ننھے میاں ہمارے مُنّے بھائی ہیں۔ گول مٹول، سرخ و سپید، گھر بھر کی آنکھ کے تارے۔ امّی ابّو کے لاڈلے اور ہم سب بہن بھائیوں کے راج دُلارے۔ گھر میں ہر کوئی انہیں گود میں اُٹھائے اُٹھائے پھرتا ہے۔ ہمیں کہانیاں لکھنے کا شوق ہے اور ننھے میاں کو چیزوں کی اُٹھا پٹخ کا۔ خاص طور پر ہماری کاپیوں، کتابوں اور قلم سے تو ان کو اللہ واسطے کا بیر ہے۔ کتابیں اس طرح اپنے ننھے ہاتھوں میں تھام کر دیکھتے ہیں، جیسے مطالعہ کررہے ہوں۔ قلم سے صفحات پر اس طرح لکیریں کھینچتے ہیں، جیسے اپنی کہانی لکھ رہے ہوں۔ ہم کہانی لکھنے میں مصروف تو وہ جھولے میں پڑے گردن گھما گھما کر ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں کہ بھائی جان، ہماری کہانی بھی لکھ دیجیے۔ ایک دن ان کی حرکتیں دیکھ کر ہم نے سوچا کہ اگر ننھے میاں کو لکھنا آتا تو وہ اپنی ڈائری کچھ اس طرح لکھتے:
یکم نومبر
رات کے شاید آخری پہر گھڑی نے دو گھنٹے بجائے، جس سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے آنکھیں مَلتے ہوئے دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا وقت ہوا تھا، بس یہ نظر آیا کہ دو چھوٹی بڑی سوئیاں ایک دوسرے کے قریب کھڑی مسکرا رہی ہیں۔ گھڑی نے مجھے اپنی طرف دیکھتا پایا تو مسکرائی اور بولی: ’’ہیلو ننھے میاں،کیا حال ہیں؟‘‘
میں نے اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا: ’’بڑی مصیبت میں میری جان ہے۔ گھر والے خود تو مزے مزے سے قورمہ، بریانی، نہاری اور گاجر کا حلوہ کھاتے ہیں، جب کہ مجھے دودھ ہی پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ رو رو کر ان کے سامنے احتجاج کرتا ہوں تو امی جلدی سے میرے منہ میں چُسنی ٹھونس دیتی ہیں۔ ‘‘
’’ہائے، تمہاری قسمت!‘‘ گھڑی نے ایک آنکھ دباکر کہا اور میں نے بے زاری سے اس کی طرف پیٹھ کرکے امی کی گود میں پناہ لے لی۔
تین نومبر
آج دوپہر ببلی اور گڈو اسکول سے گھر آئے تو دونوں کے سر جُھکے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے جھولے میں سے کروٹ لے کر دیکھا۔ امی اور پپّا ان دونوں کو بُری طرح ڈانٹ رہے تھے۔
ارے، یہ انقلاب کیسا؟ کہاں تو دونوں سے گھر میں اتنا پیار ہوتا کہ میں جھولے میں بھوک سے بلبلاتا بھی تو مجھ پر توجہ دینے کے بجائے ان سے ہی پوچھا جاتا کہ ’’ہاں بھئی بچّو، کون سی آئس کریم کھاؤ گے؟‘‘
پپا نے گڈو کے زور سے کان مروڑے اور ایک کرارا تھپّڑ بھی لگایا ’’چٹاخ‘‘ کی آواز سن کر میرے تو کانوں میں جیسے گھنگھرو بج اُٹھے۔ اب مزا آیا ناں گڈو میاں کو۔ روتے میں جب میں چُپ نہیں ہوتا تو بڑی چٹکیاں بھرتے تھے میری۔ سُنا ہے جماعت میں فیل ہوگئے اور ہر مضمون میں انڈا لیا ہے، اور ببلی ترقی پاس ہوئی ہے۔ امی نے ببلی کے کان مروڑے تو تکلیف سے وہ رو پڑی، لیکن مجھے تو بڑی خوشی ہورہی ہے، وہ بھی میرے ساتھ گڈو میاں والی حرکتیں کرتی ہیں۔ آج ان دونوں کے چہروں کی اُڑی اُڑی رنگت اور کپکپاتی ٹانگیں بتارہی ہیں کہ پڑھنا لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ جب میں گڈو اور ببلی کی طرح بڑا ہوجاؤں گا تو اسکول نہیں جاؤں گا اور نہ ہی پڑھوں گا، سُنا ہے اسکول بڑی خوف ناک جگہ کا نام ہے، جہاں بچوں کو پیار کے بجائے مارکر پڑھایا جاتا ہے۔ نہ بابا ناں۔۔۔مجھے اسکول میں داخل نہیں ہونا۔ اللہ بچائے مجھے اسکول سے۔۔۔!!
