(ڈاکٹر نثار احمد نثار)

265

کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت فہیم الاسلام انصاری نے کی‘ شکیل احمد ایڈووکیٹ مہمان خصوصی تھے، جب کہ مجید رحمانی نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ پروگرام میں سب سے پہلے عبدالصمد تاجی نے حکیم انجم فوقی کے بارے میں ایک تاثراتی خاکہ پیش کیا ،جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ حکیم انجم کے انتہائی قریبی احباب میں شامل ہیں۔حکیم انجم فوقی ایک کہنہ مشق شاعر‘ ادیب اور محقق ہونے کے علاوہ تصوف میں بھی دسترس رکھتے تھے، ان پر تحقیقی مقالہ جات لکھے جارہے ہیں۔ ان کی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔ اس موقع پر خالق ڈار نے ایک نثری نظم پیش کی۔ عملدار حیدر نے افسانہ سنایا ،جس کا عنوان تھا ’’اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا ہوں‘‘ اس افسانے میں انہوں نے بتایا کہ دورِ حاضر بہت سی خرابیوں کا حامل ہے، آج کا معاشرہ آہستہ آہستہ بے حس ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں‘ حاکم وقت چاہتا ہے کہ میں اس کی شان میں قصیدہ کہوں، لیکن مجھے تو قصیدہ گوئی نہیںآتی۔ اس افسانے میں ہر کردار نے اپنا کردار عمدگی سے ادا کیا، جس کی وجہ سے افسانہ کام یاب ہوا۔ مہتاب شاہ نے ایک نثری نظم پیش کی ،جس میں انہوں نے انسانی ضمیر کو جگانے کی کوشش کی ،انہوں نے اس نظم میں ہر شخص کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہر فرد اپنے کام سے انصاف کرے تو معاشرتی برائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔
الحاج نجمی نے غزل سنا کر خوب داد وصول کی۔ سلیم عادل نے ایک افسانہ پیش کیا ،جس میں انہوں نے بتایا کہ پسند کی شادی کرنا ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ اس افسانے کی ہیروئن نے اپنے مخالف قبیلے کے ایک فرد سے محبت کی اور کورٹ میں جاکر شادی کرلی اور دونوں نے اپنا گاؤں چھوڑ دیا۔ لڑکی کے خاندان والے اس لڑکی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے لڑکی کے شوہر کو مار دیا، لیکن لڑکی ہاتھ نہ آئی ، اس نے ایدھی سینٹر میں پناہ حاصل کی۔ اس افسانے میں نسیم انجم نے وڈیرے شاہی کے مظالم بیان کیے ہیں اور یہ اصلاحی افسانہ تھا۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سماجی مسائل کو عیاں کرنا ہر قلم کار کا فرض ہے، اس نشست میں شامل ہر قلم کار نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ آج کی یہ نشست بہت کام یاب ہے کہ ہم نے اس نشست سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ آج ہم نے نثر‘ افسانے‘ نظمیں اور غزلیں سماعت کیں، اس کا اندازہ ہوا کہ لفظوں کی نشست و برخواست سے تفہیم پیدا ہوتی ہے، اس قسم کی نشستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ صمد تاجی کا خاکہ بہت خوب صورت ہے ، اس میں بہت سے راز عیاں ہوئے ہیں، اس فن پارے میں تصویری رنگ نمایاں ہے۔
عملدار حیدر کا اظہاریہ تمثیلی رنگ لیے ہوئے تھا۔ یہ ایک جہدِ مِسلسل کا پیغام بر ہے۔ اس میں طبقاتی کشمکش کو پینٹ کیا گیا ہے۔ وجیہ ثانی نے ایک منفرد نظم پیش کی، جس میں انسانیت کو درپیش خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ زیب اذکار نے کہا کہ سلیم آذر نے جو افسانہ پیش کیا، اس میں انہوں نے داخلی اور خارجی کیفیات کو بہ احسن طریقے سے پیش کیا ہے، انہوں نے آج کے دور کی سچائیاں رقم کی ہیں، آج کل میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے، سلیم آذر نے اپنے افسانے میں ان موضوعات کو ڈسکس کیا ہے۔ انہوں نے معاشرے کے منفی رویوں کو اجاگر کیا ہے۔ نسیم انجم کے بارے میں زیب اذکار نے کہا کہ نسیم انجم ہمارے ادب کا اثاثہ ہیں، یہ بہت سینئر افسانہ نگار ہیں ان کے ایک افسانے کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے آج کے افسانے میں خاندانی رقابتوں کا ذکر کیا ہے اور عورت کی کم مائیگی کا نوحہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ’’ایدھی ہوم‘‘ بے سہاروں کا سہارا ہے۔ زیب اذکار نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں مزید کہا کہ الحاج نجمی کی غزل بہت اچھی تھی۔ صاحبِ صدر فہیم الاسلام انصاری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی اردو زبان و ادب کے لیے مصروف عمل ہے اس کمیٹی کے تحت ادبی پروگرام ہوتے رہتے ہیں ،آج کی نشست میں پیش کردہ تمام تخلیقات قابل ستائش ہیں اور قلم کار نے معاشرتی خرابیوں پر نشتر زنی کی ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
الفا ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام الفا سیکنڈری اسکول، بوہرہ پیر میں محفل میلاد النبیؐ اور نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ محفل میلاد میں طلبہ و طالبات نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک پر تقاریر اور نعتیں پیش کیں۔ اس اسکول میں ہر سال جشن میلاد النبیؐ بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے‘ اسکول انتظامیہ‘ اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اپنی بساط بھر کوششیں کر رہی ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ تقری کے دوسرے دور میں نعتیہ مشاعرہ ہو،ا جس کی صدارت رونق حیات نے کی۔ طاہر سلطانی مہمان خصوصی تھے۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحبِ صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نعتیہ شاعری ہماری تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا حصہ ہے۔ نعتیں سن کر ہمارا ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ نعت رسولؐ سننا‘ پڑھنا اور لکھنا عین عبادت ہے۔ نعتیہ شاعری بھی اظہارِ عقیدت کا ایک ذریعہ ہے، لیکن اس صنف سخن میں غلو کی گنجائش نہیں ہے۔ نعت کہتے وقت بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ،کیوں کہ آپ کی ذرا سی کوتاہی قابلِ گرفت ہوجاتی ہے۔ نعت میں‘ مضامین میں شمائیل رسولؐ سیرت رسولؐ شامل ہیں، لیکن اب نعت کا دائرۂ کار وسیع ہوگیا ہے اب نعتیہ شاعری کو اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہ بھی اچھا اقدام ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ نعتیہ ادب میں غیر مسلم شعرا کا کلام بھی سامنے آرہا ہے۔ نعتیہ ادب پر پہلے سے زیادہ مطالعاتی اور تحقیقی کام ہورہا ہے‘ پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں‘ نعتیہ محفلوں کا انعقاد تسلسل سے جاری ہے، خاص طور پر ربیع الاوّل کے مہینے میں جشن میلاد النبیؐ کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ الفا ایجوکیشنل سوسائٹی کے اراکین و عہدیداران قابل مبارک باد ہیں کہ وہ اپنے اسکولوں میں اسلامی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ مہمان خصوصی طاہر سلطانی نے کہا کہ آج تمام شعرا نے بہترین کلام پیش کیا۔ اسکول انتظامیہ نے بہت اچھا پروگرام ترتیب دیا ہے،طلبہ و طالبات اور ٹیچرز نے بڑی دل جمعی اور ذوق و شوق سے نعتیہ کلام سنا، میں اس شان دار پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت کی ترویج و اشاعت ہمارے عہد کی ضرورت ہے۔ نعتیہ ادب کا فروغ ہماری ذمے داری ہے ۔کیوں کہ رسالت مآبؐ سے محبت ہمارا ایمان ہے۔ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سے الفا ایجوکیشنل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری شکیل احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تمام اسکولوں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی جاری ہیں، ہمارا منشور یہ ہے کہ ہم قوم کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ جو قومیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، ان کا مستقبل تاب ناک ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت کی محافل سجانا بھی ہمارے ادبی پروگرام میں شامل ہے۔ الفا ایجوکیشن سوسائٹی کے جوائنٹ سیکرٹری منظور احمد نے کہا کہ جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے‘ فلاح نہیں پاسکتے۔ سیرت رسولؐ کی پیروی ہمارے یے ضروری ہے۔آج کے عالمی منظر نامے میں بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بات سوچنے کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر قوم کی بہتری کے لیے کام کریں۔مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) یوسف چشتی‘ گل انور‘ ضیا شہزاد‘ محسن سلیم‘ سعد الدین سعد‘ الحاج نجمی‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ عاشق شوکی اور علی کوثر نے نعتیہ کلام پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
پروفیسر جاذب قریشی نے کہا ہے کہ نئے لکھنے والے ہمارے ادب کا مستقبل ہیں نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ جب تک زبان و ادب کے معاملات نئی نسل تک منتقل نہیں ہوں گے، ہماری ادبی اقدار پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ہر زمانے میں نئے لکھنے والے سامنے آتے رہتے ہیں ،لیکن ان میں سے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور کچھ لوگ مسافتوں سے خوف کھاتے ہوئے راستے سے پلٹ جاتے ہیں۔ شاعری ایک مشکل کام ہے، لہٰذا نوجوان شعرا کو چاہیے کہ وہ مطالعے پر زور دیں اور ادبی گروہ بندیوں سے دور رہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے النسا کلب گلشن اقبال میں نگارشات پاکستان کے زیر اہتمام ادارۂ فکرِ نو اور تنظیم فلاحِ خواتین کے تعاون سے پروفیسر لبنیٰ منظر اور فیصل عظیم کے اعزاز میں منعقدہ محفلِ مشاعرہ کے موقع پر خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کیا، جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ انور شعور‘ کرامت بخاری‘ رفیع الدین راز اور سعید الظفر صدیقی مہمانان خصوصی اور مہمانان توقیری تھے، سلمان صدیقی نے نظامت کی۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانانِ توقیری اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام نذرِ سامعین کیا، ان میں پروفیسر جاذب قریشی‘ فراست رضوی‘ عارف شفیق‘ رونق حیات‘ فیروز ناظق خسرو‘ نسیم نازش‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ خالد معین‘ ریحانی روحی‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ رخسانہ صبا‘ سراج الدین سراج‘ اختر سروش‘ عظیم حیدر‘ ریحانہ احسان‘ غزل انصاری‘ کاشف حسین غائر‘ آئرن فرحت‘ ہدایت سائر‘ شاعر علی شاعر‘ ظفر خان‘ آمنہ عالم‘ وقار زیدی‘ نوید اکمل‘ عاشق حسین شوکی‘ علی کوثر‘ یاسر سعید‘ یاسمین یاس‘ عرفانہ پیرزادہ اور شہلا سلیم شامل ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نئے لکھاری بھرپور توانائی کے ساتھ ادبی منظر نامے میں داخل ہوں، ورنہ ان کا وجود مٹ جائے گا۔ اس وقت کراچی کے بہت سے نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں، مجھے ان شعرا سے اچھی امیدیں ہیں۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ وہ آرٹس کونسل کے حوالے سے بھی ادبی پروگرام منعد کراتے ہیں، جن میں نوجوان شعرا کو دعوتِ کلام دی جاتی ہے۔نوجوان شعرا کی پذیرائی ہماری اخلاقی ذمے داری ہے، تاہم نوجوان شعرا کا فرض ہے کہ وہ اپنے سینئر کا احترام کریں۔ تقریب کے میزبانوں میں اختر سعیدی بھی شامل تھے، جنہوں نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوءؤ کہا کہ اب ادبی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں، کیوں کہ شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ کراچی محبت والوں کا شہر ہے، ہم اپنے مہمان شعرا کے لیے ادبی محافل سجاتے رہیں گے۔ آج کا پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حصہ