146یاست کو ہمارے ملک میں اتنا گندا کردیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہی عام آدمی کے نزدیک بے ایمانی، دھاندلی اور لوٹ مار ہے۔ حقیقت میں اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سیاست کارِ انبیاء ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ہر نبی ان کی سیاست کو منضبط کرتا تھا۔ ایک نبی کے اٹھ جانے کے بعد دوسرا نبی یہ ذمہ داری سنبھال لیتا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جہاں منبر و محراب پر جلوہ افروز ہوئے، وہیں ایوانِ اقتدار میں سربراہِ مملکت کے فرائض بھی ادا کیے۔ اسلام کے نزدیک سیاست دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔ پاکستان میں بھی پاکباز سیاست دان ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں، اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر۔ ہم آج جس شخصیت کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں، اس کی دیانت و امانت، قابلیت و ذہانت اور جامع شخصیت کا ہر دوست اور دشمن معترف ہے۔ ہماری مراد جماعت اسلامی کے عظیم رہنما پروفیسر غفور احمد صاحب سے ہے، جو ماہِ دسمبر 2012ء میں داغِ مفارقت دے گئے۔
مرحوم سے براہِ راست ذاتی تعارف 1972ء میں ہوا۔ 5-A ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں سردیوں کی ایک دوپہر کو وہ اسلام آباد سے تشریف لائے۔ مجھے صاحبزادہ محمد ابراہیم صاحب کے ساتھ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور باہمی تعارف بھی ہوا۔ پروفیسر صاحب ان دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرکے آئے تھے۔ مرکز جماعت میں پروفیسر صاحب نے مولانا کو ان کے کمرے میں جاکر اسمبلی کے حالات و واقعات کی بریفنگ دی۔ پروفیسر صاحب جماعت اسلامی کے چار رکنی پارلیمانی گروپ کے لیڈر تھے۔ مولانا سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور اپنا نام بتایا۔ میرا ہاتھ چھوڑنے سے پہلے اپنی دائمی مسکراہٹ اور شیرینی کے ساتھ مجھ سے پوچھا: ’’اچھا تو آپ آج کل کیا کررہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کوئی خاص کام تو نہیں کررہا، البتہ گجرات میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام چھپنے والے ایک ہفت روزہ رسالے ’’الحدید‘‘ کی نگرانی کررہا ہوں‘‘۔ پھر کہا: ’’آپ نے ایم۔ اے کیا ہے تو اب پی۔ ایچ۔ ڈی کرلو‘‘۔ میں نے کہا: ’’ارادہ تو ہے مگر پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد کیا فرق پڑے گا سوائے اس کے کہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے گا۔‘‘
مرکزِ جماعت میں اُس زمانے میں جو بزرگ ذمہ داریاں ادا کررہے تھے، ہر ایک اپنی اپنی ذات میں انجمن اور منفرد شخصیت کا حامل تھا۔ شیخ فقیر حسین صاحب بڑے بذلہ سنج اور نکتہ طراز بزرگ تھے۔ قبل اس کے کہ پروفیسر صاحب مجھے کوئی جواب دیتے، شیخ صاحب نے جو پاس ہی کھڑے ہوئے تھے، فرمایا: ’’فائدہ تو بہت ہوگا، پروفیسر صاحب کو دیکھیے، چند سال کالج میں پڑھایا اور اب پروفیسری مستقل طور پر ان کے نام کا حصہ ہے۔ آپ بھی مستقل ڈاکٹر صاحب بن جائیں گے‘‘۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شیخ صاحب محترم پروفیسر صاحب سے اتنے بے تکلف ہیں۔ بعد کے ادوار میں کئی مواقع پر یہ عقدے مزید کھلتے چلے گئے۔ بہرحال اس موقع پر سید صدیق الحسن گیلانی صاحب اور خود پروفیسر صاحب کھلکھلا کر ہنسے۔
1973ء کے دستور میں اسلامی جمہوری دفعات شامل کروانے میں حزبِ اختلاف کی سبھی جماعتوں کا اہم کردار ہے مگر بنیادی مسودے میں ترمیمات اور حتمی آئین کی فقرے بندی پروفیسر صاحب کی قابلیت و مہارت کی مرہونِ منت تھی۔ 1973ء کے دستور کا جب بھی حوالہ دیا جائے، میرے ذہن میں پروفیسر صاحب کا نام گونجنے لگتا ہے۔ وہ اکیلے بھی ایک جماعت تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ وہ شرق و غرب سے واقف تھے مگر نہ مشرق کی بے خدا تہذیب کے پھندے میں آئے، نہ مغرب کے مادر پدر آزاد تمدن کی زلف کے اسیر ہوئے۔ خود جماعت کے اندر جس بات کو غلط سمجھا اس پر بے لاگ تنقید کی، مگر بازار اور اخبار میں نہیں، پراپر پلیٹ فارم کے اوپر۔ وہ ایک مردِ آفاقی تھے۔ حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے مگر اندازِ گفتگو میٹھا اور شیریں۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمر قند!
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند!