چھ نومبر
آج صبح سویرے مرغے کی بانگ سُنتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے میں نے دیکھا۔ سب لوگ بے خبر سورہے تھے۔ مجھے سخت سردی لگ رہی تھی، کیوں کہ کروٹ لینے کے دوران کمبل میرے جسم پر سے ہٹ گیا تھا۔ میرے ہاتھ اتنے ننھے ننھے ہیں کہ بھاری بھرکم کمبل کو اپنے جسم پر نہیں لے سکتے۔ پہلے تو میں نے امی کو ہاتھ لگا کر اور پاؤں پٹخ پٹخ کر جگانے کی کوشش کی، لیکن وہ تو گھوڑے بیچ کر سورہی تھیں۔ بے چاری کام کرکرکے تھک بھی تو جاتی ہیں۔ کل رات مہمان آگئے تھے اور انہوں نے ان کے لیے ڈھیروں کھانا بنایا تھا اور وہ پیٹو لوگ رات گیارہ بجے واپس گئے تھے۔ ان مہمانوں کی چھوٹی لڑکی بہت شیطان تھی۔ گود میں اُٹھاتے وقت اس نے کئی بار میرے گال نوچے اور بولی:کیسے سرخ گال ہیں منے میاں تمہارے۔۔۔ بالکل سیب کی طرح۔‘‘
شکر ہے مولا کا، اس نے میرے گال کاٹ کر نہیں کھائے ۔ سیب ہوتے تو وہ شریر لڑکی ضرور کھا جاتی۔
امی کو جگانے کے لیے میں نے ترکیب نمبر گیارہ آزمائی اور تیز آواز میں رونا شروع کردیا۔ ترکیب کارگر رہی اور امی فوراً اٹھ گئیں:
’’ارے، میرے بچے کو سردی لگ رہی ہے‘‘۔ لپک کر انہوں نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا اور کمبل میں لپیٹ کر دوبارہ سوگئیں۔
دس نومبر
ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہ مَری کہلاتا ہے۔ یہاں برف باری ہوتی ہے اور سردیوں کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے۔ آج جب کہ برف باری کچھ دیر کو رکی توگڈو میاں مجھے گرم کپڑے میں لپیٹ کر گھر سے باہر نکل آئے۔
’’ننھے میاں، دیکھو تو کتنا حَسین منظر ہے۔ ہرچیز سفید دکھائی دے رہی ہے‘‘۔ گڈو کی بات سن کر میں نے لپک کر گرم کپڑے سے اپنا سر باہر نکالا اور پھر واقعی قدرت کی حسین کاریگری پر میں حیران رہ گیا۔ درختوں پر، مکانوں کی چھتوں پر، گلیوں میں، سامنے نظر آتے ہوئے پہاڑوں پر ہر جگہ برف ہی برف نظر آرہی تھی۔
میں نے گردن گھما کر اپنے گھر کو دیکھا تو وہ بھی برف میں ڈھکا ہوا تھا۔ اسی وقت مجھے زور سے چھینک آئی ’’آچھیں۔۔۔‘‘
چھینک کی آواز سن کر امی لپک کر گیٹ پر آئیں۔ انہوں نے گڈو کے ہاتھ سے مجھے چھینا اور ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’بے وقوف، اتنے سرد موسم میں ننھے بھائی کو باہر ٹہلارہے ہو، بیمار کرو گے اسے۔۔۔!‘‘
میں امی کی گود میں مچلنے لگا: ’’نہیں نہیں، میں گھر میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے باہر مزا آرہا ہے، مجھے برف دیکھنے دیں‘‘۔ میں نے بہت چیخ وپکار کی، لیکن منہ سے اوں آں، پوں پاں۔۔۔ کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں امی کی گود میں مچلتا رہا اور ایک ہی رٹ لگائی: باہر جاؤں گا، باہر جاؤں گا۔ لیکن امی نے میری ایک نہ سنی اور مجھے اپنے بازوؤں میں بھینچ کر سینے سے لگائے آتش دان کے قریب جا بیٹھیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ آگ کی گرمی سے میری سردی دور ہوجائے گی۔ انہیں کیا پتا کہ اس گرمی سے تو میرا رنگ کالا ہوجائے گا اور میں کالا نہیں ہونا چاہتا۔
کمرے میں مٹّھو کا پنجرہ لٹکا ہوا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی کم بخت چلاّنے لگتا ہے: ’’ننھے میاں آگئے، ننھے میاں آگئے!‘‘ اس کی ٹیں ٹیں تیر کی طرح میرے کانوں میں جاکر لگتی ہے، مگر ببلی اور گڈو کو اس کی آواز بہت پسند ہے، جب کہ میری آواز انہیں بالکل پسند نہیں۔ بھوک سے جب میں اکثر روتا ہوں تو دونوں اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔۔۔
