152رب جمہوریہ شام بلاد عرب کا ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس کے باسی سرخ و سفید خوب صورت لوگ ہیں۔ اس کی مٹھائیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں اور بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ایک لاکھ پچاسی ہزار ایک سو اسی مربع کلو میٹر رقبے کا مالک یہ ملک ویسے تو 1920ء میں ایک بادشاہت کی صورت میں معرض وجود میں آگیا تھا لیکن بعد میں اس پر اس زمانے کی ایک بڑی سامراجی قوت فرانس نے قبضہ کرلیا تھا اور اس کو ان سے آزادی 1945ء میں 24 اکتوبر کو ملی لیکن اس وقت وہ ایک متحدہ عرب جمہوریہ کی صورت میں تھا جس سے 1965ء میں وہ علیحدہ ہوا اور اپنی شناخت قائم کی۔ 1963ء میں دنیائے عرب میں سوشلسٹ نظریات رکھنے والی قوم پرست تحریک بعث پارٹی نے زور پکڑا اور عراق اور شام میں اس کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ حافظ الاسد عرب ممالک میں سب سے طویل حکمرانی کرنے والی شخصیت رہی جن کا تعلق علوی شیعہ گروہ سے تھا‘ اس کے انتقال کے بعد اس کے غیر ملکی تعلیم یافتہ نوجوان بیٹے بشار الاسد نے عنان اقتدار سنبھالا۔
بشار الاسد نے اپنے دور اقتدار کے آغاز میں شامی قوم سے بہت سارے وعدے کیے اور جمہوری طرز حکومت اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور ظلم و جبر اور فسطائیت کی بنیاد پر چلنے والی حکومت مزید زور پکڑتی گئی۔
سال 2011ء عرب دنیا میں ایک نئی عوامی بیداری اور آزادی کی تحریک کا سال تھا جس کو ’’عرب بہار‘‘ Arab Spring کا حسین نام دیا گیا جس نے تیونس‘ لیبیا‘ مراکش‘ مصر اور پھر شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس عرب بہار کا جو اچھا برا نتیجہ مختلف ممالک میں نکلنا تھا وہ سب کے سامنے ہے لیکن شام میں یہ ایک خوف ناک خانہ جنگی کی صورت میں اس وقت موجود ہے۔ شام میں عرب نسل کے لوگ‘ جن کی اکثریت سنی عقیدہ کی حامل ہے‘ حکومت میں مؤثر نمائندگی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے حکومت مسلسل دباؤ کا شکار ہے اور کئی مرتبہ مسلح بغاوتوں کا ظہور ہوتا رہا ہے۔ لیکن بعث پارٹی کی حکومت اس کو سختی سے دباتی رہی ہے لیکن 2012ء سے شام میں جس بڑے پیمانے پر بغاوت ہوئی اس نے بہت جلد پورے ملک کو بری طرح سے تقسیم کردیا۔ شام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بشارالاسد کے خلاف اسکول کے بچوں کی وال چاکنگ سے شروع ہونے والی تحریک نے حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کرلی اور بہت جلد ایسا نظر آنے لگا کہ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ بہت قریب ہے۔
حکومتِ شام نے جب مخالف گروہوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو اس کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردعمل سامنے آیا اور حکومت امریکا نے فوجی کارروائیوں کی دھمکی دے دی لیکن عملاً ایسا نہ ہوا اوراور افغانستان اور عراق میں براہ راست مداخلت کے نتائج نے امریکی انتظامیہ میں جو خوف پیدا کیا ہے اس کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہ کرسکی۔ البتہ امریکی دھمکیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسری سپر پاور اور کمیونسٹ طاقت روس جو ولاد یمیر پیوٹن کی قیادت میں ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ بشار الاسد حکومت کو بچانے کے لیے میدان میں کود پڑا اور افغانستان کے بعد شام میں اپنی زمینی اور فضائی افواج کو استعمال میں لے آیا۔ اس سے پہلے شامی حکومت کو ایران کی مکمل حمایت اور عسکری امداد حاصل تھی۔ اسی طرح لبنان کی مسلح شیعہ تنظیم مشہور زمانہ ’’حزب اللہ‘‘ بھی پوری طرح سے بشارالاسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی تھی۔
