’’ایران کو اپنے بین الاقوامی تاثر یا ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی محنت کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انقلاب دیگر ممالک کو برآمد کیا جاسکے‘‘۔ (آیت اللہ روح اللہ خمینی کا14 اکتوبر1981ء کا ریڈیو خطاب)
35 سال بعد آج ہم خمینی کے اس خواب کو شاید شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ ایران کا بہتر تاثر یا ساکھ نہیں بلکہ مختلف امریکی حکومتوں کی کوتاہ نظری پر مشتمل پالیسیاں اور تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات ہیں۔
اس کی ابتدا صدر بش کے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے سے عراق پر لشکر کشی سے ہوئی جس نے نہ صرف صدام حسین کی ایک مضبوط حکومت کو معزول اور عراق میں خانہ جنگی پیدا کی بلکہ عراق کو پکے ہوئے پھل کی طرح ایران کی جھولی میں ڈال دیا۔
پھر اسی پالیسی کی بطن سے عرب بہار پیدا ہوئی جس نے نہ صرف کرنل معمر قذافی کی مضبوط حکومت کو گرا دیا بلکہ پورے عالم عرب میں افراتفری اور عرصہ دراز سے قائم مستحکم حکومتوں اور بادشاہتوں میں ایک خوف کی کیفیت پیدا کردی۔
عرب بہار کے بھونچال نے نہ صرف لیبیا، مصر اور تیونس کی حکومتوں کو گرایا بلکہ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے بحرین، یمن اور شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس افراتفری کا ایران نے فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے اپنے حلقہ اثر کو مستحکم کرنا شروع کردیا۔ اِس وقت عراق اور شام میں ایران کی حمایتی حکومتیں قائم ہیں، لبنان میں ایران کی حمایتی حزب اللہ کو اقتدار میں بڑا حصہ حاصل ہے، جبکہ یمن اور بحرین کی خانہ جنگی، یہاں تک کہ سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں بغاوت کی صورت حال بھی ایران کی بلاواسطہ یا بالواسطہ حمایت کا نتیجہ ہے۔
ایرانی انقلاب کی برآمد کا ایک اور نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہزار ہا سال سے عرب معاشرہ جوکہ عرب و عجم کی تفریق پر قائم تھا، اس میں اچانک ہی عرب و عجم کی تفریق تحلیل تو نہیں ہوئی لیکن پس پشت ضرور چلی گئی، اور عجم (ایران) اس میں لیڈنگ پوزیشن پر ہے۔
ایران اور امریکہ کی دشمنی نے ایران کو روس سے تعلقات بہتر بنانے پر مجبور کیا اور افغانستان میں شکست خوردہ معاشی اور سفارتی طور پر کمزور روس کو بھی خطہ میں نئے اتحادیوں کی ضرورت تھی، اس نے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
دوسری طرف شام شروع ہی سے روس کا اتحادی تھا، افغانستان اور عراق میں اپنی فوجیں بھیجنے کے بعد امریکہ نے وہاں کے معاملات کو اپنی شرائط پر حل کرنے میں ناکام ہوکر خاموشی سے مشرق وسطیٰ کے معاملات سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔
جب شام کی خانہ جنگی اس حد تک پہنچ گئی کہ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ نوشتۂ دیوار بن گیا تو روس اور ایران اس لڑائی میں براہِ راست کود پڑے اور لبنانی حزب اللہ سے مل کر شام میں بشارالاسد حکومت کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔
امریکی حکومت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس کی ناقص پالیسیوں نے امریکہ کو ایک بندگلی میں دھکیل دیا ہے اور امریکی اِس وقت اس کھیل سے باہر ہیں، کیونکہ اگر کوئی طاقت بشارالاسد حکومت سے لڑ رہی ہے تو وہ داعش ہے۔ لیکن اگر آج امریکہ داعش کے ساتھ مل کر اسد حکومت سے لڑتا ہے تو کل داعش کے سارے ’’کارناموں‘‘ کا ملبہ بھی اسی پر گرے گا، جوکہ کسی بھی صورت میں امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
فی الوقت کوئی متبادل طاقت سامنے نہیں ہے جو میدانِ جنگ میں داعش کا نعم البدل بن سکے۔ چنانچہ امریکی اربابِ اقتدار کے لیے یہ ایک بڑا دردِسر ہے کہ کوئی متبادل طاقت پیدا کی جائے جوکہ بیک وقت داعش اور بشارالاسد سے مقابلہ کرسکے۔
امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ بطور واحد سپر پاور وہ دنیا کے اس اہم ترین خطے کے بحران سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اوباما حکومت کی ایران سے تعلقات بحال کرنے کی پالیسی بھی بری طرح سے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے پاس محدود وسائل تھے اور وہ کسی بڑے ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، لیکن اب تیل کی کمائی اور بین الاقوامی اداروں میں پھنسی ہوئی رقوم کی واپسی کے بعد ایران بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔
