یہی مومنوں سے خدا چاہتا ہے
عبداللہ کی پُرسوز آواز پورے پنڈال میں گونج رہی تھی اور لوگ ایک عجیب سحر کے عالم میں تھے۔ ان کی زبانوں پر خودبخود درود شریف جاری تھا۔ عبداللہ خود بھی ایک وجد کے عالم میں تھا۔ آنکھیں بند کیے نعت کے الفاظ دہراتے وہ خیالوں میں مدینہ منورہ کی اسی پاک فضا میں پہنچ گیا تھا۔ نعت ختم ہوچکی تھی۔ لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہے تھے۔ اور عبداللہ اپنے چہرے سے پسینہ صاف کررہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ وہ نوعمر تھا۔ بچپن سے ہی گھر میں دین کا ماحول تھا۔ والد صاحب مشہور نعت خواں تھے۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ہر جگہ نعت خوانی کی محفلوں میں جایا کرتے تھے۔ عبداللہ جب آٹھ سال کا ہوا تو وہ اسے بھی اپنے ساتھ محفلوں میں لے جانے لگے۔ گھر میں بھی وہ اسے نعت خوانی کے طریقے اور آداب سکھاتے، اسے مختلف نعتیں یاد کراتے، تلفظ درست کرواتے، لفظوں کی ادائیگی بتاتے، اتارچڑھاؤ سکھاتے۔ کس لفظ کو کتنا کھینچنا ہے، کس لفظ پر اور اس کے کس حرف پر کتنا زور دینا ہے،کون سی لائن کتنی بار پڑھنی ہے، کون سی لائن کو کب دہرانا ہے۔ وہ ایک ماہر استاد تھے اور اب اس فن کو اپنے بیٹے میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ عبداللہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سے بڑی دو بیٹیاں تھیں۔ وہ انہیں بھی ساتھ ساتھ یہ سب سکھاتے۔ اس کی بہنوں کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ وہ جب نعت پڑھتیں تو لوگ جھوم جاتے۔
عبداللہ جب نعت پڑھنے لگتا تو وہ نعت کے الفاظ میں کھو جاتا۔ وہ الفاظ اس کے ذہن میں مناظر تخلیق کرتے۔ وہ اسی ماحول، اسی فضا میں جا پہنچتا۔ اسے لگتا کہ وہ مدینہ منورہ کی اسی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے۔ فضا میں ایک نور سا پھیلا ہوا ہے۔ ایک خاموشی سی ہے، مگر اس خاموشی میں ایک گہرا سکون پوشیدہ ہے۔ سب باادب ہیں، باوضو ہیں۔ خاموش، پرسکون بیٹھے ہیں۔ صرف ایک اس کی آواز کائنات میں جاری و ساری ہے اور اس کی آواز کے ساتھ کائنات کی ہر چیز درودِ پاک پڑھ رہی ہے۔ اور وہ اس منظر میں اتنا کھو جاتا، محو ہوجاتا کہ حال کی دنیا سے بے خبر ہوجاتا اور بھول جاتا کہ وہ کہاں پر ہے۔ اسے ہلا کر واپس حال میں لانا پڑتا۔
اس کے والد اسے سمجھایا کرتے کہ لگن سے پڑھنا اچھی بات ہے مگر اپنے اردگرد سے بھی واقف رہا کرو۔
اب وہ بڑا ہورہا تھا اور اسکول میں بھی پڑھ رہا تھا۔ اور والد صاحب کے ساتھ محفلوں میں باقاعدگی سے جانے لگا تھا۔ جب اس کے والد صاحب نعت پڑھتے تو اکثر لوگ نوٹ نچھاور کرتے۔ مگر والد صاحب نے کبھی ان نوٹوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ہمیشہ منتظمین ہی انہیں جمع کرتے اور اٹھا کر لے جاتے۔
ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوچکا تھا اور اِس ماہ اس کے والد صاحب معمول سے زیادہ مصروف رہا کرتے تھے۔ مختلف محفلوں سے بلاوا آتا اور روزانہ ہی تقریباً دو یا اس سے زائد محافل میں ان کی شرکت ہوتی۔ موسم انگڑائی لے چکا تھا۔ سردیوں کی آمد تھی اور ساتھ ہی بیماریاں بھی ہمراہ تھیں۔ والد صاحب کو ایک ہفتہ سے بخار تھا مگر کسی کو انکار کرنا مناسب نہ لگا۔ مگر اب طبیعت زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کی سختی سے تاکید کی تھی۔ اس دن بھی ایک بڑی محفل تھی۔ ان کی طبیعت دیکھ کر منتظمین نے عبداللہ کو لے جانے کی اجازت طلب کی۔ وہ اکیلے اسے بھیجنا نہیں چاہتے تھے مگر منتظمین کے اصرار پر مجبور ہوگئے۔
محفل شروع ہوئی۔ عبداللہ نے نعت پڑھنی شروع کی۔ معصوم آواز، پُرسوز لہجہ اور خوبصورت ترنم۔۔۔ لوگ اس کی آواز کے سحر میں ڈوب گئے۔ عبداللہ خود بھی ایک دوسری دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ والد کی عدم موجودگی کی وجہ سے آج اس کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ پڑھتا رہا۔ لوگ جھوم رہے تھے۔ اس پر نوٹوں کی بارش ہورہی تھی۔ منتظمین انہیں جمع کررہے تھے۔
رات گئے محفل ختم ہوئی۔ وہ گھر جانے لگا تو منتظمین نے اسے ایک لفافہ دیا۔ اس نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا۔ انہوں نے اصرار کیا تو اس نے کہا:
’’میں نے یہ نعتیں اپنے آقاؐ کی محبت میں پڑھی ہیں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے اس کے کہ میری یہ کوشش میرے محبوبؐ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے۔‘‘
گھر پہنچا تو والد صاحب سو چکے تھے۔ دوسری صبح جب وہ ان کا حال پوچھنے کمرے میں گیا تو وہ کافی بہتر نظر آرہے تھے، انہوں نے اس سے رات کی محفل کا حال معلوم کیا۔ پھر کافی دیر گفتگو کے بعد انہوں نے کہا:
’’بیٹا، منتظمین نے تم کو ایک لفافہ دیا ہوگا۔ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’بابا، وہ تو میں نے ان کو واپس کردیا تھا‘‘۔ اس نے بتایا۔
’’لیکن کیوں بیٹا؟‘‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’بابا، میں نے نعتیں پیسوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاؐ کی محبت میں پڑھی ہیں۔ اور ویسے بھی ہدیہ تو وہ آپ کو پیشگی دے ہی چکے ہیں۔ یہ تو ویسے بھی نذرانہ تھا جو لوگ نچھاور کرتے ہیں۔ یہ ہم کیوں لیں؟ اور ویسے بھی بابا، آپ نے بھی تو کبھی ان نوٹوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’بے وقوف‘‘ والد صاحب غصے میں آگئے۔
’’میں اسٹیج پر نوٹ جمع کرتا کیا اچھا لگوں گا! یہ تو ہمارا ان سے معاہدہ ہوتا ہے، پچاس فیصد کا۔ وہ اپنا حصہ رکھ کر ہمارا ہمیں دے دیتے ہیں۔ بے وقوف، سب انہیں ہی دے آیا۔ پتا نہیں کتنے ملے ہوں گے، اسی لیے میں تمہیں اکیلے بھیجنا نہیں چاہ رہا تھا‘‘۔ وہ اس کی بے وقوفی پر ماتم کررہے تھے اور اس کا معصوم ذہن صرف لفظ ’’معاہدہ‘‘ میں اٹکا ہوا تھا۔
nn