حافظ جان نے ٹارچ لے لی اور زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ اس طرح وہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوئی ٹکڑا تلاش کرتے رہے۔ قریباً بیس منٹ بعد انہوں نے ایک پتھر اُٹھایا اور ٹارچ کی روشنی میں اس کا بغور معائنہ کیا۔ پھر وہ سوچنے لگے:
’’یہ پتھر میں کہاں چھپاؤں۔ انگلی کے ناخن کی جسامت رکھنے والا یہ چھوٹا سا شہابیے کا ٹکڑا بے حد گرم ہے۔ اور یہ بلیکس کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے۔ میرا کوٹ تو گاڑی میں تھا ورنہ اس میں چھپا لیتا‘‘۔
’’کیا سوچنے لگے؟‘‘ ایک بلیک یہ کہتا ہوا حافظ جان کی طرف آیا۔
شاید اسے شک ہوگیا تھا۔ اس نے ان کے ہاتھ میں پتھر دیکھا تو کہا: ’’دکھاؤ مجھے یہ پتھر۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے حافظ جان کے ہاتھ سے وہ پتھر چھینا۔ اگلے ہی لمحے اس کا ہاتھ جلنے لگا، وہ بلبلا اُٹھا اور پوچھنے لگا:
’’یہ کیا بات ہے، اس پتھر کو پکڑتے ہی میرا ہاتھ جلنے لگا، جب کہ تم اتنی دیر تک اسے پکڑے رہے‘‘۔
حافظ جان مسکرا کر بولے: ’’میں نے ہاتھوں میں ایسا کیمیکل مَلا ہوا ہے، جو جلنے کا اثر زائل کردیتا ہے۔ اب تم اپنا کوٹ اُتار کر دو تاکہ میں یہ پتھر اس میں لپیٹ دوں، مجھے اس میں سونے کے ذرات چمکتے ہوئے نظر آرہے ہیں‘‘۔
بلیک نے اپنا کوٹ اُتار کر حافظ جان کو دیا۔ انہوں نے وہ پتھر کوٹ میں لپیٹ دیا۔
’’لاؤ، یہ کوٹ اب مجھے دو‘‘۔ بلیک نے کہا۔ عین اسی لمحے فضا میں گڑگڑاہٹ ہوئی۔ آسمان پر روشنیوں کا ایک جھرمٹ دامنِ شب کی تاریکی میں محو پرواز تھا۔ بلیکس نے آسمان پر نظر ڈالی۔ حافظ جان، سعید اور فرید نے بلیکس کو غفلت میں پایا تو ان پر حملہ کردیا۔ پھر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حافظ جان، سعید اور فرید نے تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد ان سے پستول چھین کر اندھیرے میں پھینک دیے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا، روشنیوں کا جھرمٹ اپنی بلندی کم کرتے کرتے سطح زمین پر آرہا تھا۔ بلیکس حافظ جان، سعید اور فرید کے مقابلے میں مرتے جارہے تھے، پھر جب ہیلی کاپٹر نیچے آیا تو چار بلیکس مقابلے پر رہ گئے تھے۔ ایک کے مقابلے پر ایک بلیک تھا اور چوتھا بلیک کوٹ کی طرف دوڑا۔ بقیہ بلیکس بھی ملکِ عدم سدھارے تو حافظ جان کی نظر اس بلیک پر پڑی جس نے کوٹ اُٹھا لیا تھا۔ حافظ جان چلاّئے: ’’یہ کوٹ مجھے دے دو، ورنہ تمہیں شوٹ کردیں گے‘‘۔
بلیک نے کہا: ’’تم تینوں مل کر بھی مجھے شوٹ نہیں کرسکتے۔ چاہو تو تجربہ کرکے دیکھ لو‘‘۔
فرید کے ہاتھ میں جو پستول تھا، اُس سے اس نے تمام گولیاں بلیک پر برسائیں مگر بلیک نے ڈاجنگ کے ذریعے اچھل کود کرکے اپنے آپ کو بچالیا۔
