(معصوم خواہش(توقیر عائشہ

264

’’چلیں ابو!‘‘ میرا بیٹا سر پہ ٹوپی جمائے تیار کھڑا تھا۔ ’’ابو، آج تو میں آپ کے ساتھ صف میں کھڑا ہوں گا۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔ اُس وقت تو اس بات کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا اور نہ ہی اب اتنا وقت بچا تھا کہ میں اس کے معنی پوچھتا۔ آج بہت دن کے بعد مجھے اپنے محلے کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا موقع ملا تھا، ورنہ میرے دفتری اوقات ایسے تھے کہ میں دفتر کے قریب ہی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرتا تھا۔ میں نے اپنے سات سالہ بیٹے انس کا ہاتھ تھاما اور مسجد کی قدرے اوّلین صف میں جاکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں اذان ہوئی اور خطبۂ جمعہ ادا کیا گیا۔ خطبے کے ختم ہوتے ہی امام صاحب نے ایک اعلان کیا:
’’صفیں درست فرما لیں، صفوں کے درمیان جگہ خالی نہ چھوڑیں، بچوں کو پیچھے کردیں۔‘‘ یہ سن کر صفوں کے درمیان سے کچھ بچے میکانیکی انداز میں نکل کر پیچھے کی جانب چل دیے، جب کہ انس میرا ہاتھ سختی سے تھام کر کہنے لگا: ’’میں پیچھے نہیں جاؤں گا، آپ ہی کے ساتھ صف میں کھڑا ہوں گا۔‘‘
میرے قریب کھڑے ایک نمازی حضرت نے میرے بیٹے سے کہا: ’’بیٹا، جائیے پیچھے کی صف بچوں کی ہے‘‘۔
میں نے نارمل سے انداز میں کہا: ’’یہ یہیں پڑھے گا، ادھر جگہ ہے، آپ ادھر آجائیں‘‘۔
ایک اور صاحب کہنے لگے: ’’جب بچوں کی جگہ پیچھے ہے تو آپ اسے پیچھے ہی بھیجیے‘‘۔
پھر ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں:
’’بچے نمازخراب کرتے ہیں۔۔۔ حکم نہیں ہے جی، نابالغ ہے۔ ساتھ کھڑا نہ کریں‘‘۔
کچھ تکرار سی ہونے لگی۔ میرا اصرار کہ بچہ میرے ساتھ کھڑا ہوگا، نمازیوں کا اصرار کہ پیچھے بھیجیں۔ امام صاحب نے صفوں میں کچھ ہلچل محسوس کی تو وہ بھی متوجہ ہوگئے اور کہنے لگے: ’’جناب! مسجدکا اصول ہے ہم بچوں کی صف پیچھے بناتے ہیں۔ بچے گندگی کرتے ہیں اور نماز میں خلل ڈالتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا: ’’امام صاحب، یہ بچے ساتھ کھڑے نہ ہوں گے تو کیسے سیکھیں گے؟ ہر جگہ بچوں کو ساتھ رکھتے ہیں، مسجد میں نہیں رکھ سکتے، کمال ہے۔۔۔‘‘
’’آپ بحث نہ کریں، آپ جماعت کو دیر کرا رہے ہیں‘‘۔ امام صاحب کے لہجے میں سختی در آئی۔ انس بھی سہم سا گیاکہ اس کی ذات عجیب سے فساد کا باعث بن رہی ہے۔ میں نے ماحول خراب ہوتے دیکھا تو بیٹے سے کہا: ’’اچھاجاؤ بیٹا! پیچھے ہی چلے جاؤ۔‘‘ اب مجھے اُس کی وہ معصوم خواہش یاد آئی کہ آج تو میں ابو کے ساتھ صف میں کھڑا ہوں گا۔ میں نے سوچا کہ امام صاحب سے ملاقات کرکے ضرور اس پر بات کرکے اپنا مؤقف سمجھاؤں گا۔
آخر دنیا کی ہر جگہ باپ اپنے بچے کو ساتھ لے کر جاتا ہے کہ اس کو تجربہ ہو۔ اسکول کی چھٹی ہو تو بعض افراد اپنے بچوں کو کاروباری جگہ لے جاتے ہیں۔ کبھی آفس بھی لے آتے ہیں کہ یہ دنیا دیکھ لیں۔ سبزی والا اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو لے کر ٹھیلا کھینچتا پھرتا ہے کہ یہ سیکھ لے۔ لیکن دین میں داخلے کی بنیادی جگہ مسجد کو بچے کے لیے بے رونق بنا دیتے ہیں۔ سارے نمازی اسے پیچھے بھگانے پر زور دیتے ہیں۔ اس کو مسجد میں گندگی پھیلانے کا باعث قرار دیا جاتا ہے جبکہ دنیا کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مہنگے مونٹیسوری اسکولوں کا چناؤ کرتے ہیں جہاں داخل ہونے والے بچے ابھی ’’ٹوائلٹ ٹرینڈ‘‘ بھی نہیں ہوتے۔ پھر نوجوان نسل سے گلہ کرتے ہیں کہ مسجد سے لگاؤ نہیں۔