کچھ نہ کرنے سے دنیا کی گالیاں کھانے کے علاوہ امریکہ کے لیے اس خطے میں اپنا اثر رسوخ ختم ہونے کا خطرہ اور کچھ کرنے کے نتیجے میں تیسری جنگ عظیم کا امکان موجود ہے۔ (سرد جنگ میں بھی امریکی فوج کبھی براہِ راست روس سے نہیں لڑی ہے)
دوسری طرف امریکہ کے بھارت کی طرف واضح جھکاؤ کی وجہ سے ہم بھی روس، چین اور شاید ایران کا بلاک بناکر امریکہ/ بھارت اتحاد کا تریاق چاہتے ہیں۔ یعنی مشرق وسطیٰ میں ایران اور روس شیطان اور اُن سے جنگ نیکی کاکام ہے۔ جبکہ بحیرہ عرب میں انھی کو ہم اپنے اتحادی بنانا چاہتے ہیں۔ ہائے رے یہ مجبوری۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اس پورے خطے میں اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب کے سوا تقریباً تمام اتحادیوں جو قابل ذکر فوجی طاقت بھی ہیں، سے محروم ہوچکا ہے (متحدہ عرب امارات، قطر اور خلیجی ریاستیں جنگ کے قابل فوج نہیں رکھتیں)۔ ترکی کے بعد اسلامی دنیا کی سب سے بڑی قوت پاکستان کے خانہ جنگی میں شریک ہونے سے انکار کے بعد امریکی آپشن بہت محدود ہیں۔
اگلا آپشن یہ ہے کہ امریکہ ترکی کو قائدانہ کردار ادا کرنے پر مجبور کرے۔ اردوان چونکہ سلطنتِ عثمانیہ کے خواب میں مدہوش ہیں، اس لیے وہ بخوشی یہ کردار ادا کریں گے۔ روسی سفیر کے قتل کا حالیہ واقعہ بھی شاید ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش ہے جو آہستہ آہستہ ترکی کو اس طرف دھکیل دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قاتل صرف ایک پستول سے مسلح تھا اور اسے وہیں پر مار دیا گیا (لیاقت علی خان کا قتل یاد کریں)۔ اس بات کی سنجیدہ تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا اسے زندہ پکڑنے کی کوشش کی گئی؟ یا وہ وہاں تک اسلحہ سمیت کیسے پہنچ سکا؟
ویسے تو ناٹو کے رکن کی حیثیت سے امریکہ اور پورے یورپ کی چھتری ترکی کے پاس پہلے ہی ہے، لیکن پتا نہیں کہ بوقتِ بارش یہ چھتری کھلے گی بھی یا نہیں۔ لیکن اگر ترکی امریکی مرضی سے اس جنگ میں کودے گا تو لازماً کھلے گی۔
اردوان بنیں گے دورِ جدید کے ضیاء الحق۔
کیا تاریخ واقعی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟
لیکن ایک بڑا فرق اردوان اور ضیاء الحق میں یہ ہے کہ اردوان ایک مقبول اور جمہوری طریقے سے منتخب لیڈر ہیں۔ ان سے ڈیل آسان نہیں ہوگی۔ پھر بھی جسں طرح ضیاء نے امریکہ کو ایٹمی پروگرام سے صرفِ نظر کرنے پر رضامند کرلیا تھا، اُسی طرح اگر امریکہ نے اردوان اور ترکی کا بڑا مسئلہ ’کرد‘ ترکی کی شرائط پر (چاہے سیاسی یا فوجی طور پر) حل ہونے دیا تو اردوان شاید اتاترک سے بھی بڑے لیڈر بن جائیں۔
دوسری طرف جس طرح سوائے سرخوں کے، افغان جنگ کو قوم کی عمومی حمایت حاصل تھی، اسی طرح اردوان ترک عوام کو شامی جنگ آسانی سے بیچ سکیں گے۔
تیسری بات، چونکہ ترکی میں فوجی انقلاب ہماری طرح عام سی بات ہے۔ حالیہ انقلاب کی ناکامی نے اردوان کے ہاتھ مضبوط ضرور کیے ہیں لیکن پھر بھی کوئی نئی کوشش ناممکن نہیں ہے۔ چنانچہ شامی جنگ میں مصروف فوج حکومت کے لیے کم خطرہ ہوگی۔ لیکن اردوان کو بڑی احتیاط سے اپنا امیج ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے بنانا ہوگا جوکہ معاملات پر مکمل گرفت رکھتا ہے۔ (کیونکہ کردوں کے خلاف فوجی کامیابی کا کریڈٹ صرف فوج کو ملا تو پھر فوج کی مقبولیت اور طاقت میں اضافے کا سبب بنے گی)۔ اس لیے کوئی سیاسی حل جس کو اپنی فتح کے طور پر پیش کیا جا سکے، زیادہ مناسب ہوگا۔ اگر اردوان کو واقعی ایسا کرنا پڑے تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ پاکستان کی افغان جنگ کا تفصیلی مطالعہ کریں تاکہ بعض غلطیوں سے بچا جاسکے۔
دوسرا مفت مشورہ یہ بھی ہوگا کہ امریکہ یا ناٹو کی چھتری کے بل پر کسی جنگ میں کودنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے تک توقف کریں، کیونکہ ٹرمپ کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ روس کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، اس کی تصدیق یا تردید کے لیے کم ازکم 100 دن تک (پہلے 100 دن عمومی طور پر ایک صدر کا ابتدائی رپورٹ کارڈ ہوتا ہے) کوئی عاجلانہ اقدام خطرناک ہوگا۔
nn