(کسی اور فلک پر چمک اٹھا!(فریحہ مبارک

288

جماعت اسلامی کی دیرینہ رکن، اُمِ اکبر کے آنگن کا چاند اور باغ کی کلی صبیحہ شاہد آج عارضی رونقِ دنیا میں ہم سے جدا ہوکر ہمیشہ کی زندگی کے سفر پر روانہ ہوگئیں، اس آہستگی کے ساتھ کہ قریب بیٹھی بیٹیوں کو بھی خبر نہ ہوئی۔ نمازِ فجر کی ادائیگی، سورہ یاسین کی تلاوت اور کلمہ زباں پر جاری رہا۔۔۔ حیاتِ مستعار کے سفر میں جذبۂ عمل سے بھرپور پارہ صفت صبیحہ باجی۔۔۔ چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو۔۔۔کی مجسم تصویر بنی ہمہ جہت محاذوں پر کام کرتی نظر آتیں۔ ان کی محنت سے لی گئی قرآنی کلاسز میں نئے آنے والے پہلی کلاس میں ہی دل ہار بیٹھتے۔ جب وہ مخاطب کو بڑے پیار سے میری چاند اور چندا کہہ کر پکارتیں تو گویا وہ ان کے دامِ محبت میں گرفتار ہوجاتی۔ پھر وہ اس کا تعلق پیدا کرنے والے رب اور اس کے پیغام سے جوڑ دیتیں اور اپنا ٹھکانہ اور میدان ہی بدل لیتیں۔۔۔کبھی کراچی کی سیدھی سپاٹ سڑکوں اور کنکریٹ کے جنگلوں میں، تو کبھی اندرون سندھ کے کچے پکے راستوں سے ہوتی ہوئی پسماندہ بستیوں اور گوٹھوں میں رلیّ پر بیٹھ کر قرآن کی دعوت عام فہم الفاظ کے پیرائے میں بیان کر رہی ہیں۔ عارضی قیام گاہ میں مسافروں کی سی زندگی گزارنے والی صبیحہ باجی نے خرابئ صحت کی شدت سے گویا سمجھوتا کر رکھا تھا۔ عذرات کو خاطر میں نہ لانے والی، مہلتِ قلیل میں زیادہ سے زیادہ آخرت کے لیے کمائی کی خواہش مند، سائلوں کے دستِ سوال کو اپنا مسئلہ بنا لینے والی، دریاں اور چاندنیاں بچھانے والی ناظمہ شہر، اجتماعِ عام میں بیت الخلاء کی ڈیوٹی انجام دیتی ناظمہ، اختلافات پر کھلے دل سے گفتگو کرنے اور سننے والی ذمے دار اور رکن شوریٰ محاسبے کی روایت کو زندہ و تابندہ رکھنے والی صبیحہ باجی آج کشاں کشاں اپنے رب کے حضور پہنچ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے راہِ عمل اور نشاناتِ منزل کا پتا چھوڑ کر، اور رہنمائی کرنے والے رب سے رشتہ جوڑ کر۔۔۔اپنی والدہ بدرالنساء (اُمِ اکبر) کا چاند صبیحہ آج بڑی نرمی و ملائمت کے ساتھ عارضی فلک پر ڈوب کر کہیں اور چمک اٹھا ہوگا، ان شاء اللہ۔

حصہ