سچی بات تو یہ کہ میں بہت دن کے بعد اپنے محلہ کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تھا مگر میرا دل نماز میں نہیں لگا۔کچھ دن تک میں مسجد سے متصل امام صاحب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا لیکن ہر دفعہ جواب ملا کہ وہ مصروف ہیں یا گھر میں نہیں ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتے۔ پھر مجھے بھی موقع نہ ملا کہ میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتا۔
کچھ نجی مصروفیات کے باعث میں نے دفتر سے بیس دن کی چھٹی لی۔ کیلنڈر کے مطابق اس میں تین جمعہ آنے تھے۔ مجھے اپنے بیٹے کی معصوم خواہش یاد تھی کہ میں آپ کے ساتھ صف میں کھڑا ہوں گا۔ سو میں نے دور کی مسجد کے امام صاحب سے ملاقات کی اور اُن کے سامنے اپنا مقصد اور مدعا بیان کیا اور بچے کو صف میں ساتھ کھڑا کرنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔ یوں میں دوسرے دن جمعہ کی ادائیگی کے لیے ان کی مسجد جا پہنچا اور پُرسکون انداز میں نماز ادا کی۔ میں نے محسوس کیا کہ آج انس کے لب و لہجے اور چال ڈھال میں واضح اعتماد اور جوش موجود ہے۔ واپسی پر وہ بڑا خوش تھا۔
ایک رات دس بجے کا وقت تھا۔ معمولات سے فراغت کے بعد میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر بیل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ امام صاحب آئے ہیں۔ کون امام صاحب؟ میں کچھ اُلجھ سا گیا۔ باہر گیا تو وہی امام صاحب تھے جن کے رویّے سے میں بددل ہوگیا تھا۔ بہرحال میں نے اُنہیں احترام سے اندر بٹھایا۔ کچھ دیر بعد وہ گویا ہوئے: ’’بچوں کو مسجد میں لانے کے سلسلے میں آپ سے تکرار ہوئی تھی۔ اب میں نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کرلی ہے۔ پچھلے دنوں میں کسی مصروفیت کے باعث جمعہ کی امامت کے لیے وقت پر نہیں پہنچ سکا۔ احتیاطاً میں نے ایک دوسرے صاحب کو امامت کے لیے مقرر کردیا تھا۔ جب تیار ہوکر مسجد میں داخل ہوا تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور مجھے بالآخر پیچھے کی صف میں موجود بچوں کے پاس جگہ ملی۔ دورانِ نماز بچے شرارت کرتے رہے۔ کوئی مصنوعی کھانسی کررہا ہے۔ کوئی دبی ہنسی ہنس رہا ہے۔ کوئی دوسرے کی ٹوپی کھینچ رہا ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہ بچے جس بڑے کے ساتھ آئے ہیں اگر اُسی کے ساتھ صف میں کھڑے ہوں تو اُن کو شرارتوں کا موقع نہ ملے۔ اسی کے ساتھ مجھے آپ کا خیال آیا کہ آپ کا مؤقف درست تھا۔ اس لیے میں نے مسجد کے اصول و ضوابط میں تبدیلی کرلی ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ آپ بچے کے ساتھ جمعہ کی نماز ہمارے ساتھ ہی ادا کیجیے۔‘‘
حقیقت یہ تھی کہ میں جو اُنہیں اب تک روایتی قسم کا مولوی سمجھ رہا تھا، اس گفتگو سے ان کے بارے میں میری رائے یکسر تبدیل ہوگئی۔ بات سمجھ میں آجانے کے بعد وہ اپنی رائے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ علم اور مرتبہ ہونے کے باوجود اسے اپنی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ بچوں کے لیے سخت گیر ماحول میں تبدیلی لاکر عملی پہلو بھی اختیار کیا اور پھر یہ بھی کہ خود چل کر میرے پاس ملاقات کے لیے آئے۔ اب وہ میری نظر میں روشن خیالی کی ایک عمدہ مثال بن گئے تھے۔

حصہ