فقہ اکیڈمی کے تحت دوسرا فقہی سیمینار فاران کلب کراچی میں منعقد کیا گیا۔ فقہ اکیڈمی بنیادی طور پر جدید فقہی مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا ایک اجتماعی پلیٹ فارم ہے جس کی بنیاد 25 دسمبر 2008ء کو رکھی گئی۔ اس کے بانی و مؤسس مفتی مصباح اللہ صابر ہیں۔ آپ جامعہ حنیفیہ ملیر سے فارغ التحصیل و متخصص ہیں۔ مجلس تاسیسی کے دوسرے رکن ڈاکٹر مفتی نوراللہ خالد ہیں، جب کہ اس کے صدر مولانا عبدالرحیم صاحب ہیں جو کہ سابق مفتئ اعظم پاکستان مفتی محمد شافعی عثمانی ؒ کے شاگردِ رشید ہیں، جب کہ اس کے سرپرست معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک ہیں۔ اس اکیڈمی میں جدید فقہی مسائل پر مختلف عنوانات کا تعین کرکے اصحابِ علم سے مقالہ جات لکھوائے جاتے ہیں اور ان جدید مسائل کا حل نکالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ان مقالہ جات کو افاد�ۂ عام کے لیے شائع بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں اتحادِ امت کی دعوت کو عام کرنا، فرقہ پرستی کا خاتمہ، تحقیقی ذوق رکھنے والے افراد کی تربیت کا اہتمام، اختلافی مسائل میں دینی و ملّی مصالح کی بنیاد پر دلیل کی قوت کی بنا پر کسی ایک رائے کو ترجیح دینا، دینی احکام کی جدید عصری طرز میں تدوین و تشریح کرنا اور جدید حل طلب مسائل کی تنقیح اور ان کے شرعی حکم کی تحقیق کرنا شامل ہے۔
فقہ اکیڈمی کے تحت یہ دوسرا سیمینار تھا جو کہ 17اور 18 دسمبر کو فاران کلب کراچی میں منعقد کیا گیا، اس میں معروف علما نے جدید فقہی مسائل پر پُرمغز مقالہ جات پیش کیے۔ پروگرام میں پانچ موضوعات رکھے گئے تھے اور اسی مناسبت سے اس کو پانچ سیشن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’آن لائن تجارت اور الیکٹرانک کرنسی کی شرعی حیثیت‘‘ تھا۔ اس میں معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر نسیم سرورنے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں آن لائن تجارت کی جائز اور ناجائز صورتوں اور اس کے شرعی احکام پر بحث کی، اور الیکٹرانک کرنسی کی صورتیں، اس کی تاریخ اور اس کے جواز و عدم جواز اور مستقبل میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اس سیشن کی صدارت صدر فقہ اکیڈمی مولانا عبدالرحیم نے کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آن لائن تجارت بنیادی طور پر ایک جائز صورت ہے، اس میں جہاں پر ناجائز صورتیں پیش آتی ہیں ان کے جواز کو ختم کرنے کے لیے ان ذرائع کو اختیار کیا جائے جن کے نہ ہونے سے یہ ناجائز قرار پاتی ہیں۔ الیکٹرانک کرنسی کی وہ صورتیں کہ جن میں تصفیہ کرنے اور نزاع کو ختم کرنے کے لیے حکومت، عدالت، عالمی اور مقامی قوانین اس کی پشت پر موجود ہوں اور وہ صورتیں جائز ہوں، تو الیکٹرانک کرنسی کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس میں قباحتیں اور عدم تحفظ کے امکانات زیادہ ہیں، اس لیے اس سے اعراض کرنا اور بچنا زیادہ ضروری ہے۔
