس نے انہیں مالکِ حقیقی سے غافل کردیا ہے۔ حالانکہ یہ مال و دولت ان کے آخرت میں کام نہیں آئے گا۔ دنیا کے عیش و آرام اور نمود و نمائش نے انہیں دوسرے فرائض سے غافل کردیا ہے۔ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا کہ جو نعمتیں تمہیں دنیا میں عطا کی تھیں ان کا حق تم نے کیا ادا کیا؟ کیا تم نے اپنے رب کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کی؟ اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل (آیت 27-26) میں اپنے مال کو صحیح طرح استعمال کرنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور دے قرابت والے کو اس کا حق، اور محتاج کو اور مسافر کو، اور مت اڑا بے جا۔ بیشک اڑانے والے بھائی ہیں شیطان کے، اور شیطان ہے اپنے رب کا ناشکرا۔‘‘
اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 29 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔‘‘ علماء کرام اس کی تفسیر اس طرح بتاتے ہیں کہ جو ہمیشہ دوسروں کے ساتھ سخاوت کرتا ہے اور اگر کبھی اس کو ضرورت مند کو دینے کے لیے کچھ نہیں تو نرم اور میٹھے طریقے سے معذرت کرلے۔ بداخلاقی سے جواب دینے سے پچھلی خیراتیں بھی برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک اور بات کہ کنجوسی نہ کرے، اعتدال کا راستہ اختیار کرے۔ نہ طاقت سے بڑھ کر خرچ کرے کہ پھر اسے بھیک مانگنی پڑے۔ حدیث میں ہے کہ ’’جس نے میانہ روی اختیار کی، محتاج نہ ہوا‘‘۔ تمہارے ہاتھ روکنے سے تم غنی اور دوسرا فقیر نہیں ہوجاتا۔ نہ تمہاری سخاوت کی بدولت وہ غنی اور تم فقیر ہوجاتے ہو۔ فقیر و غنی کرنا یہ تو اللہ کی قدرت ہے۔ تمہارا کام اعتدال سے نہ صرف اپنے اوپر بلکہ دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔
یعنی نہ کنجوسی اور نہ فضول خرچی کرکے مال اڑانا چاہیے، بلکہ سوچ سمجھ کر، سنبھال کر، ہاتھ روک کر کفایت شعاری اور انتظام و اعتدال کے ساتھ ضرورت کے موقعوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اس طرح خرچ کرنے سے وہ محتاج نہیں ہوتا۔ فضول خرچ کرنے سے جو مال ہاتھ میں ہو وہ ختم ہوجاتا ہے، پھر قرض لینا پڑتا ہے۔ قرض لینے سے وہ بہت سی دشواریوں اور مسائل میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس پریشانی کی بدولت اکثر دین سے ہٹ جاتا ہے، یعنی آخرت میں بھی خسارہ ہی خسارہ اٹھاتا ہے۔ ارشاداتِ ربانی اور احادیث سے ثابت ہے کہ شریعت کے مطابق مال کمانا و خرچ کرنا نعمتِ خداوندی ہے۔ رضائے الٰہی کا باعث ہے۔ دنیا و آخرت کا اجر ہے۔ لہٰذا اپنے مال کو شریعت کے مطابق خرچ کرنے کی عادت اپنائیں۔ اس طرح اپنا اور دوسروں کا بھلا کریں۔
nn

حصہ