(دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ نہ لگا(اقراء طارق

279

(جامعتہ المحصنات ٹوبہ ٹیک سنگھ)
آج میں ایک پرانی بوسیدہ کتاب کی صورت میں ایک دوکان کے کونے میں پڑی اپنی گزشتہ زندگی پر غور کرتی ہوں تو میرا دل بھر آتا ہے اپنی بے بسی اور انسان کی بے اعتنائی پر سوائے دکھ اور افسوس کے کچھ نہیں کر سکتی۔چونکیے نہیں میں ’’بانگ درا‘‘ ہوں جی ہاں! وہی بانگ درا جس کی نظموں اور غزلوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ تازہ پیدا کر دیا تھا۔ یقین ہے کہ آپ میرے خالق کو جان گئے ہوں گے؟ علامہ اقبال کے نام سے کون مسلمان واقف نہیں میں انہی کے افکارتازہ کی کتابی شکل ہوں یہ الگ بات کہ اگر کوئی سخن شناس مجھے نہ دیکھے، نہ پہچانے تو میں ایک بے کار بوسیدہ اوراق کا پلندہ ہوں ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ کبھی ہم خوبصورت تھے۔۔ کتابوں کی سجی ہوئی دکان میں رکھے ہماری شان ہی نرالی تھی۔پھر ایک دن مجھے ایک اسکول ٹیچر نے خرید لیا۔ وہ شخص با ذوق اور علامہ اقبال کی شاعری کا بہت دلدادہ تھا اوراسے علم تھا کہ کتاب کو کس طرح رکھا جاتا ہے اور کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اس زمانے میں کتابوں پر جلد چڑھا کر شائع کرنے کا رواج نہ تھا اس لیے اس نفیس ذوق انسان نے مجھے با قاعدہ جلد کروایا اور اپنی سبز رنگ کی شاندار سی ریک میں احتیاط سے رکھ دیا۔ اس عمل سے جہاں تک میری خوبصورتی میں اضافہ ہوا وہاں میرے اوراق اور ان کے مندرجات کی حفاظت ہوگئی۔ وہ شخص مجھے بہت عزیز رکھتا فارغ اوقات میں وہ میرے اشعار پڑھتا ان پر غور کرتا اور پھر علامہ مرحوم کا پیغام اپنے شاگردوں تک پہنچاتا رہا کوئی دس بارہ سال تک میں اس کی حفاظت میں رہی اچانک اس کی وفات ہوگئی اب میں اس الماری میں بند، کھلی ہوا کو بھی ترسنے لگی۔ یقین مانیے میں اب کسی انسانی ہاتھ کے لمس کو بھی ترس گئی۔ وقت گزرتا رہا، بارشوں کے دنوں میں نمی اور سیلن سے اس الماری میں دیمک کی رسائی ہوگئی اس نے دیگر بہت سی کتابوں کو چاٹنا شروع کر دیا سب سے پہلے اس نے ہر خوبصورت جلد پر اپنے دانت جمائے اور چند دنوں میں اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا میں نے بڑی دعائیں کیں کہ کوئی الماری کھولے اور ہماری حالتِ زار کو دیکھے مگر شاید ہماری دعاؤں کی قبولیت کا وقت نہ تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں دیمک نے میرے اوراق میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بڑے بڑے سوراخ ڈال دیے، میں حیرت زدہ تھی مگر اس نے میرا مطالعہ ہی کرنا تھا تو اس طرح ظلم نہ کرتی مگر شاید اس کا ارادہ مجھے پڑھنے کا نہ تھا مجھے پھاڑنے کا تھا۔ ایک دن اس ٹیچر کے بیٹے نے الماری کھولی تو اس پر صورتِ حال کھلی اس نے ہماری دیکھ بھال کی بجائے ایک انقلابی فیصلہ کیا کہ گلی سے گزرنے والے ایک ردی خریدنے والے آدمی کے ہاتھ ہمیں بیچ دیا۔
nn

حصہ