(بے نظیر ہم شرمندہ ہیں(سید اقبال چشتی

218

کلاس جاری تھی کہ آفس بوائے اکرام بھاگتا ہوا کلاس میں دا خل ہوا اور اپنی پھولی ہوئی بے قابو ہوتی سانسوں کو کنٹرول کرتے ہوئے کہنے لگا ’’سر بے نظیر بھٹو قتل کردی گئی ہیں‘انسٹی ٹیوٹ بند ہوگیا ہے‘ سب گھر جائیں۔‘‘
باہر نکلے تو قیامت کا منظر تھا۔۔۔ ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔۔۔ کسی کو کسی کی پروا نہیں تھی۔۔۔ ہرطرف اندھیرا اور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب۔ دس کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے گھر پہنچے۔۔۔ تمام راستے تباہی اور لوٹ مار کے مناظر نے قیامِ پاکستان کا وہ منظر‘ جو اپنے بزرگوں سے سنا تھا‘ سا منے آگیا۔
قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد ہندؤوں اور سکھوں کے ہا تھوں مسلمانوں کی املاک‘ جان و مال‘ عزت آبرو کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا ہوگا جس قدر قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور گھوسٹ لٹیروں سے پہنچا ہے۔ یہ لوٹ مار اور کرپشن کا سلسلہ قائد اعظم کے بعد سے اب تک جاری ہے اسی لیے شاید مولانا مودودیؒ نے کہا تھا کہ ’’قیام پاکستان کی جدوجہد کے ساتھ ایک ریاست کو چلانے والے نیک اور پاک باز لوگوں کو تیار کر نا بھی ضروری ہے۔‘‘ اور اس بات کی تصدیق خود قائد اعظم نے یہ کہہ کر کی تھی کہ ’’میری جیب میں جتنے سکے ہیں سب کھوٹے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کھوٹے سکوں نے پاکستان پر قبضہ کر لیا اور آج تک ان کرپٹ اور کرپشن کے شہنشاہوں کی حکمرانی قائم ہے۔۔۔ ہم بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’قائد ہم شرمندہ ہیں۔۔۔‘‘
’’محترمہ! ہم شرمندہ ہیں‘ تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘ یہ نعرہ بے نظیر بھٹو کی پہلی برسی پر لگایا گیا اور ہر سال لگتا رہا اور شاید اس بار بھی لگے۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کے ساتھ بھی نہیں ہوا تھا‘ جو اس ملک کے حکمرانوں اور نامعلوم لٹیروں نے مملکتِ خداد پاکستان میں رہنے والوں کے ساتھ کیا۔ راولپنڈی میں ایک ہجوم کے سامنے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا لیکن اتنے بڑے ہجوم نے ملک کی املاک کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا سندھ میں کراچی سے لے کر کشمور تک لوٹ مار کی گئی اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جس مجمع کے سامنے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا وہ پر سکون رہتا ہے لیکن پہلے سے تباہ حال سندھ کو نامعلوم گھوسٹ لٹیروں نے مزید تباہ کر دیا۔ ایسی کون سی پس پردہ قو تیں ہیں جو شر پسندوں کو اپنے مقا؂صد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ انہیں خفیہ ہاتھوں نے اِدھر بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر آنے کے بعد پورے سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ کرا چی میں آگ لگا دی گئی‘ سپر ہا ئی وے اور نیشنل ہا ئی وے پر اندرون سندھ اور اندرون ملک جا نے والے مال و اسباب سے لدے ٹرالروں کو لوٹنے کے بعد لائن سے آگ لگا دی گئی جس طرح 12 مئی کو لائن سے کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ لوگ پیٹرول ختم ہو نے کے باعث اپنی گاڑیوں کو نیپا کے پل اور دیگر جگہوں پر کھڑی کر کے پیدل گھر کی طرف چلے گئے تھے لیکن جب گاڑیوں کے مالکان دوسرے دن واپس گا ڑی لینے آئے تو تمام گا ڑیاں جلا دی گئی تھیں نہ صرف ٹرکوں اورگا ڑیوں پر ہا تھ صاف کیا گیا بلکہ بینکوں میں لگی ATM مشینوں کو بھی لو ٹ لیا گیا۔ اگر یہاں تک غم اور غصہ نکال لیا جاتا تو غنیمت تھا لیکن ان شرپسندوں کے آگے پوری انتظامیہ مفلوج نظر آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے کا پورا نظام 27 دسمبر کے دن تباہ کر دیا گیا۔ کراچی سمیت اندرون سندھ ریلوے کے تمام سگنلز توڑ دیے گئے جن کو بحال کرنے میں کئی سال لگ گئے۔ کیا یہ سب پہلے سے طے شدہ منصو بے کے تحت کیا گیا؟ ایسا لگتا تھا جیسے 12 مئی کو دہشت گرد اور شر پسند عناصر آزاد تھے‘ ان کو کو ئی پوچھنے والا نہیں تھا بالکل اسی طرح چند گھنٹوں میں لاڑکانہ سمیت پورے سندھ کو آگ لگا کر تباہ کرنے والے شر پسند آزادانہ کارروائیاں کر تے رہے اور حکومتی انتظامیہ پولیس اور رینجرز سمیت ایسے غائب تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ یہ سب کچھ جنرل مشرف کے دور میں ہوا لیکن بعد میں اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی نے اس ہنگامہ آرائی کے حوالے سے تحقیقات کیوں نہیں کرائی؟ کون لوگ تھے جنھوں نے سندھ کو تباہ کر نے اور نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش کی۔۔۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہلانے والی بے نظیر کے قتل کا وا قعہ پنجاب میں ہوا لیکن سندھ میں اس کی شدت نظر آئی‘ کیا پارٹی کے کارکنان دیگر صوبوں میں نہیں تھے؟ یقیناًپورے ملک میں پارٹی کارکنان ہیں لیکن جو یہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے بے نظیر کے قاتلوں کا پتا ہے‘‘ اُن کو سندھ میں ہنگامہ آرائی کرانے والوں کا بھی پتا ہے اس لیے آج تک نہ بے نظیر کے قاتلوں کے نام سامنے آئے اور نہ ہی شر پسند عناصر کے کیونکہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ قتل سے لے کر ہنگامۂ آرائی تک سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا جس طرح باقاعدہ ایک منصو بے کے تحت 70 کلفٹن کے حدود میں ہائی پروفائل شخصیت وزیراعظم کے بھائی کو قتل کر دیا گیا اور اس واقعہ کو ’’پولیس مقابلے‘‘ کا رنگ دیا گیا‘ آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ پو لیس وزیراعظم کے بھائی پر فائرنگ کا حکم دے دیتی ہے لیکن پورے سندھ کو آگ اور خون میں نہلانے نے والوں کے خلاف کوئی انتظامی افسر فائرنگ تو کیا کسی قسم کی کارروائی کا حکم نہیں دیتا۔
27 دسمبر کو سیکورٹی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ سیکورٹی ادارے کہاں تھے اور کارروائی کے لیے کس کی ہدایت کے منتظر تھے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بات اُوپر تک جا تی ہوئی نظر آتی ہو تو کون اس قسم کے واقعات پر نوٹس لے حکمرانوں کا ہر معاملے میں ’’مٹی پاؤ‘‘ کا اصول شر پسند عناصر کو مزید قوت فراہم کرتا ہے۔ جرائم کے خلاف اقدامات اور تحقیقات میں سستی کی وجہ سے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس کی مثال جب تین دن کے بعد کراچی شہر کی رونق بحال ہو ئی تو ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کے قتل کی افواہ نے پھر پورا کرا چی بند کر دیا تھا۔
یہ ڈر اور خوف عوام کے ساتھ ساتھ سندھ کے حکمرانوں کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے کار نا مے ایسے ہیں کہ یہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے قا بل ہیں اور نہ ہی عوام کا۔ جس بے نظیر بھٹو کے دور حکو مت میں اسلام کا دفاع کر نے کے لیے طالبان بنائی گئی آج پیپلز پارٹی سندھ کی حکو مت اپنی پارٹی کے بانی بھٹو کے آئین کی خلاف ورزی کر تے ہو ئے مسلمانوں کو خوش کر نے کے بجا ئے غیر مسلموں کو خوش کر رہی ہے‘ جو حکمران تبلیغ اسلام سے خا ئف ہوں اور اسلام کے نام پر حا صل کیے گئے ملک میں کم عمر افراد کے اسلام قبول کر نے پر پابندی لگا رہی ہو وہ بھلا کس طرح سندھ کی تعمیر و ترقی اور امن و امان کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ جس سندھ کو 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسم نے ہندو را جا کے ظلم و ستم سے آزاد کرا کے اسلام کی روشنی سے منور کیا اور باب الاسلام بنایا‘ اسی سندھ کے با لغ و عا قل‘ پڑھے لکھے جا ہل اسلام بے زار حکمران قبولِ اسلا م اورتبلیغ اسلام پر پابندی لگا رہے ہیں۔ مغربی دنیا بھی اسلام سے خائف ہو کر پردے، دا ڑھی اور تبلیغ اسلام پر پابندیاں لگا رہی ہے تو ادھر انگریز کی مخبریاں کر کے اسلام کو نقصان پہنچانے اور بڑی بڑی جا ئیدادیں بنانے والے بھی اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام مخالف اقدامات کر رہے ہیں۔ مغرب تو بھولا ہوا ہی ہے لیکن شا ید ہمارے حکمران بھی بھول جاتے ہیں اور تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جن لوگوں نے دین اسلام کو قید کرنے کی کوشش کی وہ خود ختم ہوگئے لیکن اسلام کی دعوت آج بھی زندہ ہے اسی لیے شاعر نے کہا تھا ’’کوئی لاکھ ہمیں پابند کرے اسلام کی دعوت زندہ ہے۔‘‘
2007 میں جو حکمران تھے آج امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں‘ سا نحہ 12 مئی 2007 کے ذمے دار اُس وقت سندھ کے وزیر داخلہ وسیم اختر اب مئیر کراچی ہیں اور جنرل مشرف جن کا کہنا کہ ان کا پاکستان سے باہر جا نا ایک جنرل ہی کی مہربانی کی وجہ سے ممکن ہوا‘ کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی کتاب میں ان واقعات پر بھی روشنی ڈالیں کہ کس نے کس کے کہنے پر معصوم جانوں اور املاک کو نقصان پہنچایا؟ جنرل مشرف اور زرداری کی پا رٹی نے اسلام مخا لف اقدامات کی کوششیں کیں جس کی و جہ سے دونوں اپنے ہی ملک میں آنے سے قاصر ہیں اور دو نوں ہی جانتے ہیں کہ بے نظیر کے قاتل کو ن ہیں۔
زرداری صاحب بے نظیر کی بر سی پر پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ان کے قدر دان ان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں تین چار دن سے زیادہ قیام نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’بے نظیر ہم شرمندہ ہیں‘‘ کے بعد کل آپ کی پا رٹی پھر کہہ رہی ہو ’’زرداری ہم شر مندہ ہیں۔۔۔‘‘

حصہ