دوسری طرف مخالف سنی گروہوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ 1980ء کی دہائی سے شام میں اپوزیشن کا کردار عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ادا کرتی چلی آرہی تھی لیکن عالمی سطح پر ’’القاعدہ‘‘ جیسی بڑی مسلح تنظیم کے ظہور کے بعد شام میں بھی اس کے زیر اثر تنظیمیں قائم ہوتی گئیں اور جلد ہی انہوں نے شام کے مختلف علاقوں میں اپنے حلقے قائم کر لیے۔ جبھۃ النصرہ جو اب جبھۃ فتح الشام کے نام سے موجود ہے‘ اس کی مثال ہے۔ امریکا کے جاسوسی ادرے سی آئی اے نے بھی مختلف شامی گروہوں کو یکجا کرکے FSA (فری سیرین آرمی) بنا ڈالی اور اس کو کثرت سے مالی و مادی حمایت سے نوازا جس سے یکدم وہ ایک بڑے علاقے پر قابض ہوگئی لیکن آہستہ آہستہ امریکی دلچسپی میں کمی اور واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کمزور ہوتی چلی گئی۔ سعودی عرب نے بھی بڑے پیمانے پر مختلف شامی گروہوں کی سرپرستی کی جو اس وقت 50 مسلح گروپوں کے اتحاد ’’جیش الاسلام‘‘ کے نام سے میدان میں موجود ہے۔
امریکی حکومت نے جس طرح عراق میں کردوں کی قوت کو بڑی خوبی سے استعمال کیا اسی طرح شام میں بھی ’’کرد پیش مرگہ‘‘ شمال میں ایک مؤثر فوجی گروہ کی صورت میں موجود ہے جس کو اسلحہ اور تربیت امریکی حکومت نے دی ہے۔
اس پورے عرصے میں جو سب سے بڑا عامل وجود میں آیا وہ ’’داعش‘‘ ISIL کا ہے جس نے پورے منظر نامے کو متاثر کیا ہے۔ ابو بکر البغدادی کی قیادت میں عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے ایک خلافت کا اعلان کیا اور اپنی متوازی حکومت قائم کردی۔ داعش نے ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہاں پر موجود شامی حکومت کے نمائندوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مقامی مجاہد گروپوں کا بھی قلع قمع کر دیا اور خاص طور پر اخوان المسلمون کے قائدین کو ہدف بنایا۔
داعش نے اپنے آپ کو صرف شام اور عراق تک محدود نہ رکھا بلکہ باہر کی دنیا میں بھی امریکا اور یورپی ممالک میں حملے شروع کردیے اور اپنے ان اقدامات کے ذریعے اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ داعش نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں ظلم وبربریت کی خوفناک مثالیں بھی قائم کیں اور بڑے پیمانے پر قیدیوں اور مخالفین کو بے دردی سے قتل کرکے ان کی وڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیں جس کا مقصد غالباً خوف و دہشت سے مخالفین کو مرعوب کرنا تھا۔
شام کے محاذ پر داعش کے ظہور نے بشار الاسد کے خلاف قائم محاذ میں ایک سنگین دراڑ پیدا کر دی جس کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت کو ہوا جہاں ایک طرف روس‘ ایران‘ حزب اللہ وغیرہ بشار الاسد کی پشت پر یکسوئی سے موجود رہیں وہاں امریکا‘ فرانس‘ برطانیہ جرمنی وغیرہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ترکی جیسی بشار مخالف قوتیں اپنے واضح ہدف سے تقریباً دست بردار ہوگئیں اور انہوں نے داعش کو زیادہ بڑا مخالف تصور کرتے ہوئے اس کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یعنی اگر ایک طرف روسی فضائیہ بری طرح سے حلب اور دیگر شہروں میں اپوزیشن فوجوں پر بم باری کرتی رہی تو دوسری طرف امریکا اور اس کے حلیف طاقتیں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتی رہیں اور بشار کی فوجوں کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ اپنے پسندیدہ محاذوں پر فوجی کارروائیاں کریں اور کھوئے ہوئے شہروں اور علاقوں میں کامیابیاں سمیٹیں۔
اسی پس منظر میں حلب میں شامی فوج کی کامیابی کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے۔ دارالحکومت دمشق سے بہت دور شمال میں ترکی کی سرحد کے قریب شام کا سب سے بڑا شہر حلب 2012ء کے بعد سے شامی حکومت کے قبضے سے نکل چکا تھا سنی اکثریتی آبادی کا یہ شہر ایک بڑا تجارتی اور کاروباری مرکزتھا جو اب کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کا دوبارہ شامی حکومت کے قبضے میں آنا بشار الاسد حکومت کے لیے فتح کا جشن منانے کا جواز بن گیا ہے لیکن جس بری طرح سے یہ تباہ و برباد ہوچکا ہے اور انسانی آبادی کے انخلا سے عملاً ایک شہرِ خموشاں اور قبرستان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ شہر کی 80 فیصد آبادی تو پہلے ہی یہاں سے نقل مکانی کر چکی تھی اب باقی ماندہ آبادی بھی اس کو چھوڑ کر چلی گئی اور شامی فوجی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال کرنے کے لیے شہر کے گلی کوچوں میں کوئی موجود نہ تھا۔
