ہمارے قائداعظم کی شخصیت اتنی بلند ہے کہ اس کے ایک پہلو پر لکھنا خاصا مشکل ہے۔ ان کی دیانت‘ امانت‘ صداقت‘ غرض ہر بات اپنی جگہ مسلّم ہے۔ مثلاً مسلم لیگ کے ریکارڈ میں سے ایسی چٹیں بھی ملی ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے حسابات درج ہیں۔ اگر کسی جلسے میں چائے پلائی گئی تو اُس کا حساب بھی لکھا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ قائداعظم کی راہنمائی میں مسلم لیگ کے کارکنان اور راہنماؤں میں دیانت اور امانت کا کیسا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی سب سے بڑی صفت اُن کی حقیقت پسندی ہے۔ وہ قوم کی صحیح قوت کو سمجھتے تھے۔ وہ ایسے جرنیل نہیں تھے جو فوج کی صحیح حالت اور قوت سمجھے بغیر اُسے لڑوا اور مروا دیں۔ لیڈر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ کم قوت سے بڑا مقصد حاصل کرلے۔ قائداعظم کا کمال یہی تھا کہ ہر موقع پر اتنی ہی قوت استعمال کرتے جتنی ضرورت ہوتی۔ انھیں جذبات پر بڑا قابو تھا۔ اُن کی بے لاگ منطق ہی سے گاندھی جی کے بھرم میں فرق آیا۔ ذیل میں قائداعظم کی شخصیت کے مختلف پہلو وا کرنے والی تحریریں پیش خدمت ہیں۔
صحافت کی آزادی
الطاف حسین۔ مدیر ڈان
یہ واقعہ یاد کرکے میرا سر اظہارِ تشکر میں جھکتا اور احساسِ فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ایک طویل گفتگو کے موقع پر انھوں نے میرے اخبار کے افتتاحیہ مقالوں میں آزادئ رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے ایک مضمون لکھا جسے چھپے لفظوں میں قائداعظم پر اعتراض سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کا مطالعہ فرما چکے تھے۔ اُسی روز شام کو اُن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے صرف اتنا کہا: ’’میں تمہارا مضمون پڑھ چکا۔‘‘
کچھ دیر بعد اُن کی زبانِ مبارک سے وہ الفاظ نکلے جنھیں میں تمام صحافیوں کے لیے آزادی کا منشور سمجھتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا:’’کسی موضوع پر غور کرکے اپنے دل میں فیصلہ کرو۔ اگر تم اس نتیجے پر پہنچ چکے کہ ایک خاص نظریہ یا اعتراض پیش کرنا ضروری ہے تو بالکل وہی لکھ ڈالو جو حقیقتاً تم نے محسوس کیا۔ کبھی پس و پیش نہ کرو‘ اس خیال سے کہ کوئی ناراض ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے قائداعظم کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرو۔‘‘اس سے زیادہ قدر و منزلت ہمارے پیشے کی اور کیا ہوسکتی ہے؟ حقیقتاً ایک عظیم المرتبت ہستی ہی یہ الفاظ ادا کرسکتی ہے۔
پہلے کام پھر طعام
ایچ اے اصفہانی
محمد علی جناح دوسروں سے کام لینے میں سخت گیر واقع ہوئے تھے، لیکن وہ اپنے آپ کو بھی اُتنا ہی رگیدتے جتنا کہ دوسروں کو! اگر کچھ کرنا ہے تو اُسے جلد کرنا چاہیے، اُن کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ کھانا‘ آرام اور نیند‘ ان سب کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔ کام کو آگے بڑھانے کا جذبہ اور جوش ہی انھیں ٹھیک وقت پر کھانا کھانے یا آرام کرنے سے روکتا تھا۔ اِسی امر نے بعد کے برسوں میں اُن کی جسمانی قوت کو اتنی جلد مضمحل کردیا کہ وہ اُسے بحال نہ کرسکے۔
اپنے کمزور جسم پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالنے سے بالخصوص اپنی زندگی کے چند آخری برسوں میں وہ دق کا شکار ہوگئے جس نے انھیں قبر تک پہنچا دیا۔ مجھے یاد ہے‘ اُن کے ملازم آکر انھیں دوپہر یا رات کے کھانے کا کہتے۔ تب وہ کسی مسئلے پر بحث کررہے یا کوئی مسودہ یا خط لکھوا رہے ہوتے، وہ اُن کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔
بعض اوقات ان کی بہن فاطمہ جناح اپنے بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتیں اور آ کر کہتیں کہ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ لیکن وہ بہت اخلاق سے جواب دیتے ’’بس چند منٹ اور‘‘ یا ’’جاؤ شروع کرو‘ میں ذرا دیر میں تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں گا۔‘‘ انھیں پہلے اپنا کام کرنا ہوتا تھا اور بعد میں کھانے یا کسی اور چیز کا خیال کرتے۔
بمبئی کلاتھ ہاؤس میں دعوت
ولی بھائی
قصہ یوں ہے کہ دہلی میں دورانِ ملاقات سیٹھ حاجی محمد صدیق‘ مالک بمبئی کلاتھ ہاؤس نے قائداعظم سے عرض کی کہ اب کے آپ لاہور تشریف لائیں تو ہماری دکان کو بھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے زینت بخشیں۔ قائداعظم جو مسلمانوں کی بہتری و بہبودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے‘ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ لاہور میں مسلمانوں اور وہ بھی میمن برادری کی ایک شایانِ شان دکان ہے۔ فرمانے لگے، اب کے لاہور آیا تو تمھاری دکان بھی ضرور دیکھوں گا۔
