آہ صبیحہ باجی!! اللہ نے آ پکو اپنے پاس بلا لیا۔ صبح جب اطلاع ملی تو سوچا کس سے رابطہ کروں؟کس کے پاس جاؤں؟کون ہے جس کو میں پرسہ دوں اور وہ مجھ سے تعزیت کرے؟ تعزیتی اجتماع کے انعقاد کی خبر ملی تو ذرا قرار آیا۔ لوگوں کو ان کی بہت سی باتیں پتا ہوں گی اور بہت سی باتوں سے ناواقف ہوں گے۔ لیکن ان کی ذات تھی ہی ایسی۔ اپنی ذات میں انجمن۔ گویا تنہا پوری تحریک، علم کا دریا، محبت کی شیرینی، ذہین و زیرک، جری اور بہادر، گفتگو کا فن، بزلہ سنج و حاضر دماغ، پھرتیلی اور چست، قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال۔۔۔ جن کو منصبِ قیادت کی ضرورت ہی نہیں، جہاں ہوں قدرتی قائد۔۔۔کیا کیا یاد آتا چلا جارہا ہے!!!
یوں تو میں ان سے اُس وقت سے واقف تھی جب میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی، لیکن جماعت میں آنے کے بعد جب پہلی دفعہ میں کسی پروگرام میں شریک ہوئی، مقام سیدہ میں پروگرام تھا، کونسلر کا الیکشن جیت کر پہلی دفعہ کونسلر کی حیثیت سے صبیحہ باجی شریک تھیں۔ خاموشی سے پیچھے آکر بیٹھ گئیں، میرے بھی بچے چھوٹے تھے، میں بھی پیچھے ہی تھی۔ پروگرام ہورہا تھا۔۔۔ ہوتا رہا۔ نہ ان کے آنے پر کوئی کھڑا ہوا، نہ تالیاں بجیں، نہ کوئی پروٹوکول۔ انہوں نے پروگرام بھی کرایا۔ مجھے اپنی جماعت اسلامی پر اتنا پیار آیا کہ کتنا زبردست نظام ہے، سب کے ساتھ ایک رویہ، نہ کوئی عہدیدار نہ کوئی ورکر، سب برابر۔ پھر تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا ہی گیا۔ 1984ء میں الیکشن ہوئے۔ الیکشن پروگرام میں دو دن کی بچی کو لے کر پہنچ گئی تھیں۔ میں نے اُم اکبر آپا سے شکایت کی ’’آپ نے سمجھایا کیوں نہیں؟‘‘ اُم اکبر آپا (جو ان کی والدہ تھیں) مسکرا کے چپ ہوگئیں۔
جب ان کے بیٹے حسن کا انتقال ہوا تو بھی ان کا صبر دیدنی تھا۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کو ہمت بندھا رہی تھیں۔ ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘
پھر جب میں گلشن معمار میں رہی تو صبیحہ باجی بھی معمار میں شفٹ ہوگئی تھیں۔ جب ان کے ہاں مشہور زمانہ واقعہ پیش آیا تھا تب بھی بہت حوصلہ سے اس ساری صورت حال کا مقابلہ کیا۔ قرآن کی کلاس لینے کا اپنا ہی انداز تھا ان کا، بہت ہی مؤثر۔ کسی پروگرام کے لیے وقت مانگو، منع نہیں کرتی تھیں۔ کس کس بات کو یاد کروں۔۔۔ اس وقت دل تو چاہ رہا ہے مریم بیٹی، سارہ، عائشہ، منزہ، فاروق، فہد کو گلے لگاؤں، خوب روؤں اور انہیں بتاؤں کہ تمھاری ماں تھکن سے چُور، مشقت سے بھری مجاہدانہ زندگی گزار کر اپنے رب سے ملاقات کا شوق لیے اس کے حضور حاضر ہوگئی ہیں۔ قدردان رب نے قدردانی کی ہوگی، فرشتوں سے ذکر کیا ہوگا ان شاء اللہ۔ ہم گواہی دیتے ہیں مالک تیری بندی تیری رضا کی تلاش میں تھکاتی تھی اپنا آپ، تُو اُس سے راضی ہوجا۔ میرے بچو! میں اپنی صحت اور لمبے سفر کی وجہ سے تمھارے پاس نہیں ہوں لیکن میرا دل تم میں ہی لگا ہے۔ اللہ تم لوگوں کو اپنی سکینت سے ڈھانپ لے اور صبر کا اجرِ عظیم عطا کردے۔ صبیحہ باجی کی ساری سعی، مشقت، محبت، لگن اور جاں فشانی کو اپنی بارگاہ میں قبول کرلے، اُن سے راضی ہو جا۔۔۔ بشری لغزشوں سے صرفِ نظر فرما،آمین۔