دوسرے سیشن کا موضوع ’’پاکستان میں اسلامی بینکاری‘‘ تھا۔ اس سیشن کی صدارت مفتی ارشاد احمد اعجاز نے کی جو کہ معروف ماہر اقتصادِ شرعی، استاذ جامعۃ الرشید اور بین الاسلامی شریعہ ایڈوائزر ہیں۔ اس سیشن میں مفتی زبیر نسیم، ڈاکٹر مفتی نور اللہ خالد، مولانا نعیم الدین فرخ اور ڈاکٹر اصغر شہزاد نے اپنے مقالے پیش کیے۔ مفتی ارشاد احمد اعجاز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں لیکن معاشرے کی ضرورت یہ ہے کہ سودی بینکاری کا متبادل پیش کیا جائے، عملی صورت میں اس کا متبادل دیا جائے اور یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں کافی وقت درکار ہوگا۔ ماضی میں اس کے تجربات کیے گئے کہ صدارتی حکم کے ذریعے اسلامی بینکاری کے احکامات جاری کیے گئے، لیکن یہ تجربات ناکام ہوگئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر مکمل ہوم ورک کیا جائے اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس کا نفاذ کیا جائے۔
تیسرا سیشن ’’ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچوں کی پیدائش اور ان کے نسب کی شرعی حیثیت‘‘ تھا۔ یہ پہلے دن کا آخری سیشن تھا۔ اس سیشن کی صدارت شیخ الحدیث مفتی عطاء الرحمن نے کی۔ اس سیشن میں مفتی حمزہ سمیع، مفتی حبیب الرحمن، مفتی انس مدنی، مولانا احمد علی اور مولانا سلمان فاروق نے اپنے مقالہ جات پیش کیے۔ مفتی عطاء الرحمن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اس طرح کے نازک اور اہم موضوعات پر اجتہاد وقت کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر علمائے دین ایسے جدید مسائل سے اعراض برتیں گے اور ان کے مسائل کا حل تلاش نہیں کریں گے تو پھر معاشرہ اور عوام ازخود ایسے مسائل کا حل نکالیں گے اور وہ حل اسلامی نہیں ہوگا بلکہ عموماً وہ حل شریعت سے متصادم ہوتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے دین ایسے مسائل کے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ان کا حل تلاش کریں تاکہ لوگ گمراہی کی طرف نہ جائیں۔
چوتھا سیشن بروز اتوار 18 دسمبرشروع ہوا۔ اس کا موضوع ’’جدید فقہی مسائل میں مسلکِ اعتدال‘‘ تھا۔ اس سیشن کی صدارت چیئرمین حلال سرٹیفکیٹ مولانا حافظ ساجد انور نے کی۔
(باقی صفحہ 49 پر)
اس میں مولانا فیصل منصوری، مولانا حافظ سعید، مولانا ڈاکٹر ساجد جمیل اور مولانا نوراسلام نے اپنے مقالے پڑھے۔ مولانا حافظ ساجد انور نے اپنی گفتگو میں کہا کہ دورِ جدید میں فقہی معاملات میں اعتدال بہت ضروری ہے، اس ضمن میں بہت باریک بینی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اور علماء کرام کو اس حوالے سے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پانچویں سیشن کا موضوع ’’ نصابِ زکوٰۃ اور قربانی کا معیارِ شرعی‘‘ تھا۔ اس کی صدارت مولانا عبدالرحیم صدر فقہ اکیڈمی نے کی۔ اس سیشن میں مفتی عبداللہ اسلم، مولانا ڈاکٹر گل زادہ شیرپاؤ، مولانا فضل اکبر اور مفتی مصباح صابر نے اپنے مقالے پیش کیے۔ مولانا عبدالرحیم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اس مسئلے پر تمام علما کو انفرادی فیصلوں سے اجتناب کرتے ہوئے اجتماعی فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ اس پروگرام کا آخری سیشن تھا۔ اس کے بعد مقالہ جات پیش کرنے والے علماء کرام کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئیں۔ آخر میں ڈائریکٹر فقہ اکیڈمی مفتی مصباح اللہ صابر نے اختتامی خطاب کیا۔ انہوں نے تمام علماء کرام کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بڑی جانفشانی سے مقالہ جات تحریر کیے اور اپنے قیمتی وقت میں سے اس پروگرام کے لیے کچھ لمحات نکالے۔ آخر میں مولانا عبدالرحیم کی دعا پر یہ سیمینار اختتام کو پہنچا۔