(گورنر جنرل کے منصب کا خیال(کرنل الٰہی بخش

243
 یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب قائداعظم علیل تھے اور کوئٹہ میں زیرعلاج۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ کوئٹہ میں اُن کا قیام خطرے سے خالی نہیں‘ تو میں نے اصرار کیا کہ وہ کراچی تشریف لے چلیں۔ لیکن ہر بار انھوں نے تجویز رد کردی۔ رات کو میں نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی۔ میرے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ قائداعظم بیماری کی حالت میں گورنر جنرل ہاؤس واپس نہیں جانا چاہتے۔ پھر انھوں نے ملیر کے بارے میں میری رائے پوچھی۔ میں نے عرض کیا‘ وہ بھی اچھی جگہ ہے، لیکن وہاں قیام کا مسئلہ ہوگا۔
ملیر میں نواب بہاولپور کی کوٹھی تھی جس میں قائداعظم کے قیام کا اہتمام ہوسکتا تھا۔ وہاں اُن دنوں ولی عہد صاحب فروکش تھے۔ تاہم اُن سے کوٹھی خالی کرانا چنداں مشکل نہ تھا۔ طے یہ پایا کہ پہلے قائداعظم کو رضامند کرلیا جائے۔ کیونکہ وہ 30 ستمبر کو لندن سے کراچی آرہے ہیں۔
28اگست کی صبح میں نے قائداعظم کی خدمت میں تمام صورت حال رکھی اور امیر بہاولپور کو تار ارسال کرنے کی اجازت چاہی۔ میری بات سن کر انھوں نے آنکھیں بند کرلیں اور قدرے توقف کے بعد فرمایا: ’’آپ نے سنا ہو گا‘ پہلے زمانے میں جب کوئی وکیل ہائی کورٹ کا جج بن جاتا تو کلبوں اور نجی محفلوں میں جانا ترک کردیتا تھا مبادا اُس کی غیر جانب داری پر اثر پڑے۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے گورنر جنرل کے اعلیٰ منصب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہم ضرورت مند ہیں لیکن میں اپنی ذات کی خاطر اس عظیم منصب کی عظمت خاک میں نہیں ملا سکتا۔ اس لیے تار دینے کی اجازت دینے سے معذور ہوں۔‘‘
پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں
نواب محمد یامین خان
دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہورہا تھا۔ ایک خوشامدی نے نعرہ لگایا:’’شاہ پاکستان زندہ باد!‘‘
قائداعظم بجائے خوش ہونے کے فوراً بولے: ’’دیکھیں‘ آپ لوگوں کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہوگا، وہ مسلمانوں کی جمہوریہ ہوگی جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہوگی۔‘‘
اعتماد کاووٹ
بیگم لیاقت علی خان
مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب مسلمانوں نے چاہا کہ مسلم لیگ کے صدر کا سالانہ انتخاب ختم کرکے قائداعظم ہی کو مستقل صدر بنانے کی قرارداد منظور کرائی جائے۔ مگر انھوں نے جواب دیا:
’’نہیں، سالانہ انتخابات نہایت ضروری ہیں۔ مجھے ہر سال آپ کے سامنے آکر آپ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے۔‘‘
میں نے بہت کچھ سیکھا
لیاقت علی خان
قائداعظم کے ساتھ بارہ برس کی رفاقت میں‘ مَیں نے چند نہایت اہم باتیں سیکھی ہیں۔ اوّل یہ کہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہو جس پر پوری طرح عمل کرنے سے قاصر رہو۔ دوسرے اپنے ذاتی تعلقات و رجحانات کو قومی مفاد میں خلل انداز نہ ہونے دو۔ اور اس معاملے میں دوسروں کے کہنے کی قطعاً پروا نہ کرو۔ تیسرے اگر تم سمجھتے ہو کہ کسی بات میں تم راستی پر ہو تو دشمن کے آگے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ ہرگز نہ جھکو۔
ہتک
عزیز احمد
ہم طلبہ سے دورانِ گفتگو انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوم کی زندگی اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بلالحاظ مرتبہ و حیثیت خود کو قوم کے مفاد کا نگہبان و محافظ سمجھے۔ اگر کسی کو ایسی حرکت کا مرتکب پائے جس سے قوم یا ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اپنا آرام و سہولت نظرانداز کرکے مرتکب کی گردن پکڑ لے۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنا ایک واقعہ بھی بیان کیا۔ فرمایا: ’’مدتوں پہلے کی بات ہے میں ایک دفعہ سفر کررہا تھا۔ اُن دنوں بہت کم لوگ مجھے جانتے تھے۔ میں نے درجہ اوّل کا ٹکٹ خریدا، مگر وہ سہواً ملازم کے پاس رہ گیا۔ جب میں منزلِ مقصود پر گاڑی سے اترا‘ تو مجھے ٹکٹ نوکر کے پاس چھوڑ آنے کا احساس ہوا۔ میں ٹکٹ کلکٹر کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں ٹکٹ بھول آیا ہوں۔ تم مجھ سے کرایہ وصول کرلو، میں خریدے ہوئے ٹکٹ کے داموں کی واپسی کا مطالبہ کرلوں گا۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر نے کہا: ’’تم مجھے دو روپے دو اور چلے جاؤ۔‘‘
اُس کا یہ کہنا تھا کہ میں وہیں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور کہا: ’’تم نے میری ہتک کی ہے۔ اپنا نام اور پتا بتلاؤ۔‘‘ لوگ جمع ہوگئے، اُن میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کئی ایک نے مجھ پر فقرے بھی چست کیے مگر میں وہاں سے نہ ٹلا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسافروں کو لوٹنے والا بابو برخاست ہوگیا۔‘‘