چنانچہ اپریل 1944ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر مسٹر محمد عمر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہوسکتا تھا، اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کرکے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اور پیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو ہم نے انھیں تحفتاً پیش کیے۔ لیکن انھوں نے لینے سے انکار کردیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کا بل پیش کردیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کرلیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کردینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہوکر ہم واپس آنے لگے تو فرمایا کہ اچکن کے لیے حیدرآبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے، باقی واپس کردیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔ چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میں ادھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ، ورنہ کپڑے واپس کردیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا، ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جاکر خدمت میں پیش کردیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہوگی۔ کہنے لگے: ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کرکے لاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کردیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟
اخلاق
ایچ اے اصفہانی
1946ء کا اوائل تھا۔ بنگال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ میں مسلم چیمبر آف کامرس کلکتہ کی طرف سے امیدوار تھا۔ نامزدگی کی تاریخ سے صرف دو روز پہلے چیمبر کے ایک رکن نے اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کرا دیے۔ چیمبر کے پرانے ارکان اور راہنما سب سٹپٹا گئے۔ انھوں نے اسے سمجھایا بجھایا اور دباؤ بھی ڈالا، مگر اُس نے کاغذات واپس لینے سے انکار کردیا۔
اُن دنوں قائداعظم کلکتہ میں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک شام ہم گاڑی میں سیر کرکے واپس آئے تو عبدالرحمن صدیقی جو ایک آزمودہ سیاست دان اور میرے دیرینہ دوست تھے‘ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ وہ مخالف سے ملے تھے۔ لمبی چوڑی گفتگو کے بعد وہ شخص کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ شرط یہ رکھی کہ جو دو سو پچاس روپے فیس کے جمع کرائے ہیں‘ اُسے دے دیے جائیں۔
قائداعظم اپنے کسی خیال میں مستغرق تھے۔ انھوں نے بات نہ سنی۔ صدیقی سے فرمایا کہ وہ اپنے الفاظ دوہرائیں۔ صدیقی صاحب نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح قائداعظم کے ملامت بھرے الفاظ ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہوگئے:
’’روپیہ ادا کردو گے؟ ایک امیدوار کو بٹھانے کے لیے‘ بالواسطہ رشوت؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔ اُسے جاکر یہ کہہ دو کہ تمہاری پیش کش مسترد کردی گئی ہے۔ حسن تمہارا مقابلہ کرے گا۔‘‘
عبدالرحمن صدیقی لمحہ بھر کے لیے بھونچکا رہ گئے۔ پھر سنبھلے اور عرض کیا: ’’میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا۔‘‘ اور چلے گئے۔ ہم عقبی برآمدے میں چلے آئے اور آرام کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
قائداعظم مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’میرے بچے! اُسے یہی جواب ملنا چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کی پابندی نجی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے عوامی زندگی میں کسی غلط کام کا ارتکاب کیا‘ تو اُن لوگوں کو نقصان پہنچاؤ گے جو تم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘
سفارشی رقعہ
محمد حنیف آزاد
قائداعظم سے ملنے کے لیے رائے پور کا ایک اسٹیشن ماسٹر دہلی آیا۔ وہ اُن کے سیکرٹری سے ملا اور بتایا ’’میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
سیکرٹری نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا: ’’قائداعظم ان دنوں بہت مصروف ہیں۔ اگر وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے وقت دیتے رہے تو پھر تحریک پاکستان جیسا عظیم کام کس طرح انجام دے سکیں گے۔‘‘
سیکرٹری نے اُسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا، لیکن اسٹیشن ماسٹر مجھ سے ملا اور بتایا ’’میں بڑی دور سے آیا ہوں۔ قائداعظم تک پہنچنے کے سلسلے میں تم ہی کچھ میری مدد کرو۔‘‘
میں نے اسی دن قائداعظم سے تذکرہ کیا اور انھیں بتایا ’’اسٹیشن ماسٹر کو محض اس لیے ترقی نہیں دی جا رہی کہ وہ مسلمان ہے۔ حالانکہ وہ امتحان بھی پاس کرچکا اور اصولی طور پر اُسے بی گریڈ ملنا چاہیے۔‘‘
قائداعظم اُسی وقت اُس شخص سے ملے۔ ریلوے کے ایک اعلیٰ انگریزی عہدیدار کو رقعہ لکھ کر اس دھاندلی کی طرف توجہ دلائی۔ فوری کارروائی ہوئی اور پندرہ منٹ کے اندر اندر اُسے بی گریڈ دیے جانے کے احکامات جاری ہوگئے۔
اسٹیشن ماسٹر خوشی خوشی کاندھے پر پھلوں کا ٹوکرا لادے قائداعظم کا شکریہ ادا کرنے واپس آیا۔ میں نے جب قائداعظم کو اطلاع دی تو انھوں نے محض اس لیے ملنے سے انکار کردیا ’’میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھ سے کہے‘ میں آپ کا ممنون ہوں یا آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔‘‘ البتہ قائداعظم نے اُسے یہ پیغام ضرور بھجوایا: ’’خوب محنت سے کام کرو۔‘‘