(انڈونیشائی ادب میں ترجمے کی صورت حال(رشید بٹ

195

(تیسری اور آخری قسط)
ہاں، اِن جزائر کو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے اُس وقت کچھ اہمیت دینا شروع کی جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپی طاقتیں نہ صرف خود کمزور ہوتی جارہی تھیں بلکہ نو آبادیات پر بھی اُن کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ ڈچ، اس بحری خطے اور جزائر سے نکلنا شروع ہوئے تو جاپان نے بجھتے چراغ کی آخری بھڑکتی لَو کی مانند یہاں ڈیرا جمانا شروع کیا اور 1940 کے عشرے میں برطانیہ کو بھی یہاں قبضے کی اپج ہوئی،لیکن تب تک پلوں تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ اِن جزائر میں نوآبادیاتی تسلط سے رہائی اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ اوپر کہیں یہ ذِکر آچکا ہے کہ صدیوں پر محیط وقت کے ساتھ ساتھ ایشیائی خصوصاً چینی کسانوں اور تاجروں ، عربی اور ایرانی مسلمانوں اور بھارتی تارکینِ وطن کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہا تھا۔ چوں کہ تاریخ بھی آبِ رواں کی مانند چلتی رہی، اس لیے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِن جزائر میں، بوجۂ قربت، بھارتی دیو مالائی داستانیں اور علم و ادب ابتداہی سے اپنے قدم جماتے رہے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی کے دوران اِن جزائر میں جو علم و ادب پروان چڑھایا، ماقبل کی داستانیں سامنے آئیں، اُن پر بھارتی دیومالائی علم و ادب اور داستانوں کا بہت زیادہ اثر دکھائی دیتا ہے، مثلاً مہا بھارت اور رامائن معمولی علاقائی ثقافتی تغیرّ و تبدّل کے ساتھ یہاں اپنالی گئیں۔ اِسی طرح اور بھی بہت سی بھارتی داستانیں اور لوک کہانیاں یہاں مِلتی ہیں۔ ممکن ہے کمزور پڑتے انگریز عالموں، محققوں اور مترجموں نے اس بنیاد پر یہاں کے علم و ادب کی جانب توجہ نہ کی ہو! بالی کا جزیرہ بھارتی علم و ادب اور مندروں کے حوالے سے اِس کی ایک بڑی مثال ہے۔ دلچسپ بات یہ جانیے کہ صدیوں قبل جب مسلمانوں کی آمد کا آغاز ہوا تو انہوں نے بھی دھیرے دھیرے اُسی علمی اور ادبی انداز کو اپنا لیا۔
اِن جزائر میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا تو چینی تارکینِ وطن اُن پر چھائے ہوئے تھے۔ تاہم مقامی زبانوں پر ڈچ اور بھارتی انداز بہت حد تک حاوی تھا۔بیسویں صدی کے اوائل میں سابق روس اور اس وقت کے سوویت یونین اور پھر چین میں کمیونزم کے اثرات یہاں سب سے زیادہ چینی تارکینِ وطن ( آباد کاروں) نے قبول کیے اور کہا جاتا ہے کہ 1965تک پوری دنیا میں سوویت یونین اور چین کے بعد سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی جزائرِ انڈونیشیا میں تھی اور اس کے ارکان کی سب سے زیادہ تعداد اُن ہی چینی آبادکاروں پر مشتمل تھی۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اِن ہزاروں جزیروں میں مسلمان، ہندو، بودھ، عیسائی سب ہی آباد تھے لیکن اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ابھی ہم نے لسانی اثرات کا تذکرہ کیاتو یہ بھی بتاتے چلیں کہ قومی زبان کا نام تک ’’بھاشاانڈونیشیا ‘‘ ہے۔
1945سے اب تک کے دور کا جائزہ لیا جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ تحریکِ آزادی، عبوری حکومتوں اور پھر مرکزی حکومت کے تمام ادوارسیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور اُتھل پُتھل کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومتیں زبان یازبانوں کے فروغ اور غیر ملکی زبانوں خصوصاً انگریزی زبان میں ملکی تخلیقات کے تراجم کا اہتمام کیوں کر کرتیں؟ یہ ستّر بہتّر برس ہمیں ویسے ہی نظر آتے ہیں، جن سے ہمارے ہاں کے لوگ گزرے اور گزررہے ہیں۔ حکمرانوں کو باہمی آویزشوں، تختے الٹنے ،قتل و غارت گری اور مال بنانے سے ہی فرصت نہ مِلتی تھی، وہ لسانی، ثقافتی اور تعلیمی ترقی پر کیا توجہ دیتے؟ اِس تمام تراذیّت آمیز صورتِ حال کے باوجود لکھاری یا قلم کار کا قلم نہیں رُکتا۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے، بھلے سے اُسے اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں، اپنے ہاتھ کٹوانے پڑیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی سرزمین پر جو ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں، اُن ہی ہاتھوں کو اپنے اور باہر کے باضمیر لوگ نشانِ سپاس سے نواز دیتے ہیں۔ انڈونیشیا میں1960 کے عشرے میں جو قتل و غارت دیکھنے میں آئی، اُسے کسی ملکی لکھاری نے تو قلم بند نہ کیا کہ اُن میں سے بیش تر ممتاز لکھاری پابندِ سلاسل تھے یا خون میں نہلا دیے گئے، تاہم ایک آسٹریلوی قلم کارCJ Koch نے1978 میں”The Year of Living Dangerously”کے عنوان سے شائع کیا، بعدازاں اس پرفلم بھی بنی۔ یہاں سے انڈونیشیا کے بارے میں ملکی اور غیرملکی ( انگریزی) زبانوں میں تحریریں منظرِ عام پر آنے کا عملاً آغاز ہوتا ہے۔
جیناون محمد انڈونیشیا کے ایک ممتاز دانش ورر اور جریدہTempo کے بانی ہیں۔ اُن کا یہ جریدہ سوہارتو دورِ حکومت میں کچھ عرصہ بندش کا بھی شکاررہا۔انہوں نے ایک بار بڑے تلخ لہجے میں کہا: ’’ایشیائی ادیبوں کی تحریریں اُس وقت نگاہ میں آتی یا اہمیت پاتی ہیں، جب وہاں کوئی عذاب آجائے، تباہی مچے، ایسی طویل جنگ چھڑ جائے، جس میں امریکا ملّوث ہو، نسل کُشی ہو، یا سونامی آجائے۔ یہ ساری باتیں اوّلاً تو ذرائع ابلاغ دبوچ لیتے ہیں، اُس کے بعد، اگرگنجایش نکل آئے تو ادبی حوالے یا ادبی شعبے میں جگہ پاتی ہیں۔‘‘
ایسے ہی ایک اور نامم وَر دانش ور کا تذکرہ کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔ اُس کا نام پر مود آنند توئر ہے۔ اُسے 1947 سے اب تک تین بارلمبی اور کٹھن جیل یا ترا بھگتنی پڑی۔ علم و دانش اور وقار میں انڈونیشیا کا نیلسن منڈیلا! ایّامِ اسیری میں وہ بیماری، فاقہ کشی اور بدسلوکیوں کی اکاس بیل سے گزرا۔ اُس کی تیسری ، اور چودہ برس کی طویل اسیری کا زمانہ جزیرہ بورو کے بدنامِ زمانہ زندان میں گزرا۔ اُس نے زندان میں رہتے ہوئے 1950میں اپنا پہلا ناول ’’ مفرور‘‘ (Fugitive) لکھا۔ پاکستان نژاد برطانوی دانش ور، صحافی اور ادیب طارق علی نے پرمود کے ناولFugitive اور البرٹ کامیو کے ناولL’Etranger کاتقابلی جائزہ لیتے ہوئے رائے دی کہ پرمود نوبیل انعام کا حق دار تھا جو اُسے2006 میں اِس بزمِ جہاں سے رخصتی کے وقت تک نہ مِل پایا۔
اِسی طرح لیلیٰ چودھری ایک معروف مصنّفہ ہیں۔ اُن کے ایک ناول ’’ گھر‘‘ کا ترجمہ جان میک گلین نے”Home” کے نام سے کیا۔ یوں انڈونیشیائی ادب اب دھیرے دھیرے عالمی سطح پر جڑیں پکڑ رہا ہے، لیکن ادبی تراجم کی رفتار بہت سست ہے۔ ہم پہلے ذِکر کرچکے ہیں کہ حکومتِ وقت، جو کوئی بھی رہی، اُس نے انڈونیشیائی ادب کے پھیلاؤ اور اُس کے تراجم میں معاونت ، خصوصاً مالی معاونت سے ہمیشہ پہلو تہی کی۔ جرمنی میں کتابوں کا جو عالمی میلہ ہر سال لگتا ہے، اس کے منتظمین نے انڈونیشیائی ادیبوں اور اُن کی تخلیقات کو اپنی جانب راغب کرنے کی برسوں کوشش کی، لیکن راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی رہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ ادبی تراجم کے جو ادارے انڈونیشیا میں کام کررہے ہیں، انہیں حکومت کی طر ف سے مالی معاونت نہ مِلنے پر کام میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرینکفرٹ کتب میلے کے منتظمین نے انڈونیشیا کی حکومت تک رسائی حاصل کی اور بڑی تگ و دو کے بعد بالآخر اِس مد میں سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی معاونت حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکے۔
