(قائد اعظم کے خطاب کا تحقیقی جائزہ(خواجہ رضی حیدر

1038

مسلم معاشرے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور نمایاں اوصاف کے حامل افراد کو ان کی شخصیت سے مختص وصف و صلاحیت کے اعتراف کے طور پر خطاب و القاب دینے کی روایت قدیم و دیرینہ رہی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ میں بھی کئی ایسے صحابہؓ موجود تھے جن کو ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے القابات سے نوازا۔ خصوصاً حضرت عمیر بن عامر الدوسی الیمانی کو بلیوں کی جانب ان کی رغبت دیکھ کر آپؐ نے ’’ابوہریرہ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، اور یہ لقب ان کی ذات سے اس طرح پیوست ہوگیا کہ ان کا اصل نام معدوم ہوگیا اور وہ عالمِ اسلام میں ہمیشہ کے لیے ابوہریرہ کے لقب سے معروف ہوگئے۔ چنانچہ خطاب یا لقب دینا مسلم معاشرے کی ایک ایسی روایت بن گئی جو خلافتِ راشدہ سے خلافتِ عثمانیہ تک عام رہی ہے۔ حضرت نعمان بن ثابت اپنی کنیّت ’’ابوحنیفہ‘‘ سے اور محی الدین ابنِ عربی اپنے لقب ’’شیخِ اکبر‘‘ سے معروف ہوئے۔ ’’سیاست نامہ‘‘ کے مصنف اور سلجوقی سلطان الپ ارسلان کے وزیر ابوعلی الحسن نے ’’نظام الملک الطوسی‘‘ کے لقب سے شہرت پائی۔ جب مسلمانوں کا ہندوستان میں ورود ہوا تو یہاں بھی یہ روایت قائم و جاری رہی۔ مختلف شہنشاہوں اور حکمرانوں کو ان کے درباروں سے القابات اور خطابات دئیے گئے۔ اسی طرح شہنشاہوں اور حکمرانوں نے بھی اپنے درباروں سے وابستہ اہم اور باصلاحیت افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر خطاب اور لقب عطا کیے۔
برصغیر پاک و ہند میں بعض مغل شہنشاہوں نے جن میں جہانگیر اور اورنگزیب عالمگیر سرِفہرست ہیں، تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایسے خطابات اور القابات بذاتِ خود اختیار کیے جو عصری تاریخ میں ان کے کردار کے آئینہ دار ثابت ہوئے۔ القابات اور خطابات کی یہ روایت درباروں اور حکمرانوں تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ صوفیاء، علماء، ادباء اور شعراء میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور عوامی حلقوں کی جانب سے القابات اور خطابات دینے کے رجحان کو تقویت ملی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو’’سلطان الہند‘‘ اور ’’غریب نواز‘‘ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ’’سلطان الاولیاء‘‘ کہا گیا۔ سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو ’’داتا گنج بخش‘‘، سید عثمان ماروندی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’قلندر شہباز‘‘ ، حافظ عبدالوہاب کو ’’سچل سرمست‘‘ اور پیر صبغت اللہ شاہ کو ’’پیر پگارو‘‘ کے خطابات سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ علمائے دین میں حضرت شیخ احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خطاب ’’مجدد الف ثانی‘‘ سے معروف ہوئے۔ ملا عبدالعلی فرنگی محلی کو ’’بحر العلوم‘‘ کہا گیا۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’استاذ العلما‘‘، مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’اعلیٰ حضرت‘‘، مولانا اشرف علی تھانوی کو ’’حکیم الامت‘‘ اور مولانا محمود الحسن کو ’’شیخ الہند‘‘ کے خطابات سے شہرت ملی۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان میں انگریزوں اور مقامی ریاستوں نے بھی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے ’’خان بہادر‘‘، ’’شمس العلماء‘‘ اور ’’سر‘‘ جیسے خطابات سے ممتاز افراد کو نوازا۔ مثلاً سید احمد خان کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا اور یہ خطاب ان کے نام کا ایسا حصہ بن گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے سرسید ہوگئے۔ مرزا داغ دہلوی ’’فصیح الملک‘‘، نواب مشتاق حسین ’’وقار الملک‘‘، نواب مہدی علی خان ’’محسن الملک‘‘ اور حکیم محمد اجمل خان’’مسیح الملک‘‘ کے خطابات سے پہچانے گئے۔ اکبر الٰہ آبادی کو ’’لسان العصر‘‘، مولانا حبیب الرحمن شیروانی کو ’’صدریار جنگ‘‘ ، علامہ راشد الخیری کو ’’مصورِ غم‘‘ اور مولوی عبدالحق کو ’’بابائے اُردو‘‘ کے خطابات سے عمومی شہرت ملی۔
ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی کے دوران اس روایت کو عوامی سطح پر مزید مقبولیت حاصل ہوئی اور مختلف رہنماؤں کو خطابات دئیے گئے، مثلاً مولانا محمد علی جوہر کو ’’رئیس الاحرار‘‘ ، مولانا ابوالکلام آزاد کو ’’امام الہند‘‘، مولانا حسرت موہانی کو ’’سید الاحرار‘‘، علامہ اقبال کو ’’شاعرِ مشرق‘‘، نواب بہادر خان کو پہلے ’’بہادر یار جنگ‘‘ اور پھر ’’قائدِ ملت‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کو تحریکِ پاکستان کے دوران ’’قائدِ ملت‘‘ اور شہادت کے بعد ’’شہیدِ ملت‘‘ کے خطاب سے یاد کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ’’مادرِ ملت‘‘ کے خطاب سے معروف ہوئیں۔ عوامی تحریکات سے وابستہ افراد کو خطابات سے نوازنے کا جہاں ایک مقصد سامراجی حکومت کی جانب سے عطا کردہ سرکاری خطابات کی قدر و منزلت کو گھٹانا تھا، وہاں دوسری طرف ہندو رہنماؤں کے مقابلے میں مسلم قیادت کا اعتراف و اعلان بھی تھا۔
بیسویں صدی کے ابتدائی تین عشروں میں کسی رہنما کے لیے قائد کا لفظ تو بطور خطاب اکثر استعمال ہوتا رہا، البتہ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب خال خال ہی استعمال کیا گیا۔ لیکن تحریکِ پاکستان اور علیحدہ مسلم قومیت کے احساس کے فروغ کے ساتھ بالآخر یہ خطاب مسلمانوں کے مسلمہ رہنما محمد علی جناح کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا۔ بحوالۂ تاریخ برصغیر پاک و ہند میں یہ خطاب سب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ مولانا آزاد کی 10جنوری 1913ء کی ایک تقریر 1921ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئی تو اس کتاب کے پبلشر مشتاق احمد نے کتاب کے آغاز پر لکھا کہ ’’مولانا کی چشمِ حقیقت بیں اُس وقت سب کچھ دیکھ رہی تھی جو آج پیش آیا ہے۔ ایک حقیقی مصلح، ریفارمر یا ’’قائداعظم‘‘ میں یہ وصف ہونا لازمی ہے کہ آئندہ کے متعلق صحیح نتائج پر پہنچا جائے‘‘۔ اس کتاب کی اشاعت کے تقریباً دو برس بعد یعنی 31 مارچ 1923ء کو لکھنؤ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی مجلسِ استقبالیہ کے چیئرمین شیخ شاہد حسین نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں یہ خطاب ترکی کے رہنما مصطفی کمال پاشا کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا: ’’ملتِ ترکیہ جس کی قیادت اس وقت دنیائے اسلام کے وہ پُرجلال باجبروت ہیرو کررہے ہیں، جن کا پیارا نام مجدّدِ خلافت، بطلِ حریت، خالد ثانی، قائداعظم، غازی مصطفی کمال پاشا ہے‘‘۔
انڈین نیشنل کانگریس اور تحریکِ خلافت کے رہنما ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا ایک بیان شائع کرتے ہوئے لاہور کے ایک اخبار’’ انقلاب‘‘ نے اپنی اشاعت 6 اپریل 1928ء میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام کے ساتھ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا۔ اسی سال علی گڑھ سے سید طفیل احمد منگلوری کی ایک کتاب جداگانہ انتخابات کے بارے میں شائع ہوئی جس کے آخر میں نظامی پریس، بدایوں کی مطبوعات کے اشتہارات درج تھے، انہی اشتہارات میں سے ایک میں روس کے مشہور افسانہ نگار ٹالسٹائی کو ’’روس کا قائداعظم‘‘ لکھا گیا۔ 1928ء میں ہی ہندو رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کی تقریروں اور تحریروں کا ایک مجموعہ لالہ متعدی لال ہندی نے ’’بیدارئ ہند‘‘ کے نام سے ترتیب دیا۔ اس مجموعے کا ایک اشتہار کانپور کے رسالے ماہنامہ زمانہ کی اشاعت بابت 1929ء میں شائع ہوا جس میں گاندھی کے نام کے ساتھ بیک وقت ’’مہاتما‘‘ اور ’’قائداعظم‘‘ کے خطابات استعمال کیے گئے۔ بجنور سے شائع ہونے والے سہ روزہ اخبار مدینہ نے 13جنوری 1931ء کی اشاعت میں تحریکِ خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ایک تعزیتی شذرہ شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’’قائداعظم کی وفات‘‘۔ مدینہ اخبار کی اسی اشاعت میں ’’اشکِ خوں‘‘ کے عنوان سے خورشید آرا بیگم (بعد ازاں بیگم نواب صدیق علی خاں) کی ایک نظم شائع ہوئی جس میں مولانا محمد علی جوہر کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔ اس نظم کے ایک شعر میں بھی مولانا محمد علی جوہر کے لیے ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا گیا تھا، شعر یہ تھا:
الوداع اے قائدِ اعظم او بطلِ حریت
الوداع اے بہترئ قوم را روح الامیں
مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر مختلف رہنماؤں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں اور اخبارات نے خبروں اور ادارتی تبصروں میں اُن کے لیے قائدِ ملت، شہیدِ ملت، شہیدِ وطن، شہیدِ اسلام، رحیمِ ملت اور زعیمِ اعظم کے خطابات استعمال کیے، جب کہ دہلی کے ایک اخبار ’’ملت‘‘ نے ان کو اسلامی ملت کا قائداعظم قرار دیا۔ اسی طرح 1936ء میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نام کے ساتھ بھی ’’قائداعظم‘‘ لکھا گیا۔ دراصل ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کتابچہ شائع کیا گیا جس کے آخر میں علامہ اقبال کا ایک پیغام بعنوان ’’مسلمانانِ لاہور سے اپیل‘‘ درج کیا گیا۔ یہ کتابچہ غلام رسول خان بیرسٹر ایٹ لا سیکریٹری پنجاب مسلم لیگ، پارلیمنٹری بورڈ نے لاہور سے شائع کیا تھا۔ اس کتابچہ میں علامہ اقبال کے پیغام کے آغاز پر یوں لکھا گیا تھا: ’’مسلمانانِ پنجاب کے مخلص رہنما اور ’’قائداعظم‘‘ علامہ سر محمد اقبال کے حسبِ ذیل پیغام پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔
دراصل اس دور میں اُردو اخبارات و رسائل جب کسی اہم رہنما کی توقیر اور عزت افزائی چاہتے تھے تو اسے ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب سے نواز دیتے تھے۔ لیکن یہ عمل مستقل نہیں ہوتا تھا جس کی بناء پر قائداعظم کا خطاب کسی ایک رہنما کے نام سے وابستہ نہیں ہوسکا۔ اس عمل میں کوئی خاص تخصیص بھی روا نہیں رکھی جاتی تھی، جیسا کہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور نے کشمیر کے ایک مذہبی رہنما پیر حسام الدین جیلانی کی قید سے رہائی کی خبر 7جولائی 1932ء کو شائع کرتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا۔ مزید برآں پنجاب کے ایک شاعر مرزا بیضہ خاں امرتسری نے 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال پر اپنے منظوم خراجِ عقیدت میں ان کو ’’قائداعظم‘‘ کہا۔ یہ نظم 15نومبر1938ء کے روزنامہ انقلاب لاہور میں شائع ہوئی تھی۔
محمد علی جناح نے اپریل 1934ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ازسرِنو صدارت سنبھالی اور شبانہ روز جدوجہد سے بہت جلد مسلم لیگ کے تنِ مُردہ میں جان ڈال دی۔ اس دَور میں مسلمانانِ ہند کو نہ صرف ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی بلکہ وہ ایک ایسا رہنما بھی چاہتے تھے جو ان کی دیرینہ قومی امنگوں اور آرزوؤں کی آبیاری کرکے ان کو ایک تناور درخت کی شکل دے سکے۔ اور اُس دَور میں یہ بات طے پاچکی تھی کہ صرف محمد علی جناح ہی اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں، چنانچہ مسلمانوں نے ان کو 1936ء کے آخر میں اپنا ’’قائداعظم‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اپنے تاریخی تناظر اور تسلسل میں جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب کوئی غیر معمولی بات نہ تھی، کیوں کہ ان سے قبل بھی بہت سے رہنماؤں کو اس خطاب سے نوازا گیا، مگر جناح کو جس انداز میں اس خطاب سے نوازا گیا اور جس طرح یہ خطاب ان کی ذات سے مخصوص ہوکر رہ گیا وہ یقیناًغیر معمولی بات تھی اور اس کا تجزیہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب ملنے سے قبل ان کے نام کے ساتھ عموماً رائٹ آنریبل، زعیمِ ملت اور قائدِ ملت جیسے القابات استعمال کیے جاتے رہے، لیکن جیسے جیسے وہ مقبولیت حاصل کرتے گئے، ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب ان کے نام کا متبادل قرار پاتا چلا گیا۔ (جاری ہے )

حصہ