قائداعظم محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پونجا جناح راج کوٹ کے رہنے والے تھے اور کراچی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ محمد علی جناح نے پڑھنے لکھنے کے بعد جب سیاست میں قدم رکھا تو ہندو اور انگریز آپ کی دلیرانہ اور فکر انگیز سیاست دیکھ کر گھبرا گئے اور مختلف سازشوں پر اُتر آئے، لیکن قائدؒ نے بڑی بہادری سے ان کے ہر شاطرانہ حربے کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور قوم کو ایک آزاد وطن لے کر دیا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔۔۔ یہ قائدؒ پر الزام ہے۔ قائدؒ کا تو ہر فرمان اسلام کی سچّی تصویر پیش کرتا ہے۔ وہ منافقین کی طرح اسلام، اسلام کی رٹ نہیں لگاتے تھے۔
مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیں:
’’ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا۔ ملازم نے کہا کہ اِس وقت ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں، آپ تشریف رکھیں۔ چوں کہ مجھے ضروری کام تھا، اس لیے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلاگیا۔ انہیں تلاش کرتا ہوا ایک کمرے سے دوسرے کمرے، پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو کسی کے بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی، یہ جناح صاحب کی آواز تھی، میں گھبراگیا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قائداعظمؒ سجدے میں پڑے اللہ کے حضور بہت ہی بے قراری کے ساتھ گڑگڑا کے دعا مانگ رہے ہیں۔‘‘
خواجہ اشرف احمد بیان کرتے ہیں:
’’مارچ1941ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا مسجد میں نمازِ عصر ادا کرنا تھی، جب قائدؒ تشریف لائے تو مرزا عبدالحمید تقریر کررہے تھے، مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، قائدؒ موٹرکار سے برآمد ہوئے تو انہوں نے اچکن، چوڑی دار پاجامہ اور بٹلر شوز پہن رکھے تھے۔ ان کی آمد پر لوگوں میں ہلچل پیدا ہوئی، لیکن لوگ فوراً سنبھل گئے کہ قائداعظمؒ نظم و ضبط والے انسان تھے۔ وہ مسجد کے بغلی دروازے میں داخل ہوئے اور لوگوں کے بے حد اصرار کے باوجود اگلی صف میں جانے سے انکار کردیا۔ نماز کے بعد قائدؒ نے جو کام فوراً کیا وہ یہ کہ اپنے جوتے اٹھا لیے، ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ قائدؒ کے جوتے اٹھانے کی سعادت حاصل کرے، لیکن ہرکسی کی حسرت ہی رہی۔‘‘
دہلی مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ امپیریل ہوٹل میں ہورہی تھی۔ خاکساروں نے گڑبڑ کی، سارا ہنگامہ قائداعظمؒ کے خلاف تھا، لیکن سارے ہنگامے میں جو شخص سب سے پُرسکون رہا، وہ خود قائداعظمؒ تھے۔ جب میٹنگ انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوگئی تو وہ بڑے اطمینان سے تنہا باہر جانے لگے۔ یہ دیکھ کر پیر آف مانکی شریف نے ان سے کہا: آپ اِس طرح باہر نہ جایئے، کہیں آپ کو کچھ ہو نہ جائے، ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ قائداعظم نے کہا: نہیں، اِس کی ضرورت نہیں۔ اور آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا: کیا اللہ وہاں نہیں؟ اسی طرح 1946ء میں جب قائداعظم شملہ تشریف لے گئے تو بعض لیگی کارکنوں نے محسوس کیا کہ ان کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک کارکن نے ان سے کہا: جناب، ہمیں معلوم ہے کہ دشمن آپ کی جان کے درپے ہیں، اجازت دیجیے کہ ضروری حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ جس پر قائداعظمؒ نے فرمایا: مجھے اللہ کی ذات پر بھروسا ہے، وہی سب سے بڑا محافظ اور چارہ ساز ہے، آپ فکرمند نہ ہوں۔
اپریل 1945ء میں قائداعظمؒ خان آف قلات کی دعوت پر بلوچستان تشریف لے گئے۔ اِس موقع پر خان آف قلات نے ان سے بچوں کے ایک اسکول کے معائنے کی درخواست کی۔ قائداعظمؒ ننھے منے بچوں میں گھل مل گئے۔ قائد نے ایک بچے سے خان آف قلات کی جانب اشارہ کرکے پوچھا: یہ کون ہیں؟ بچے نے جواب دیا: یہ ہمارے بادشاہ ہیں۔ قائداعظم نے بچے سے پوچھا: میں کون ہوں؟ بچہ بولا: آپ ہمارے بادشاہ کے مہمان ہیں۔ قائد نے پھر بچے سے پوچھا: تم کون ہو؟ بچے نے جواب دیا: میں بلوچ ہوں۔ قائداعظم نے خان آف قلات سے کہا: اب آپ اِن بچوں کو پہلا سبق یہ پڑھایئے کہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔ پھر بچوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: پیارے بچو، تم پہلے مسلمان ہو، پھر بلوچ یا کچھ اور۔۔۔
قائداعظم کے معالج ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کے لیے ہم ان کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے انہیں بات چیت سے منع کر رکھا تھا، اس لیے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے۔ اِس ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کے لیے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: تم جانتے ہو، جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اِسے کبھی نہیں کرسکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اِسے خلافتِ راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے، پاکستان میں سب کچھ ہے، اِس کی پہاڑیوں، ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی، انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے۔ قومیں نیک نیتی، دیانت داری، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں، منافقت، زر پرستی اور خود پسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں۔‘‘
افسوس کہ آج پاکستان کو چلانے والے رہنما ملک وقوم سے مخلص نہیں۔ وہ سیاست میں اس لیے آتے ہیں تاکہ ملک وقوم کا خزانہ لُوٹ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام آدھی صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی بنیادی سہولتوں سے آج بھی محروم ہیں۔