مسلسل محاصرے‘ بے پناہ بم باری اور ظلم وبربریت کے مظاہروں نے حلب میں انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب رقم کیا۔ روسی فضائی طاقت نے گزشتہ چند ماہ میں مسلسل بمباری کے ذریعے انسانی جانوں کا جس طرح سے اتلاف کیا اور عورتوں اور بچوں کو جس طرح مارا گیا وہ ایک عرصے تک انسانی ضمیر کو کچوکے دیتا رہے گا۔ اس بہیمانہ عمل میں تمام عالمی قوتوں نے شامی حکومت کا ساتھ دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں جنرل سیکرٹری بان کی مون نے اپنے خطاب میں ایک عجیب بات کی جس کو پوری دنیا میں ہر باضمیر انسان نے نوٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج اس ایوان میں ان حکومتوں کے نمائندے بھی موجود ہیں جنہوں نے شامی تنازع میں شامی عوام کے خلاف ہر طرح سے ہونے والے مظالم کو نظر انداز کیا ہے یا ان مظالم میں حصہ لیا ہے‘ مدد دی ہے‘ فنڈز دیے ہیں اور ان کے منصوبے بنائے ہیں۔
شامی بحران نے پہلے ہی عالمی سطح پر ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ 2 کروڑ کی آبادی رکھنے والے خوب صورت ملک شام سے نصف آبادی سے زائد یعنی ایک کروڑ سے زیادہ آبادی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو کر پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ترکی‘ لبنان‘ سعودی عرب نے لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھایا ہے۔ گزشتہ سال ترکی کے ساحل پر جب ایک شامی بچے آلان کردی کی ننھی سی لاش ملی تو اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا تھا اور اس کے نتیجے میں یورپی یونین کے ممالک نے اپنی سرحدیں شامی مہاجرین کے لیے کھول دیں۔ جرمنی نے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی اور ان کو تمام سہولتیں فراہم کیں۔ اسی طرح ترکی نے سب سے زیادہ 30 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ فراہم کی اور مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال قائم کی گزشتہ دنوں حلب شہر میں روسی بم باری سے تباہ ہونے والی بلڈنگ کے ملبے سے ایک پانچ سالہ بچہ زخمی حالت میں برآمد ہوا جس کی ایمبولینس میں سیٹ پر بیٹھ کر اپنے ماتھے سے خون پونچھتے ہوئے جو تصویر لی گئی اس نے پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا۔ بی بی سی کی خاتون اینکر اس تصویر کو دکھاتے ہوئے رو پڑی اور پورے عالمی میڈیا نے اس بچے کی تصویر کا ماتم کیا لیکن انہی ممالک کی حکومتوں نے اپنی فضائی افواج کو بم باری کے کام پر لگائے رکھا۔
روسی فضائیہ گزشتہ سال ستمبر 2015ء سے مسلسل بم باری میں مصروف ہے اس سال ستمبر میں کچھ عرصے کے لیے جنیوا مذکرات کی میز پر امریکا اور روس نے مل کر جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن چند ہی دنوں بعد شامی حکومت نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلب پر اپنے حملے نئے سرے سے شروع کردے۔
گزشتہ تین سال سے حلب شہر کے اکثر علاقوں میں پانی و بجلی بند رہی اور شہر مکمل محاصرے کی حالت میں رہا۔ وہاں موجود محاصرین جن میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد تھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ ان کے اسپتال ار طبی مراکز بھی بم باری کا شکار بنے۔ اقوام متحدہ کے ادارے اور عالمی فلاحی تنظیموں کے کارکنان اور ان کی گاڑیاں بھی بارہا بم باری کی زد میں آئیں۔ 19 ستمبر کو اقوام متحدہ کا ایک قافلہ حملے کا شکار ہو کر تباہ ہوا جسے روسی اور شامی جہازوں کی کارروائی قرار دیا گیالیکن انہوں نے تردید کردی اور ڈھٹائی سے اس کا الزام باغیوں پر لگا دیا۔