کم کھاؤ‘ آرام پاؤ
مطلوب الحسن سید
مسٹر محمود حسن ایک دن محمد علی جناح کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ جناح نے حسب معمول بہت تھوڑا سا کھانا کھایا۔ اُس کے بعد چھڑی اٹھا کر اسے اپنے ناخنوں سے بجانے لگے۔ (اس عادت سے اُن کے اکثر دوست واقف ہوں گے۔) مسٹر محمود جو اب تک کھانے میں مصروف تھے‘ کچھ خفت سی محسوس کرنے لگے اور بولے: ’’آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔‘‘
جناح نے جواب دیا:’’دنیا والے اسی لیے تکلیفوں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ کھاتے بہت ہیں۔‘‘
گورنر جنرل بھی‘ انسان بھی
ممتاز حسن
ایک ہی شخص کی دو شخصیتوں کا احساس جس قدر مجھے اُن سے 1948ء کی آخری ملاقات کے دوران ہوا‘ اُس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے ایک سرکاری کام کے لیے بلایا تھا۔ جب تک سرکاری کاغذات ان کے سامنے رہے‘ انھوں نے مجھ سے محض اسی معاملے پر گفتگو کی۔ میری تجویز پر کڑی نکتہ چینی کی۔ ایک سوال کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا‘ غرض سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ آخر جب پورے طور پر مطمئن ہوگئے اور کاغذات پر دستخط فرما دیے تو اُن کے چہرے پر فی الفور تبسم نمودار ہوا۔ انھوں نے ملاقات میں پہلی بار میرا مزاج پوچھا۔ پھر ہنس ہنس کر باتیں کیں اور رخصت کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ایک ہی ملاقات میں قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کو بھی دیکھا اور اُن سے بہت ہی مختلف ایک اور انسان یعنی مسٹر محمد علی جناح کو بھی۔
سکنہ منٹگمری
اسد ملتانی
جب قائداعظم کا دہلی میں طویل قیام ہوتا اور وہ ہجومِ کار سے گھبرا جاتے تو باغپت (ضلع میرٹھ) تشریف لے جاتے اور غالباً وہاں ڈاک بنگلے میں رہتے۔ یہ ڈاک بنگلہ دریا کنارے واقع ہے۔ منظر بہت اچھا اورجگہ بڑے سکون کی ہے۔ وہیں ایک روز نواب صاحب باغپت نے قائداعظم سے کہا: ’’آپ کا خاندان تو تجارت پیشہ ہے‘ آپ میں کڑک کہاں سے آئی؟‘‘
قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا: ’’نواب صاحب میں تو پنجابی راجپوت ہوں۔ کئی پشتیں گزریں میرے ایک جد کاٹھیاواڑ چلے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے ایک خوجہ کی لڑکی سے شادی کرلی اور انہی کے خاندان میں مل گئے۔ اُس وقت سے ہم خوجوں میں شمار ہونے لگے۔ میرے وہ جد جو کاٹھیاواڑ گئے‘ ضلع منٹگمری کے رہنے والے تھے۔‘‘
جج بطور اسٹیشن ماسٹر
فرخ امین
قائداعظم کی شخصیت کی جس خصوصیت سے لوگ عموماً ناواقف ہیں‘ وہ اُن کی لطافت مزاجی ہے۔ کبھی کبھی وہ کھانے کی میز پر ہمیں مزے مزے کے لطیفے اور قصے سناتے۔ قائداعظم کا سنایا ہوا ایک لطیفہ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے۔ ’’انگلستان کے کسی چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی معمول سے ذرا زیادہ ٹھہر گئی۔ ایک ہندوستانی جج نیچے اتر کر پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔ اتنے میں ایک انگریز بھی گاڑی سے اترا۔ سیدھا جج صاحب کی طرف آ کر اُن سے پوچھنے لگا: ’’گاڑی کب چھوٹے گی؟‘‘
جج نے جواب دیا:’’مجھے کیا معلوم؟‘‘
انگریز نے کہا:’’لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے۔ کیا تم اسٹیشن ماسٹر نہیں ہو؟‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا: ’’نہیں میں اسٹیشن ماسٹر نہیں ہوں۔‘‘
انگریز بولا: ’’اگر نہیں ہو تو ویسے معلوم کیوں ہوتے ہو۔‘‘
لوگوں کا بابا
ممتاز حسن
مجھے یاد ہے‘ 1948ء میں جب مجھے اپنے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا‘ تو مرد، عورتیں اور بچے آ آ کر مجھ سے اُن کی صحت کے متعلق استفسار کرنے لگے۔ ’’بابے نو کی تکلیف اے۔‘‘ ’’بابے دا ہن کی حال اے۔‘‘ ’’بابے دا کی حکم اے۔‘‘ ان لوگوں کو قائداعظم کا پورا نام بھی معلوم نہ تھا‘ مگر وہ جانتے تھے کہ اُن کا ملجا و ماوا ایک ایسا شخص دنیا میں موجود ہے جس کی زندگی اُن کے لیے وقف ہے۔ وہ اپنے ’’بابے‘‘ کی صحت کے لیے دست بدعا تھے۔ وہ اُن کا تھا اور وہ اُس کے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ قائداعظم دولت مندوں کے حلیف تھے۔ مگر جن لوگوں نے انھیں عام مسلمانوں کے مجمع میں دیکھا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ غریب مسلمانوں کے لیے اُن کے دل میں کیا جذبہ موجود تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی بے پناہ عقیدت جو غریب مسلمانوں کو اُن کی ذات سے تھی‘ یک طرفہ ہو ہی نہیں سکتی۔ nn

 

حصہ