گیارہ نومبر
کل شام چھ بجے میری آنکھ کھلی تو بستر پر امی نہیں تھیں۔ ’’پھر دھوکا دے گئیں مجھے۔ جب بھی گہری نیند سوتا ہوں تو مجھے چھوڑ کر اُٹھ جاتی ہیں۔ کتنی دفعہ ان سے کہا ہے کہ مجھے اکیلے کمرے میں ڈر لگتا ہے، اس طرح چھوڑ کر نہ جایا کریں‘‘۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تو وہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنا میک اپ کررہی تھیں۔
’’امی،آپ کہاں جارہی ہیں، میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘ میں نے چلّانا شروع کردیا۔
’’ارے بوا، اسے سنبھالو، میں دعوت میں جارہی ہوں‘‘۔ انہوں نے دوپٹے کا پَلّو سر پر ڈالتے ہوئے کہا۔ بوا چپّل گھسیٹتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور امی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
ان کے جانے کے بعد بوا نے میرے گال نوچے اور غصے سے بولیں: ’’موا، ہر وقت ریں ریں کرتا رہتا ہے‘‘۔ امی کے سامنے بوا ہر وقت میری تعریفوں کے پُل باندھتی رہتی ہیں: ’’کتنا پیارا بیٹا ہے، ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے‘‘۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بڑا ہوکر کیا میں بھی بڑوں جیسا ہوجاؤں گا؟
پندرہ نومبر
آج موسم صبح ہی سے نہایت پیارا ہورہا تھا۔ آسمان کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں اور ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی ہے۔ باہر گلی میں بچے شور مچا رہے ہیں ’’اللہ میاں پانی دو، سو برس کی نانی دو۔‘‘
میرا دل بھی چاہ رہا ہے کہ باہر جاکر اس ہنگامے میں شامل ہوجاؤں۔ خوب اُچھلوں‘ کُودوں، ناچوں گاؤں۔ ببلی اور گڈو مزے مزے سے بجیا کے پاس بیٹھے گرما گرم پکوڑے کھا رہے ہیں۔ پکوڑے دیکھ دیکھ کر میرے منہ میں پانی آرہا ہے لیکن کون مجھے پکوڑے کھلائے گا؟ میری خوراک تو بس دودھ ہی تک محدود ہے۔ نہ جانے کب بڑا ہوں گا، تو اس جُھولے سے آزادی ملے گی؟
کمرے میں مٹھو کا پنجرہ لٹکا ہوا ہے۔ وہ چلّارہا ہے: ’’موسم اچھا ہے، مجھے باہر جانے دو۔۔۔ مجھے باہر جانے دو‘‘۔ ببلی نے مٹھو کو سیب کی ایک قاش کھانے کو دی، لیکن اس نے چونچ مار کر نیچے پھینک دی اور مغموم انداز میں سر جُھکا لیا۔ میں نے مٹھو سے کہا:
’’دوست، ہم اور تم ایک کشتی کے سوار ہیں۔ تم پنجرے میں بند ہو اور میں یہاں امی کی گود میں قید۔۔۔‘‘
چوبیس نومبر
گھر میں آج خوب گہما گہمی ہے، کیوں کہ یاسر بھیا ترکی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے ہیں۔ سارے رشتے دار آئے ہوئے ہیں۔ سب یاسر بھائی کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ صبح ہی صبح اخباری نمائندے اور فوٹو گرافر بھی آئے تھے۔ ان کی ڈھیروں تصاویر کھینچی گئیں اور ان کا انٹرویو بھی ریکارڈ ہوا۔ وہ پورے ترکی میں اوّل جو آئے ہیں۔ امی اور باباکہتے ہیں کہ وہ لڑکپن ہی سے پڑھنے لکھنے میں بہت آگے تھے۔
یاسر بھیا ببلی اور گڈو کو سمجھا رہے ہیں: ’’محنت سے پڑھنا لکھنا چاہیے۔ دنیا میں وہی لوگ بڑے بنتے ہیں، جو دل لگا کر پڑھتے ہیں، ماں باپ کی عزت کرتے ہیں اور بڑوں سے اچھی طرح پیش آتے ہیں‘‘۔
ان کی باتوں نے میرے خیالات تبدیل کردیے ہیں۔ مجھے پتا چل گیا ہے کہ دنیا میں عِلم والے ہی ترقی کرتے ہیں اور ان ہی کی سب عزت کرتے ہیں۔ بڑا ہوکر میں اسکول جاؤں گا، دل لگا کر پڑھوں گا، امی، بابا کا کہنا مانوں گا، بزرگوں کا ادب کروں گا اور بڑا آدمی بنوں گا۔۔۔ان شاء اللہ!!
nn