پروفیسر صاحب میں بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ مرنجاں مرنج انسان تھے، اپنی بے پناہ صلاحیتوں، شہرت، مقبولیت اور قابلیت کے باوجود ان کے اندر انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خوراک اتنی کم تھی کہ بعض اوقات تعجب ہوتا تھا کہ اس قدر بھاگ دوڑ کرنے اور فعّالیت کے ساتھ بلا تاخیر ہر اجلاس اور پروگرام میں پہنچنے والے یہ قائد اتنی کم خوراک کے ساتھ کیسے اتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ بہرحال اپنی آخری بیماری سے قبل وہ ہر لحاظ سے تو انا اور فِٹ تھے۔ ان کے اندر بے پناہ قوتِ ارادی تھی۔ نام و نمود اور نمائش سے ہمیشہ مجتنب رہے۔ پنجاب کے دور دراز اضلاع میں بھی ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا، بار کونسلوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے تو ان کا تعارف کرواتے ہوئے جب مقامی احباب تعریف و تحسین کے الفاظ استعمال کرتے تو وہ انھیں منع کردیتے اور فرماتے کہ پروگرام شروع کراؤ۔
پروفیسروں اور دانشوروں سے گفتگو ہو یا وکلا و صحافیوں کے سامنے اظہارِ خیال۔۔۔ جلسۂ عام ہو یا احتجاجی مظاہرہ۔۔۔ پروفیسر صاحب دس پندرہ منٹ میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کردیتے اور متعلقہ موضوع پر کوئی تشنگی نہ رہنے دیتے۔ صحافیوں کے ہر سوال کا جواب بھی ان کی طرف سے نپاتلا اور نہایت جامع ہوتا تھا۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں خاموشی کے ساتھ بیٹھتے اور اپنی باری پر اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے کہ کوزے میں دریا بند کردینے کا محاورہ مجسم صورت میں حقیقت کا روپ دھارتا نظر آتا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی رکنیت کے دوران انھوں نے جس بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کا ہر شخص معترف ہے۔ ان کی تقاریر میں کوئی شور ہنگامہ نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اپنی عظیم شخصیت اور مرتبے کے عین مطابق وہ پُرمغز نکات اٹھاتے اور ہر مؤقف مضبوط استدلال کے ساتھ پیش کرتے۔ 1973ء کے دستور کی منظوری کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد تو شہید ہوچکے تھے اور جماعت کے صرف تین ارکان اسمبلی میں رہ گئے تھے، مگر اللہ کے فضل سے جماعت کا وزن اسمبلی کے اندر اور باہر ہر جگہ مسلّم تھا۔ ان ارکان میں پروفیسر صاحب کے علاوہ محمود اعظم فاروقی صاحب (کراچی) اور صاحبزادہ صفی اللہ صاحب تھے جو دیر سے منتخب ہوئے تھے۔
پیپلزپارٹی کو 1970ء والی اسمبلی کے اندر، بچے کھچے پاکستان میں بہت بڑی اکثریت حاصل تھی اور اس کے بیشتر ارکان انتہائی زبان دراز بلکہ منہ پھٹ تھے۔ اس کے باوجود اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی گفتگو کے دوران ایوان میں پُروقار ماحول پیدا ہوجاتا تھا۔ سبھی ان کی بات غور سے سنتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملک کے مشہور اور بزرگ صحافی، مصطفی صادق مرحوم اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی جھلکیاں دیکھ کر آئے تو 5-A ذیلدار پارک میں مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ انھوں نے مولانا سے کہا: ’’مولانا ایوان میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی رکن کی کسی بات میں وزن اور تاثیر تھی تو یہ وہی ارکان تھے جو جماعت کی تربیت گاہوں سے ہوکر نکلے۔‘‘ پروفیسر غفور صاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب کا بالخصوص تذکرہ کرنے کے بعد مصطفی صادق نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جماعت کو چھوڑ کر چلے گئے مگر پیپلز پارٹی کے دور ارکان اسمبلی راؤ خورشید علی خان اور کوثر نیازی بھی جب بات کرتے تو محسوس ہوتا کہ انھیں بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے۔
میں کئی مرتبہ پروفیسر صاحب کو ملتے ہوئے ادب و احترام سے ان کے گھٹنے چھوتا تو گھٹنے پیچھے کرکے میرے شانوں پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے کہ ’’جیتے رہو‘‘۔ مرحوم کے یہ الفاظ ’’جیتے رہو‘‘ اتنے پیار بھرے لہجے اور محبت کے انداز میں سماعت نواز ہوتے تھے کہ ان کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ 26 دسمبر 2012ء کو اپنے اس عظیم محسن کو بستر پر جامد و ساکت دیکھا تو آنکھیں تر ہوگئیں۔ ان کی پیار بھری دعا شدت سے یاد آئی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ان جیسے لوگ کم ہی دنیا میں نظر آتے ہیں۔ لوگ اپنے مفادات کے پیچھے دوڑتے ہیں، وہ مقصدِ حیات پاگئے تھے اور ان کی ساری تگ و دو اسی کی خاطر وقف رہی۔
جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق!
اُس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندۂ آفاق ہے، وہ صاحبِ آفاق!
nn