امریکا کی ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) نے برسوں سے جکارتا میں اپنا دفتراِسی مقصد کے تحت قائم کررکھا ہے ۔ میک گلین اُس کے سربراہ ہیں، لیکن انہیں بھی اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ تراجم کے معاملے میں مالی دشواریاں راہ میں حائل رہتی ہیں۔ اُدھر پر مود آنند کا کہنا ہے کہ ’’ایک ترجمہ شدہ کتاب، دوسرے ملک میں تعینات سفیر سے زیادہ اہم ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں تک پہنچتی ہے اور وہ اُس ملک کے بارے میں حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں۔‘‘
یہ بات بھی نہیں کہ انڈونیشیا میں ادیبوں، محققوں، موّرخوں یا لکھاریوں کا توڑا ہو۔ وہاں ایک سے ایک بڑا ادیب پڑا ہے۔ ایک دل چسپ واقعہ سننے میں آیا۔ 1986کی بات ہے۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ نے انڈونیشیا کے شاعر سپردی جو کو دامونو کو انڈونیشیائی ادب کی خدمت کے حوالے سے ایوارڈ دیا۔ اِس موقعے پر دامونو کو بنکاک مدعو کیا گیا۔ اب دامونو اِس اعزاز کے حوالے سے اپنی کچھ نظمیں شاہ تھائی لینڈ کی نذر کرنا چاہتے تھے اور تب انہیں احساس ہوا کہ اُن کے کلام کا کوئی بھی حصّہ کسی دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہوپایا تھا! اِس موقعے پر اُن کے دوست میک گلین کام آئے اور انہوں نے دامونو کی فرمایش یادرخواست پراُن کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کردیا ،جو ظاہر ہے جنوب مشرقی ایشیا میں عوامی رابطے کی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ پرمود آنند کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ایس رندھیر، اکھدیات مہاراجہ، دیس علوی، سلطان شہریار، روشن انور، شیرل انور، احمد توہاری، مختار اوبیس، فرح باسو کی، دیولستاری،لکشمی پامنتک، انڈونیشیائی ادب، نثر و شاعری، ڈرامے اور ناول نگاری میں چند معروف انڈونیشیائی نام ہیں۔ اِن میں سے کئی لکھاری ایسے ہیں، جنہوں نے 1950 کے بعد کے مختلف ادوار میں قیدو بند کی صعوبتیں سہیں اور اُن کی تحریریں بھی سرکاری بندش کی زد میں آئیں۔ یہ محض چند ایک نام ہیں جو انڈونیشیاکے آسمانِ ادب پر چمکے۔ گم نام یا غیر معروف لکھاریوں کا کوئی شمار نہیں کہ انڈونیشیا کو دنیا کی تیسری بڑی ’’جمہوریت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اپریل، مئی2016 میں تیسرے آسیان ادبی میلے کے جکارتا میں انعقاد کا فیصلہ ہوا تو پولیس نے بڑی بے یقینی کی کیفیت میں اِس کا اجازت نامہ جاری کیا۔ پتا نہیں انہیں کس بات کا خوف تھا؟ اِس سال انڈونیشیا کے ایک اور ادیب اکا کوریناون کوُ بکرانٹرنیشنل پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے لیے اُن کا ناول”Man Tiger” منتخب کیا گیا، جس کا ترجمہ لالودلی سیمبرنگ نے کیا ہے۔
ادیب جینا وان محمد جن کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے، کہتے ہیں کہ’’ ادیب یا لکھاری بھی اِسی دنیا یا معاشرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اِسی کا ایک حصّہ ہوتے ہیں۔ مَیں ستّر برس سے انڈونیشیا میں رہ رہا ہوں اور ایک انڈونیشیائی لکھاری ہوں۔ مَیں نہیں جانتا کہ جو کچھ میرے دل میں ہے، وہ دنیا تک پہنچا سکا ہوں یا نہیں۔‘‘
لُوسی نے، جنہیں انگریزی میں انڈونیشیائی ادب کے تراجم کی کمی کی شکایت رہتی ہے، خود بھی انڈونیشیا ہی کے موضوع پر اپنا آٹھواں ناول ’’ بلیک واٹر‘‘(Black Water) کے عنوان سے لکھا ہے۔
انڈونیشی ادب کے انگریزی تراجم کی کمی کے بارے میں اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
(مرکزی خیال ’’ دی گارجیئن‘‘ سے لیا گیا۔۔۔بشکریہ اجمال 11)
nn

حصہ