حافظ جان نے کہا: ’’لگتا ہے تم ہاتھا پائی کرنا چاہتے ہو‘‘۔
بلیک ہنس کر بولا: ’’میں کراٹے کا ماہر ہوں‘‘۔
’’تو تم ٹانگا پائی کرنا چاہتے ہو‘‘۔
’’جو تم تینوں سمجھو‘‘۔
’’تم اکیلے ہو اور ہم تین‘‘۔
’’میں پھر بھی لڑوں گا، لڑکے مروں گا‘‘۔
’’ہم تم سے ایک ایک کرکے لڑیں گے‘‘۔
’’میں تو چاہ رہا ہوں کہ تم تینوں بیک وقت مجھ پر وار کرو‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔ ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے‘‘۔
’’لیکن دورانیہ مقرر کرلو‘‘۔ یہ کہہ کر بلیک نے وہ کوٹ جس میں پتھر تھا، ہیلی کاپٹر کی طرف پھینک دیا اور کہا: ’’اگر تم میں سے کوئی ایک اس کوٹ تک پہنچ گیا تو میں اپنی شکست تسلیم کرلوں گا‘‘۔
’’اور تم۔۔۔؟‘‘
’’میں تو جیت ہی جاؤں گا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے حافظ جان پر حملہ کردیا، سعید اور فرید حافظ جان کو بچانے کے لیے آئے تو بلیک نے انہیں فلائنگ کک رسید کیں، وہ دونوں فضا میں کئی قلابازیاں کھاتے ہوئے دور جاگرے اور نیچے گرنے سے جیسے ان کی ہڈیاں جھنجھنا اُٹھیں۔ ادھرحافظ جان ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے۔
n۔۔۔n۔۔۔n
رصدگاہ ’’یونیورسل اسکیچ‘‘ کے باہر محافظ پوری طرح چوکس تھے۔ وہ رات بھر جاگنے کے بعد بھی چاق وچوبند نظر آرہے تھے۔ پو پھٹنے میں کافی دیر تھی۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ پھر فائرنگ کی آواز سے فضا لرز گئی اور قریب ہی دو زبردست دھماکے ہوئے۔ رات کی تاریکی میں محافظ کچھ اندازہ نہ کر پائے کہ فائرنگ کہاں سے ہورہی ہے اور دشمن کتنی بڑی تعداد میں ہے۔
محافظوں کا کیپٹن موبائل کے ذریعے رصدگاہ میں سیکورٹی آفیسر سے رابطہ کررہا تھا:
’’دشمن ہم پر حملہ آور ہے۔۔۔ ہم فائرنگ کی زد میں ہیں اور رصدگاہ کے قریب دھماکے بھی ہوئے ہیں، شاید دشمن رصدگاہ میں داخل ہونا چاہتا ہے، ہم انہیں روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔ دشمن عمارت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔۔۔ اندھیرے کی وجہ سے اندازہ نہیں کہ دشمن کہاں سے حملہ کررہا ہے اور تعداد کتنی ہے‘‘۔
رصدگاہ کی چھت پر نصب لائٹیں روشن ہوگئیں، جس سے آس پاس کا علاقہ روشن ہوگیا اور سارا منظر صاف دکھائی دینے لگا۔ عین اسی وقت ایک شیل قریب آکے پھٹا اور ہر طرف گیس کے بادل چھاگئے۔ یہ کلورین گیس تھی، جس کی دم گھونٹنے والی بُو ہوتی ہے۔ اس کے اثرات سے سارے محافظ بے ہوش ہوگئے۔
رصدگاہ کی لائٹیں بجھ گئیں تاکہ دشمن روشنی کا فائدہ نہ اُٹھائے اور عمارت میں داخل نہ ہو، لیکن دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا!!
(باقی آئندہ)